96

آو سب مِل کر روتے ہیں

خالقِ کائنات کی قدرتِ لاریب ہے کہ سورج ہر روز مشرق سے وقتِ معینہ پر نکلتا اور پھر مغرب میں غروب ہوتا ہوا ہمیں کائنات کی بے ثباتی کا درس دیتا ہے،کہ اپنے وقتِ خاص پر ہر شے نے ٹوٹنا،ڈوبنا اور فنا ہونا ہے۔اور یہ بھی ظاہر کرتاہے کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے درمیان ہی زیست کا سارا حسن و رعنائی،رقص،عکس، اور نقص ہے،بس یہی زندگی ہے۔سورج ہی کے قدرتی عمل سے لمحوں،گھنٹوں، دنوں،ہفتوں،سالوں اور صدیوں کے وجود کا پہیہ گھوم رہا ہے۔ہر سال کے ختم ہونے پر ہر بار ایک نیا سال دنیا کے کیلنڈرز پر اپنی نمود پاتا ہے۔وقت جو بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے انسانوں نے اسے اپنے حساب کی رسی اور نکیل ڈال کر دنوں،ہفتوں اور مہینوں میں قابو کیا ہوا ہے،لیکن بند مٹھی سے سرکتی ہوئی ریت کی طرح اس کے باوجود بھی وقت جو ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا یے۔مسندِ وقت پر ایک نیا سال براجمان ہوجاتا ہے۔جو روز و شب کی صورت میں کتابِ زیست کے ورق پلٹ پلٹ کر ہمیں ایک حقیقتِ ابدی و ازلی,دنیا کی بے ثباتی سے روشناش کرواتا ہے،لیکن ہم ہیں کہ زندگی کی اِس رنگین کتاب کی وقتی سی،علامتی تصویروں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ابھرتے سورج سے شعور پاتے ہیں نہ ڈوبتے سورج سے نصیحت پکڑتے ہیں۔نشئیوں بھنگیوں کی طرح ایک اور سال بے مقصد و بے فائدہ گزار کر موت کے مزید قریب ہوکر اپنی اصلاح اور غلطیوں گناہوں کی معافی تلافی کے بغیر ہی اپنی اصلاح کا
موقع ضائع کردیتے ہیں۔دراصل ہمیں اپنی کوتاہیوں،کمیوں اور غلطیوں پر پشیمان ہوکر گڑگڑانا چاہئیے۔ہم کس قدر بے وقوف ہیں کہ نئے سال کی آمد پر اپنی اس محرومی اور گھاٹے پر خوشیوں کے طبل،بِگل اور ڈھول بجاتے ہیں۔بڑی رنگا رنگ تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔اور یہ بیشتر تقاریب ہمیں کسی مثبت،اصلاحی اور انقلابی نہج پر نہیں ڈالتیں
بلکہ ہلا گلا کلچر کی شکل میں تعمیری سوچ کے بجائے انہدامی اور بے راہروی کی طرف دھکیلتی ہیں۔ہم ہلا گلا اور شور و غوغا کے کلچر میں خوش رہنے والے کوئی انسان نما پرندے ہیں۔ہم نے وقت کے بدلتے ہوئے دھاروں اور حالات کے تیوروں سے کبھی کچھ نہیں سیکھا۔آو سب لوگ عزم کریں کہ ہم کسی بھی نیلے،پِیلے اور کالے”چڑھتے سورج کو سلام”کرنے کے بجائے اس مذکورہ محاورے میں اپنی دانش اور فہم بھرکر وقت کو اپنے لئیے مفید بنائیں گے،نہ کہ اندھوں کی طرح ہر چڑھتے سورج کو سلام کرکے جہالت کی سولی پر چڑھ کر اپنے آپ کو تباہی کی عمیق گہرائیوں میں گرا دیں گے۔سورج کے ابھرنے اور ڈوبنے کی حقیقت اور فلسفہ کو سمجھ کر
سال در سال مثبت تبدیلی اور تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔مسائل میں پورا سال گزارنے کے باوجود بھی ہر نئے سال پر ہم چیختے ہیں ماضی سے سیکھتے نہیں۔سال آتے جاتے رہتے ہیں۔ہم وہیں کے وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں۔عبث ہے وہ لمحہ جس سے ہم نے کچھ سیکھا نہیں۔ہر سال کی رپورٹس اور تجزئیے دیکھیں تو ہماری کوتاہیوں، جرائم،عیاریوں مکاریوں، اخلاقی بیماریوں اور گناہوں بھری الماریوں میں اضافہ ہی اضافہ نظر آتا ہے۔ہم کدھر جارہے ہیں،ہم جہالت ،ذلالت اور اپنی آپ وکالت سے کب باہر نکلیں گے۔اگر ہم خود کو بدلنے اور صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کے لئے تیار نہ ہوئے تو پھر نئے سال پر پٹاخے پھوڑنے،چھرلیاں چھوڑنے،نت نئی رسموں سے وقتی سا لطف و سرور نچوڑنے، محفلیں جمانے اور مبارکبادیں دینے کا کیا فائدہ؟۔اگر گزشتہ سال میں ہمارے کرتوتوں اور کوتاہیوں کے انبار ہمارے سامنے ہیں۔اور پھر اِن سے کچھ نہ سِیکھنے کے مرض میں ہم مبتلا بھی ہیں۔پھر کیسی خوشی،کیسے شادیانے۔کیسے شامیانے، قناتیں،رنگین راتیں اور تِکہ کباب،شراب اور شباب کی کیسی محفلیں۔ہم نے ہمیشہ ان کھابوں کے چکر میں خوابوں کو کھویا ہے،تعبیروں کو گویا زندہ درگور کردیا ہے۔نیا سال آنے کا کیا فائدہ اگر ہم نے گزرے سال سے کچھ نہیں سیکھا،سال تو آتے رہیں گے۔افسوس کہ ہم فِکری اور عملی حوالے سے وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔خود کو تعمیر میں ڈال سکے نہ تعبیر میں ڈھال سکے۔آو اس جہالت اور محرومی پر سب مِل کر،خاکِ ندامت چہرے پر مل کر روتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں