92

ہم کسی سے نہیں ڈرتے

انسان کو اللہ تعالی نے ایک بہت ہی مافوق الفطرت ہستی بنا کے دنیا میں بیک وقت حکمرانی اور غلامی کے لیے بھیج دیا. طبیعت میں ہیجان اس قدر کہ پل میں تولہ پل میں ماشہ پل میں موجوں کی طغیانی پل میں کامل سکوت انسان بیک وقت اچھا ی کی معراج پہ بھی ہوتا اور بدی کی غلاظت میں لتھڑا ہوا بھی دنیا ہی دو دھاری تلوار نہیں ہر انسان اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوے بھی دو دھاری تلوار کی مانند اپنا دیدار کرتا رہتا ہے. اپنے گردو و نواح میں ایک نظر ڈالیے مختلف اقسام کے مزاجوں سے سجا ہوا گلدستہ ہے یہ دنیا مجھے ساری عمر اپنی فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی کلاس فیلو کی یہ بات بار بار یاد آتی رہی کہ عقلمند تجربے نہیں کرتا دوسروں کے تجربات پہ اپنی زندگی کا لایحہ عمل ترتیب دیتا ہے یہ یک سطری فقرہ ایک عرصے تک مجھے بہت متاثر کرتا رہا اور میں ان لوگوں کو تقریبا پاگل یا نیم پاگل ہی سمجھتی رہی جو روزانہ نت نیے تجربات کر کے اپنی جان کو خواہ مخواہ ہی جوکھوں میں ڈالتے رہے اور ان لوگوں کو میں بہت سراہتی رہی جو کولہو کے بیل کی طرح سیانوں کی طرح اپنی زندگی چند گھسے پھٹے اصولوں دو جمع دو کے اصولوں پہ گزارتے رہے مگر مجھے ذاتی طور پہ وہ لوگ بہت متاثر کرتے ہیں جو اپنی زندگی کو پر خطر راستوں میں ڈال کر مردانہ وار سر اٹھا کر نہ صرف خود زندگی کی کٹھنایاں کا سامنا کرتے ہیں بلکہ بہت سوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہیں وہ جس نے آخری سانس لینے سے پہلے کہا تھاشیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے وہ تاریخ کے اوراق میں امر ہو گیا ہے اور وہ جنہوں نے چند روزہ زندگی کے چند لمحوں کو رنگین کرنے کے لیے اپنے ضمیر بیچ دیے تھے وہ روز قیامت تک مکروہ چہروں اور لعنتی القاب سے یاد کیے جائیں گے لہذا میرا خیال ہے تھوڑا جینا اور سر اٹھا کے شام سے جینا لمبی اور چوہے کی مانند کونے کھدروں میں چھپ کے لمبی زندگی جینے سے بہت بہتر ہے باقی زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے انسانی سرشت میں خطرات سے کھیلنے کی شعوری صلاحیت اللہ نے خود ودیعت کر رکھی ہے۔
حرکت میں برکت ہے۔
سفر وسیلہ ظفر
یہ سب ضرب الامثال انسان کی اسی جبلت کی طرف ایک خفیف سا اشارہ ہیں انسان نے اپنی جان کی سہولت کے لیے بے شمار جتن کیے لوہے کے ڈھیر کو اس مہارت سے جہاز کے سانچے میں ڈھال دیا کہ عقل دنگ رہ گئی ہزاروں میلوں کا سفر چند گھنٹوں میں اور گھنٹوں میں طے ہونے والا سفر منٹوں میں دنیا سمٹ کے ایک آنکھ میں سما گئی ہے گھر سے نکلنے والے کسی بھی بشر کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ آیا اسے بخیر شب کو اپنا پرسکون گھر اور مہربان بستر نصیب بھی ہو گا یا قبر کی آغوش لیکن جو بھی ہے جیسا بھی ہے موسموں اور حالات کی بر بریت بھی انسان کے عزم کی آہنی دیوار کو توڑنے سے قاصر رہی ہے انسان مہم جو ہے نڈر ہے اور محنتی ہے انھی صفات کے بل پہ غاروں میں رہنے والا انسان آج معاشرتی بلندی کے بلند ترین مقام پہ فایز ہے سردیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے آرام دہ گھر گرم اونی ملبوسات گرم پانی کے لیے گیزر ہاتھ پاوں تاپنے کے لیے برفانی موسموں میں گیس اور بجلی سے چلنے والے ہیٹر گرمیوں میں پنکھے اے سی بجلی کے بحران سے نبٹنے کے لیے جنریٹرز اور بے شمار لوازمات کھانے پینے کے لوازمات کے تو کیا ہی کہنے سردیوں کے آغاز میں ہی سڑکوں کے کنارے بھاپ اڑاتی شکر قندیوں اور ڈرای فروٹ کی بہاروں سے سج جاتے ہیں فرای فش روسٹ بروسٹ ہر طرح کے حلوہ جاٹ رنگ برنگی مٹھائیاں باجرے کی میٹھی روٹیاں سرسوں کا ساگ اور مکی کی روٹی مکھن کے پیڑوں کے ساتھ بھانت بھانت کی پنجیریاں السی کی پینیاں گرم بستروں میں دادی کی کہانیاں اور مونگ پھلی ریوڑیوں کے دور اور چاے پہ چاے کی چسکیاں بمشکل ایک ماہ کی سردیاں اور پواڑے یہ. لمبے کہ الایمان انسان کے لالچ کی بھی کوئی انتہا نہیں ایک لالچ کا پیٹ بھر جاے تو دوسرا لالچ خود بخود ہی جنم لے لیتا ہے گرمیوں کے شروع ہوتے ہی املی آلو بخارے کا شربت ستو رنگ برنگے گولے قلفیاں فالودے عجب موج مستی کا سماں بندھ جاتا ہے موسموں کی سختی اپنی جگہ انسان کی موسم سے جنگ و جدل کی داستان اپنی جگہ انسان ہار نہیں مانتا ہر وقت ایک دھن میں گرفتار رہنا ہی زندگی کا نشان ہے سیانے کہتے ہیں جو ڈر گیا وہ مر گیا بالکل صحیح کہتے ہیں اونچی اڑان اور مصمم ارادہ رکھیے کسی کا حق مت کھایے کسی کے ساتھ زیادتی مت کیجئے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کیجیے آپ کی زندگی میں خود بخود آسانیاں پیدا ہو جائیں گی چھوٹی سی چند روزہ زندگی میں محبت کے پھول اگایے کانٹے تو پہلے ہی چہار سو ہیں آپ محبت کا الاپ الاپیے دنیا ایک عجب طرح کی بے حسی اور خوف کے غبار میں لپٹ رہی ہے اوذون کا حفاظتی بند تو پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے انسانیت اور مروت کا خون ہونے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی آسانیاں بانٹیے اور روتے ہووں کے آنسو پونچھ لیجیے۔
گھر سے مسجد ہے بہت دورچلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسا کر دیکھیں
ان گروپ بندیوں سیاسی جماعتوں کی تو تکرار سے اگر بھوکے کو روٹی اور ننگے کو لباس مل سکتا ہے تو پھر ضرور ان گروہوں کو ہلا شیری دیجیے اور اگر اپنی روزی روٹی آپ کی ذاتی ذمہ داری ہے تو پھر ایک پل کو غور کیجئے کہ آپ کیوں خواہ مخواہ اپنے آپ کو بیکار لوگوں کے لیے برباد کر رہے ہیں اپنا قیمتی وقت اپنے آپ اور اپنے پیاروں کو دیجیے میری ساس پچھلے دو سالوں سے بستر مرگ پہ ہیں مجھے اپنے شوہر نامدار کے حوصلے اور لگن پہ رشک آتا ہے صبح والدہ کو ناشتہ اپنے ہاتھوں سے کروانا دوا دارو کرنا انسولین لگانا تھوڑی دیر کلینک پہ بیٹھنا اور پھر گھر دوڑ لگا دینا کہ کہیں ملازمین والدہ کی خدمت میں کو ی کوتاہی نہ کر جایں ساری رات والدہ کے بستر کے ساتھ لگ کے بیٹھنا کہ والدہ کو جس چیز کی ضرورت ہو فورا سے پہلے مہیا کی جائے اور میں دعا کرتی ہوں کہ ایسا بیٹا خدا ہر ماں کو دے جو اس کے بڑھاپے میں اسے سنبھال سکیبعد مرنے کے واویلا مچاتی بہت اولادیں دیکھی ہیں لیکن جیتے جی والدین کی خدمت کرنے والے چند ایک یہ دیکھے ایک میری بہن حمیرا بھائی احمد جنہوں نے چار سال تک والدہ کو ہتھیلی کا پھپھولا بنا کے رکھا اور دوسرے ڈاکٹر شاہد اشرف سبحان اللہ تو زندگی کا ایک مشن ہونا چاہیے اونچی اڑان اور اونچی مچان مت ڈریے ۔
ہم نہیں ڈرتے زمانے تجھ
لاکھ ہیں ستم گر ہیں چالیں تری
لاکھ ہی اوچھے ہیں تیور تیرے
ہم اپنی راستی کے کندھوں پہ
بڑے شاداں ہیں بڑے فرحاں ہیں
تیری ان الٹی سیدھی چالوں سے
چار سو پھیلی ہوئی گھاتوں سے
د نیا اب کچھ بھی ڈر نہیں لگتا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں