104

اگر کوئی ساتھ چلے

بہت سال پہلے کی بات ہے ہمارے کالج کی مسجد میں وہ خطیب تھے ایسے لگتا تھا کہ اک آفتاب ہے جس سے روشنی کی محبت کی کرنیں پھوٹ رہی ہوں ۔ میڈیکل کالج کا کیمپس بڑا وسیع تھا مسجد ایک ہی تھی بڑی وسیع و عریض بالکل بادشاہی مسجد کی طرز پر تعمیر کی گئی وہ بزرگ اک معروف دینی تنظیم کے اکابرین میں سے تھے ۔ اللہ جل شانہ نے انکی خدمت میں رہنے کی توفیق دی تو میں دیکھا کرتا کہ پاکستان کی بہت سے شہروں اور بیرون ملک سے ایم بی بی ایس کرنے کے لیئے آنے والے الڑا ماڈرن لڑکے ان کے قریب ہوتے جاتے ۔ ایسا لگتا تھا کہ انکے اردگرد محبت بھر ا اک مقنا طیسی ہالر ہے جو نوانوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا بس پھر کیا دیکھتا کہ سبھی الڑا ماڈرن تہذیب و تمدن دینی خطوط میں ڈھل جاتی ۔ اک روز ہمت کرکے میں نے پوچھ ہی لیا۔
،، رب سے تعلق کیسے بنا کیسے استوار ہوا کوئی اتار چڑھائو؟ ،،
وہ اس وقت فجر کی نما ز کے لیئے وضو کر رہے تھے ۔ فرمایا
،، بیٹا 60 سال ہو گئے ۔ مگر کبھی تعلق میں رخنہ نہیں آیا ۔ اس نے اپنا بنا لیا تو پھر کبھی دور نہیں کیا بس مالک ساتھ لے کر ہی چلا،،
اپنے مالک کی طرف چلیں تو کیسا سہانا سفر ہو گا اچھا سنگ مل جائے تو راستے اور خوبصورت ہو جائیں گے ۔
میں دی جھوک رانجھن دی جاناں نال میرے کوئی چلے
یعنی میں اپنے محبوب حقیقی کی طرف جانا چاہتا ہوں اگر کوئی میرا ساتھ دے تو کیا محبت بھر اسفر ہو گا اس سفر میں اگر کوئی صعوبت آئی بھی تو وہ رکاوت نہیں سنگ میل ہے لوگ مغفرت کو اک بڑی نعمت سمجھتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں مگر مغفرت تو محبت والے اس راستے کی گری پڑی چیز ہے ۔ مایوسی بے قدر ی اور دوری اسے راستے کی تو ہین ہے اور منزل کھوٹی کرنے والا رویہ ہے بس دل میں اس کی یاد رچ بس جائے ورد جاں ہو جائے تو کہیں دور جانے کی ضرورت ہی نہیں یہ دل منزل بنے یہی مالک کا گھر ہے جس کی منزل اسکے اپنے ہی آنگن میں آن ملے اس سے زیادہ خوش نصیب اور کون ہو گا یہ اپنی ہی زبان کی نوک سے اپنے ہی دل کی تہہ تک اتر جانے کا سفر ہے اور اس سفر میں رکنا یا کہیں ٹھہر جانا منزل دور کرنے ہی کا ذریعہ بنے گا کس قدر عجیب بات ہے کہ زبان سے دل تک کا یہ دس انچ کا سفر آج مسلمانوں کی اکثریت کے لیئے ناممکن بن رہا ہے دل میں لگن والی اک شمع جل اٹھے تو یہ سفر آسان بھی ہو سکتا ہے ۔
اب جس راستے پر چلا رہی ہے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں بس یہ اک جذبہ ہے نہ تو اس کی کوئی گرائم ہے نہ ہی اس کا کوئی فارمولا ہے محبت کا ہی خیال اک آرزو پیدا کرتا ہے یہی آرزو منزل تک لے کر جاتی ہے یہی راستہ طے کرواتی ہے یہی دل بنے گی یہی دل کی دھڑکن بنے گی کہ اس آرزو کو پیدا کرنے والا بھی تو محبوب حقیقی ہے اب اس آرزو کے پالن کے لیئے کچھ دیر کے لیئے گوشہ نشینی بھی ضروری ہے مخلوق سے کت کر رہنا رہبانیت ہے جس کا اسلام میں گزر رہی نہیں مگر کچھ دیر کے لیئے سارے کام چھور کر اک طرف بیتھ کر اسے پیار کرنا اسے یاد کرنا و ظائف کر لینا اس سے دل کی بات کر لینا دور شریف پڑھنا سوچ کی بلند ی عطا کرتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں
1۔ اگر کوئی تخلیق کا رہے کالم نگار ہے شاعر ہے یا مصور ہے تو وہ کچھ دیر لے لیئے اللہ کی یاد میں محو رہے گا تو یہ تہنائی سوچ کی گہرائی تخلیق میں معاون ثابت ہوئی پھر اس کے قلم سے یا ہاتھ سے اس کے ذہن رساسے اک شاھکار نکلے گا۔
2۔ اگر وہ تخلیق کار نہیں بس چاہنے والا ہے تو بھی اس یاد میں اس تنہائی میں وہ فنکار بنے گا اصلی او رسچل محب بنے گا محبت کی مدارج طے کرے گا اس راہ میں اگر کوئی اچھی سنگت مل جائے تو پھر روحانی ستائش بھی ملتی ہے اور فرد تنی بھی درد مندی بھی ملتی ہے اور عاجزی سادگی بھی اور برحستگی بھی قربانی کا جذبہ بھی عطا ہوتا ہے اور خدمت کی تڑپ بھی ساتھ لے کے چلنے والے دیکھتے ہیں کہ محبت کی ان راہوں پر بلندی بھی ملی اور بے قراری بھی اور بے قرار بھی ایسی کہ جس پر ساری دنیا اور سارے جہاں کے قرار قربان ہوں ۔
دل کی جو صفائی اس راستے میں ہو سکتی ہے یا ممکن ہے اور کہیں بھی اس کی نظر نہیں ملتی معرفت کا جو بیج یہاں ملتا ہے وہی بعد ازاں تنو مند درخت بنتا ہے یوں اس راستے کے مسافر لوگوں کو کچھ اور اچھے طریقے سے اللہ کی طرف بلا بھی سکتے ہیں اور راغب بھی کر سکتے ہیں اس کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ پھر دل اور جسم کی آواز ایک ہو جاتی ہے اب چاہنے والے کے سامنے دو واضح راستے ہوتے ہیں اور اسے ان میں سے بہر حال کسی ایک کو چننا ہو تا ہے ۔
1۔ دنیا کی دولت
2۔ اللہ کا تعلق
یہ چنائو اللہ کی محبت پالینے کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور منزل بھی راستہ بھی یہی ہے اور آخری مقام بھی یہی ہے سلطان العارفین حضرت سلطان باہو فرماتے ہیں ۔
نالے اللہ تائیں لوڑیں نالے طالب زر د ا ہو
یعنی زرو جواہر اور دنیا کی محبت مال کی محبت اور یہاں تا دیر رہنے کی خواہش کو تو دل سے نکالنا ہو گا سبھی سمجھ آئے گی کہ کوچ قیام سے بہتر ہے جب جانا ہی ہے ۔ اس دنیا کو چھوڑنا تو ہے ہی ییہ جو ماربل اور ٹائلوں کے خوش نما گھر بنائے ہیں ان سے نکل کر چارفٹ چوڑے اور چھ فٹ لمبے گھر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے رہنا تو ہو گا ہی تو کیوں نہ جانے والی حالت جانے سے پہلے اخیتار کر لیں جیسے شاعر نے کہا تھا کہ غم کو اختیار کر گزرے تو غم نہ ہو یہ کیفیت اگر حاصل ہو جائے تو بندہ اللہ کا ہو جاتا ہے اور اللہ تو ہے ہی بنفدے کا وہ انتظار کرتا ہے کہ کب میرا بندہ مجھ سے صلح کر لے وہ تو اسی خوشی میں عرش پر چراغاں کرتا ہے کہ وہ محبت کا قدر دان ہے محبت کرنے والے بھی اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں اسی لیئے وہ حضرت شاہ حسین کی زبانی کہتے ہیں
عاس جھڑے جھڑ پنجر ہو یا کن کن ہوئیاں ہڈیاں
عشق چھپایاں چھپدا ناہیں برہوں تنا واں گڈیاں
رانجھا جوگی میں جوگیانی کملی کر کر سدی آں
کہے حسین فقیر سائیں دا دامن تیرے لگی آں
یعنی عشق میں میرا جسم ہڈیوں کو چھوڑ گیا ہے اور میری جلد پرجھریاں پڑ گئی ہیں چھپایاں کا مطلب ہے چھپانے سے یعنی پوشیدہ رکھنے سے برہوں ہجر جدائی یا غم کو کہتے ہیں ۔ فقیر فقر والا ہوتا ہے یہاں مراد ہے اللہ کی راہ پر چلنے والا یعنی وہی راہ جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں ۔
اپنے حقیقی محبوب کو یاد کرنے کے لیئے وقت کی پابندی بھی تو راہ شوق میں لائق تحسین نہیں کہ سبھی وقت اس مالک کے ہیں وقت کا ناپ تو ل کر کے اسے یاد کیا تو کیا یاد کیا ؟ ایسی پابندی کرنے والا عاشق صادق کہلوانے کا حق کھو دتیا ہے کیونکہ سارے دن ساری راتیں اور سارے لمحے محبت ہی کے لمجے ہیں یہ سب محبوب کے نام کر دیں جب بھی جہاں بھی وقت ملے بس ذرا گردن جھکائی اور یادوں کا سلسلہ ذکر کا سلسلہ شکر کا سلسلہ استغفار کا سلسلہ دعائوں کا سلسلہ منائوں کا سلسلہ التجائوں کا سلسلہ اور چاہت کا سلسلہ چل نکلا ۔ کیونکہ حقیقی محبت کے سبھی راہی اک چراغ کی مانند ہوتے ہیں ان کا کام محبت کی روشنی بانٹنا ہے
جہاںرہیں گے وہیں روشنی لٹائیں کسی چراغ کا کوئی مکاں نہیں ہوتا
دنیااک آئینہ خانہ ہے جہاں زندگی حیران کھڑی ہے کس قدر تعجب کی بات ہے کہ عموما یہاں احباب عزیزو اقارب اور بہت سے چاہنے والوں کے باوجود ہر کوئی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے ایسے میں ہم کہتے ہیں کہ آئیے جھو ک رانجھن کی طرف چلیں یعنی پیار کی راہوں پر چلیں پیار کے راستے بلائیں تو انکا نہ کیجئے گا کوئی ساتھ ملے تو اس راہ میں وہ بھی ہمسفر ہے یہاں نماز ہ نہیں دیکھا جاتا اور ساغرو مینا کی کرامات کا بھی یہاں گذر ممکن نہیں یہاں نہ تو کوئی شوبز ہے نہ یہاں گلیمر کی بات ہوتی ہے نہ ہی کوئی سمارٹ نیس دیکھی جاتی ہے یہاں کسی انوکھے دلبری والے اسٹائل کی بھی مانگ نہیں ہوتی یہاں خوبصورت نین نقش بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے حقیقی محبت کی راہوں پر اس طرح کی دنیاوی قاتلانہ ادائوں کا بھی کہیں ذکر نہیں ہوتا پھر مال ومتاع کی بھی یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہمارے ہاں تعلقات میں عموما پے اسکیل اور بیور کریسی کی کوئی نہ کوئی پرائز پوسٹ دیکھی جاتی ہے مگر جھو ک رانجھن دی جانا ہو تو ایسی کسی پوسٹ کے بارے میں بھی اللہ والے پوچھتے ہیں نہ حق تعالی شانہ اسے اہم گردانتے ہیں ۔
محبوب حقیقی کی نظر میں صرف دل ہے تڑپ ہے ایمان ہے قرب کی خواہش ہے یقین کی بلندی ہے تصدیق کی گہرائی ہے یہاں خوبصورت سرخ و سفید رنگت والے مشرکین مکہ کی بجائے سیاہ فام بلال بلکہ سیدنا حضرت بلال کی ہے لغیثت بنوی ۖ کے بعد ائول سید نا حضرت ابوبکر نے ایمان اور یقین سے ایک اللہ کی گواہی دی ان دنوں ان کی چھ ریشم کے کپڑوں کی دوکانیں تھیں بعد ازاں مسلمانوں میں حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف صاحب ثروت تھے بقیہ مہاجرین اور انصار کے ہاں دولت کی ریل پیل نہیں تھی مگر حق تعالی شانہ نے ان سے راضی ہو جانے کا اعلان دنیا ہی میں کر دیا دنیاوی محبتیں جن میں بیش قیمت ملبوسات کی کریز ٹوٹنے کا ڈر دامن گیر ہو جہاں بوٹ کی ٹوہ زیادہ چمکتی ہو مگردلوں اندھیرا ہو وہاں اک آفاقی محبت کا گزر ممکن ہی نہیں یہاں کمال نے نوازی کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ پیار تو لامکاں تک جاتا ہے ۔ ان محبتوں کی رسائی تو سدرہ المنتہی تک ہے دنیا کے تعلق کی جولان گاہ بس زیر آسماں تک رہتی ہے مگر حقیقی پیار کی راہیں عرش بریں تک جاتی ہیں کیونکہ اللہ والوں کی محبت کا مرکز ہی عرش بریں کا مالک و خالق ہے ۔
اب اس محبت قومیت کی بھی کوئی بات اہم نہیں تھی نہ ہے اپنے گھر والے ہدایت کو نہ پا سکے مگر سیدنا حضرت سلمان فارسی سے آ کر حضرت فہیب روم سے آ کر یہ دولت پا گئے یہاں جو چاہنے والا خاکی ہے وہ ملک و مال سے بے نیاز ہے ۔
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جو ہر ملکو ں خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غرب گھر میرا نہ دلی ، نہ فساہاں ، نہ سمر قند
کوئی غریب الوطن ہو یا وطن میں کوئی اپنے علاقے میں معزز ہو یا پردیسی حق تعالی شانہ تو ٹوٹے ہوئے اور سفید دلوں میں رہتے ہیں ۔ جھوکے رانجھن دی جانے سے پہلے بہر حال دل سے کاٹھ کباڑ اور خواہشات کا کیچڑا اور گند تو صاف کرنا ہی ہو گا آرزئوں اور خواہشات کے جاں بھی بنتے رہتے اور اللہ سے تعلق کی بھی خواہش ہو تو پھر یہ بندہ اپنے دعوی میں سچا نہیں ہے ۔اگر کوئی پیار کے راستے پر چلے گا تو اسے کیا ملے گا؟ سب سے بڑا اور سب سے پہلا انعام تو یہ ملے گا کہ وہ اب مضطرب نہیں رہے گا یہ سکون اور اپنے حال پر راضی رہے گا پیار کا راہی ہمیشہ مطمن رہتا ہے اور دنیا کو چاہتے والا پریشان حال رہتا ہے پر یشان حال صاحب حال ہو ہی نہیں
سکتا صاحب حال اور پیار کی راہ کار اہی کون ہوتا ہے ؟ جس کی حق تعالی شانہ سے ڈائریکٹ ڈائیلنگ ہوتی ہے وہ جب چاہے اور اللہ سے دل کی بات کر سکتا ہے اور کر سکتا ہے کیا ؟ کرتا رہتا ہے وہ تو دور ہوتا ہی نہیں اور اللہ اسے دور کرتے بھی نہیں وہ تو کہتا ہے کہ یک دم غافل سودم کا فریعنی محبوب سے رابطہ ٹوٹتا تو محبت کی عدالت میں سنگین اور قابل تعزیز جرم اب یہ جو کہہ رہا ہے کہ الفت کی منزل کو چلنا ہے تو کون کون ساتھ چلے یہ محب صرف عبادت نہیں کر لے گا یہ خدمت بھی کرے گا ۔ پڑوسی کا خیال بھی رکھے گایہ کرپشن نہیں کرے گا صالح اعمال کرے گا یہ تو بہ بھی کرے گا اور اپنی خطائوں پر نادم بھی ہو گا یہ یتیم کا مال کھانے کی بجائے اس کے سر پر دست شفقت رکھے گا وہ نیکی کرکے اپنی کوتاہیوں کا آزالہ کرے گا ۔ یہاں اک بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ انفرادی گناہوں کی نیکی سے آزالہ ممکن ہے مگر سوسائٹی کے خلاف کیئے گئے گناہوں کی معافی بار گاہ ایزدی سے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی تلاوفی اور توبہ نہ کی جائے مثلا کر پشن کرکے وطن اور قوم کا نقصان کرنا ۔
ساتھ چلنے والے کو طلب پیدا کرنا ہو گی اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھتا ہو گی اللہ سے مانگتا ہو گا اور اسن پر حسن ظن رکھنا ہو گا کہ وہ میرا خیر خواہ ہے مجھے جہاں جہاں سے اس راستے میں سے گذار رہا ہے وہ جانتا ہے مجھے کس موڑ پر کھنا ہے کہاں چلتے رہنا ہے کہاں سستا کر اسے یاد کرنا ہے کہاں دعا کرنا ہے کہاں پناہ لینی ہے کہاں تیز چلنا ہے کس طرف جانا ہے کسی طرف نہیں جانا اگر راہی اس کی مان کر چلے گا تو منزل پر پہنچے گا اگر من چاہی زندگی گزارے گا تو راستے سے ہٹ جائے گا اور راستے سے ہٹنا پیار کرنے والوں کا شیوہ نہیں ۔ بس اللہ کی چاہ باقی رہ جائے بندے کا اپنا وجود درمیان سے نکل جائے کہ یہی محبت کی راہ ہے ۔
کوئی اگر اللہ والی راہ پر چل رہا ہے تو اس کی سنگت کرنے والا کون ہو گا؟ جو اپنے ظاہر اور باطن کا فاصلہ کم کرے گا ۔ اس راستے کے کچھ مطالبے ہیں ۔

  • ۔اگر اک تعلق بنا ہے تو اسے اپنے اس پانچ چھ فٹ کے جسم پر لاگو بھی کریں یعنی محبوب حقیقی کی بات مانیں اور اس پر عمل کریں ۔
  • اپنی ہستی کو سیتی میں بدل دیں بس اللہ کا تعلق باقی رہ جائے اور ہر خواہش فنا ہو جائے ۔
  • دل زندہ کو مرنے نہ دیں اس میں شوق کی فراوانی ہو شوق کے شعلے کو سرد ہونے سے بچائیں ۔
    *وجدا ور وجدان کی طرف نظر رکھیں وجدان اللہ والا ہو گا تو وجد خود بخود طاری ہو گا پھر تعلق کی لذت بھی محسوس ہو گی ۔
    *مال اور خیال دونوں اسی پیار والی راہ کے نام لگا دیں تو مال کی محبت دل سے نکل جائے گی ۔ ایسا ہو گیا تو اعمال آسان ہو جائیں گے ۔
  • کسی روز صرف اور صرف پندرہ منٹ نکال کر نماز سے پہلے مسجد چلے جائیں ( یعنی آپ کو دیکھنے والا کوئی نہ ہو یہ کم لوگ ہوں ) گھر میں بھی کسی وقت کسی علیحدہ کرے میں ایساہو سکتا ہے ۔ جہاں آپ اکیلے ہوں دو نفل ادا کر کے لمبی دعا کریں اور اللہ سے عرض کریں ۔
    ، یا اللہ میں نے صرف تیری رضا کے لیئے اپنے بد ترین دشمن یا دشمنوں کو بھی معاف کر دیا اب میرے دل میں کسی کے لیئے بھی بغض اور کینہ نہیں نفرت نہیں حسد نہیں اور ناپسند یدگی نہیں اس لیئے تو اب مجھے پسند کر لے اور مجھے معاف کر دے ایسا کرنے کے بعد آپ خود میں اک خوشگوار تبدیلی دیکھیں گے آپ کا وجود گلابوں کی طرح ھلکا پھلکا ہو جائے گا سارے ڈپریشن ختم ہو جائیں گے دراصل ہمیں معاف کرنا آتا ہی نہیں ہم نے یہ کا م سیکھا ہی نہیں اللہ معافی کو پسند کرتے ہیں جیسے میں اکثر کہا کرتا ہوں پیار کی راہ پہ کوئی چل کر تو دیکھے اللہ اتنے خوش ہوتے ہیں کہ اپنا بتا لیتے ہیں مغفرت تو اسی راستے کی گری پڑی چیز ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں