107

تصویر کائنات

آج کے دور میں ادب کی دنیا بہت وسیع اور لیکن محدود ہو چکی ہے ابھی بھی کچھ احباب صحیح معنوں میں زندہ ہیں اور اپنے حصے کے دیئے جلانے میں پیش پیش ہیں۔
تو محنت کر محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو دیوا بال کے رکھ لے ہوا جانے خدا جانے
زیر نظر کتاب تصویر کائنات ہماری بہت ہی نفیس اور پیاری شاعرہ راحت ثمر کی خوبصورت تخلیق ہے راحت صاحب کا تعلق گوجرنوالہ سے ہے اور شاعری کا شوق انہیں بچپن سے ہے چھٹی جماعت سے انہوں نے نظم کہنا شروع کی اس سفر میں راحت صاحبہ کے والد صاحب نے انکی بہت حوصلہ افزائی کی اور باقاعدہ اخبار میں انکا کلام چھپنے لگا یہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا جو کہ انکی فیملی کے لئے بڑے فخر کی بات تھی اور ایم اے انہوں نے شادی کے بعد کیا ان کے دو ہونہار بیٹے ہیں ماشااللہ سے راحت صاحبہ نے لاہور سے باقاعدہ نیوز کاسٹینگ کی تربیت حاصل کی اور کچھ عرصہ کام بھی کیا لیکن لاہور آنے جانے میں دشواری کی وجہ سے اس کام کو خیرباد کہہ دیا ایک عرصہ کالج میں بھی پڑھاتی رہیں ہیں اور گھر پہ بھی بارہ سال اسکول چلایا مطلب راحت صاحبہ بہت ایکٹو اور باہمت خاتون ہیں بہت ملنسار اور ہنس مکھ جب بھی ملتی ہیں ایک مخصوص ہنسی انکے ہونٹوں پہ رقصاں ہوتی ہے ہمیشہ محبت اور خلوص سے ملتی ہیں راحت ثمر کی یوں تو تین کتابیں ہیں دشت دروں حسن انتخاب اور تصویر کائنات لیکن حسن انتخاب اور دشت دروں دونوں مشترکہ ہیں جب کہ تصویر کائنات انکی ذاتی تصنیف ہے تصویر کائنات میں الفاظ و خیال کا ایسا تانا بانا ہے کے پڑھنے والا پہلے صفحے سے آخر تک بہت دل جمعی سے آگے بڑھتا ہے انتساب پر نظر پڑتے ہی آنکھوں میں بے ساختہ نمی اترنے لگتی ہے ۔
امی اور ابو جی کے نام
بیشک ہر انسان کی کامیابی کے پیچھے اس کے والدین کی انتھک محنت اور لگن شامل ہوتی ہے جیسے ہی ہم ذرا آگے بڑھتے ہیں تو جناب ڈاکٹر الماجد المشرقی ۔ پروفیسر لالہ رخ بخاری اور پروفیسر قاضی اعجاز محور صاحب کے الفاظ جگمگاتے نظر آئیں گے ان سب احباب نے اپنے اپنے خیال کے مطابق راحت صاحبہ کے کردار و الفاظ کی بہت صحیح وضاحت کی ہے ان سب کے تبصرے پڑھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ راحت صاحبہ بہت روایت پسند اور جدت پسند ہیں وہ دونوں ادوار کو ساتھ لے کر چلتی ہیں راحت ثمر انتہائی سادہ مزاج اور پرخلوص انسان ہیں جیسے ہی ہم آگے بڑھتے ہیں حمد کے روشن الفاظ اپنے رب سے محبت کی تفسیر نظر آتے ہیں ۔
مجھے شکر کرنا سکھا کہ میں کروں شکر تیری عطاں کا تیری رحمتیں ہیں اتر رہی میرے خستہ حال مکان میں
بہت ہی خوبصورت لفظ میں رب سے عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے اسی طرح نعت شریف میں کہتی ہیں کہ
محمد کے مدحت نگاروں میں شامل
میں ہو جاں روشن ستاروں میں شامل
الفاظ کی ایسی تسبیح کہ پڑھنے والے کی روح سرشار ہو جاتی ہے دعاگو ہوں کہ ان الفاظ کے صدقے اللہ راحت صاحبہ کو اور دے زور قلم زیادہ آمین الفاظ اور آنکھوں کا یہ سفر ایسے ہی جاری تھا ۔
بنایا آج تک ہم نے ہی ناتا
تیری جانب دے زحمت چاھتے ہیں
واہ کیا سادگی ہے اور الفاظ کا حسن کہ ایسے لگ رہا جیسے ہمارے ہی دل کی بات کہی جا رہی ہو اسی طرح ذرا اس شعر کی معصومیت دیکھیئے اور داد دیجئے راحت صاحبہ کو یوں تو بہت سا کلام بہت سے احباب نے بچپن پہ لکھا ہے اور کچھ اشعار اور غزلوں نے لکھنے والوں کو پہچان بھی دی اسی طرح راحت صاحبہ نے بھی ایک غزل اسی موضوع پہ لکھی ہے جسے پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ کاش وہ وقت پھر لوٹ آئے ویسے تو اس غزل کا ہر شعر ہی بہت خوبصورت ہے لیکن یہ شعر دیکھیے ذرا
اماں کے جھڑکنے پہ جو بابا کو سناتے
شکوے کا وہ معصوم فسانہ کوئی لا دے
شروع سے آخر تک سارا کلام ہی بہت دلفریب ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھنے کو دل کرتا ہے کچھ متفرق اشعار آپ سب پڑھنے والوں کی نذر ذرا غور کیجئے گا ۔
سکون خاک ہوا وقت کے بدلنے سے
اسی قرار میں رہتے تو بہت اچھا تھا
ہیں میرے ہی چرچے سبھی کی زبان پر
سبھی میری اک اک ادا چن رہے ہیں
بیٹھا رہا وہ غیر کے گلشن کی چھائوں میں
اپنے لئے ہی پیڑ لگاتا تو مانتے
راحت صاحبہ کو چھوٹی بحر پہ بھی عبور حاصل ہے لکھتی ہیں ۔
تیرے ترش لہجے کے تیر بھی
ہیں لگے ہوئے مری روح پر
واہ کیا بات الفاظ کے اس سفر میں ایک منزل ۔ماں ۔بھی آتی ہے پہلے شعر سے آخری شعر تک پڑھنے والا بہت ہی عقیدت سے پڑھتا ہے راحت صاحبہ نے اپنے دونوں بیٹوں عاطف اور عمار کو بھی اپنے خوبصورت الفاظ کے پھول پیش کیے ہیں ۔
بھٹک نہ جا کہیں راہ کے اندھیروں میں
میں روشنی کے لئے آنکھوں کا دیا بھیجوں
اور اس پہ غور کیجئے ذرا
نئی بہاروں نے اپنے دامن میں جتنے دلکش
گل و گلستان ہیں سنبھالے تمہارے نام
ایک ماں کی محبت سے لبریز موتی جو اپنی شدت کو بیان کر رہے ہیں غزلوں کے بعد نظم کا سلسلہ شروع ہوتے ہی نظم تصویر کائنات بہت عمدہ الفاظ سے سجی ایک انمول شہکار ۔اور سبھی کی پسندیدہ شاعرہ پروین شاکر صاحبہ کے نام غزل دیکھ کر بے ساختہ دل میں اداسی سی چھا جاتی ہے بلاشبہ ایک لاجواب و کمال شاعرہ تھیں اللہ مغفرت کرے آمین اور آخر میں ہماری بہت ہی پیاری شاعرہ آپی عرفانہ امر صاحبہ کے کومل الفاظ جو راحت صاحبہ کے لئے ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں کو پڑھ کر سچ میں دل خوش ہوا ان کے الفاظ راحت صاحبہ کی تصویر ہیں راحت صاحبہ ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جتنا لکھوں کم ہے دعا ہے کہ آپ اسی طرح اپنے الفاظ سے محبتوں کو بانٹتی رہیں بہت نام کمائیں اولاد کی خوشیاں دیکھیں اور ہم ہمیشہ آپکو ایسے ہی ہنستے مسکراتے دیکھیں آمین آخر میں انہی کے خوبصورت الفاظ آپ سب کی نذر
دنیا سے مت پوچھو دنیا کیسی ہے
جیسے تم خود ہو یہ دنیا ویسی ہے
اپنا چہرہ دکھتا ہے آئینے میں
جیسے دیکھو گے یہ دنیا ویسی ہے
خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں