84

الیکشن ایئریا سیاستدانوں کابہاریہ ایئر

پاکستان کی سیاست کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ یہ سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر ملک کا دیوالیہ نکال دیتے ہیں جس وجہ سیکوئی بھی وزیراعظم کو آج تک مدت پوری نہیں کرسکاآج میں اپنے قارئین کو پاکستان کے عام انتخابات کی تا ریخ کے بارے میں آگاہی دیناچاہتی ہوں سیاست سے لگائو رکھنے والے اس بارے میں ضرورجانتے ہوں گے مگرہم اپنی زندگی میں اتنامصروف ہوجاتے ہیں کہ ہرایک چیز بھول سے جاتے ہیں اس لیے ان کیلئے بھی یقیناً یہ تحریر فائدہ مندہوگی چلیں پھروقت گنوائے بتاتی ہوں کہ وطن عزیز میںآج تک1 عام انتخابات ہوئے ہیں۔جس میں 1962،1970، 1977، 1985، 1990، 1993، 1997، 2002،2008، 2013 اور2018کے انتخابات شامل ہیں۔ 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پا رٹی اور دوسرے کئی چھوٹی بڑی سیاسی پا رٹیاں میدان میں تھیں۔ َعوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں الیکشن نتائج کی رو سے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں جس وجہ سے عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان کو وزیر اعظم بنانا چاہئے۔مگر اسٹبلشمنٹ نے عوامی رائے کا احترام نہ کرتے ہوئے ذولفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم بنایاجس نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ دوسرے عام انتخابات 1977میں ہوئے۔اپوزیشن نے الیکشن نتائج کو رد کیا اور بھٹو کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا دونوں پا رٹیوں میں کشیدگی بڑھی۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے آئین معطل کرکے ما رشل لائلگا دیا۔ بھٹو کو قتل کیس میں پھانسی دی گئی۔ تیسرا الیکشن 1985 میں ہوا جس میں ضیا نے سیاسی پارٹیوں پر انتخا بات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی۔عام انتخا بات سے پہلے ضیائنے ستمبر 1979میں بلدیاتی الیکشن کراویا اور جنوری 1982 میں 228 ارکان کی مجلس شوری بنائی۔ضیائالحق نے 1985 میں غیر سیاسی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔ 1985 کے عام انتخابات میں سندھ سے جا گیر دار
محمد خان جو نیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔مگر ضیائالحق نے جونیجو کی حکومت جنوری 1988 کواس بنا پر ختم کر دی کہ بقول ضیائالحق،جونیجو اسلامی نظام نافذ کرنے کا ایجنڈہ جا ری نہ رکھا۔ضیائالحق جہاز کریش میں وفات ہونے کے بعدسینیٹ چیر مین غلام اسحق خان نے قائم مقام صدر کے عہدے کا حلف اُٹھاتے ہی 1988 کے عام انتخا بات کا اعلان کیا۔اس الیکشن میں دو بڑی سیاسی پا رٹیوں یعنی پی پی پی اور 9 دیگرسیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا۔ ذولفقار علی بھٹو پھانسی کے بعد یہ ایک مظلوم پا رٹی کے طو ر پر الیکشن میں کامیاب ہوئی۔ 1988 کے انتخابات میں پی پی پی نے قومی اسمبلی میں 93 اور اسلامی جمہو ری اتحاد نے 54 نشستیں جیتیں۔ مگر اگست 1990 کو بینظیر حکومت کرپشن بد عنوانی اور امن و آمان کی بگڑتی ہوئی صورت حال بہانے ختم کر دی گئی اور نگران وزیر اعظم مصطفی جتوئی بنا ئے گئے۔ بی بی حکومت ختم ہونے کے بعد پی پی پی، پی ایم ایل (ق)، تحریک استقلال، اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے پی ڈی ایف کی شکل میں ایک اتحاد بنائی۔ اور 1990 کے عام انتخابات میں اسلامی جمہو ری اتحاد 107 نشستیں اور پی ڈی ایف نے 44 نشستیں جیتیں۔ وزیر اعظم نواز شریف بنایا گیا۔1992 میں نواز شریف اور غلام اسحق خان کے اختیارات کے تقسیم پر اختلافات بڑھے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنجو عہ کے انتقال کے بعد علام اسحق خان اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جنرل وحید کو چیف آف آرمی سٹاف بنا دیاجو نوازکو پسند نہیں تھا۔نوا زشریف نے اعلان کیا کہ وہ1993 میں صدر کے اختیارات کم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اُنکے حکومت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔
غلا م اسحق خان نے کرپشن بد عنوانی کی بنا پر نواز شریف حکومت ختم کر دی۔اسکے بعد 1993 کے اتخابات کا اعلان کیا گیا۔ اس میں تین بڑی سیاسی پا رٹیوں نے شرکت کی جس میں پی پی پی، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان اسلامک فرنٹ شامل تھے۔ الیکشن میں پی پی پی نے 86 نشستیں لیں جسکے نتیجے میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بنی۔ اسکے بعد پانچویں الیکشن 1997 کو ہوئی۔ اس لیکشن میں پی پی پی، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی نے حصہ لیا اور جماعت اسلامیئنے اس میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم لیگ(ن) نے 207 نشستیں جیتیں جسکے نتیجے میں نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔چھٹا الیکشن2002 میں مشرف نواز شریف جلا وطنی کے دور میں ہوا۔ اس میں ایک سیاسی پا رٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) اور دوسری سیاسی پا رٹیاں متحدہ مجلس عمل اور پی پی پی تھیں۔ قومی اسمبلی کے 342 نشستوں میں مسلم لیگ (ق) نے 122 نشستیں جیتیں۔نتیجتاً پہلے جمالی اور بعد میں شوکت عزیز وزیر اعظم بنا ئے گئے۔ ساتواں الیکشن2008 میں ہوا۔ اس میں پی پی پی، پی ایم یل(ن) و (ق) نے حصہ لیا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ اس الیکشن میں پی پی پی نے 95 نشستیں جیتیں جسکے نتیجے میں پی پی پی کے یو سف رضا گیلانی اور بعد میں پر ویز اشرف وزیر اعظم بنائے گئے۔2013 کے عام انتخابا ت میں پاکستان مسلم لیگ نے ایک کروڑ 14لاکھ ووٹ لئے جسکے نتیجے میں نواز شریف وزیر اعظم بنا دئے گئے۔ 2018 انتخابات جس میں عمران خان نے جوڑ توڑ کرکے وفاق،پنجاب، خیبر پختونخوا، بلو چستان،آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں بنائیں۔ اگر 2023 الیکشن کی بات کریں تو دور نہیں کیونکہ عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کردیں جس سے 2023کے الیکشن نزدیک تر دکھائی دیتے ہیں۔ اگریہ الیکشن بھی بغیرحکمت عملی کے بغیر کرایے گئے پہلے والے نتائج ہی ملیں گے اور ملک کا مزید نقصان ہوگا۔ ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس سے عام و خاص کے چہرے پر اطمینان کی مسکان نظر آئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں