94

اب آئے ہو

جب وہ آیا تو میں پاکستان سے باہر تھا نت نئے سفر نامے لکھنے کی جستجو میں آٹھ دس ملکوں میں پھرتا پھراتا ان دنوںسویٹزؤر لینڈ کے ایک خوبصورت قصبہ اینگل برگ زیرِمشاہدہ تھا ۔اک عرصہ ہوا مجھے مشرقی یورپ بہت Fescinate کرتا تھا ۔
آج ٹور کا 13واں دن تھا اُس نے سڑک پر گاڑی روکی اور دھاوا بول دیا ۔چھوٹتے ہی پوچھا
”،وہ مولوی سلّو کدھر ہے ؟”٫
میرے اسٹاف نے اُسے حیرت زدہ ہو کر دیکھا کہ مجھے کبھی اس طرح کسی نے بلایا ہی نہیں ۔اماں جی اور ابّا جی اس لہجے میں بلایا کرتے تھے ۔وہ راہی ملکِ عدم ہو ئے
میرے ہسپتال کے کائونٹر پر موجود عملے نے پھر حیرت سے پو چھا
”،آپ ان کے کیا لگتے ہیں ”
”،وہ ادھر ہو تا تو میں تمھیں بتاتا کہ وہ میرا پیو ہے یا میں اُس کا پیو ہوں ”٫
بس وہ ایک لحظہ رُکا اور کہا
”،جب وہ یورپ کی سیر کر کے سفر نامے لکھ کر واپس آئے توا سے بتانا کہ تمھارا پُرانا دوست سرگودھا سے بڑی مدّت بعد ملنے آیا تھا ”٫
یورپ سے واپسی پر جب مجھے اس پیاری سی واردات کی خبر ہو ئی تو زمانہ طالب علمی کی واردات قلبی یاد آگئی ۔سرگودھا والا یہ دوست یاد آگیا دو تین روز تلاش کرنے کے بعد اس کا موبائل نمبر مل گیا ۔
میری آواز سُنتے ہی اُس نے پو چھا
”، تُم مجھے یاد تو کرتے ہی ہو گے ؟ ”٫
میں نے حقیقت بتاتے ہو ئے کہا ”،یاد تو نہیںکرتا مگر میں تمھیں بھی اور تمھارے ساتھ گذرے ہو ئے لڑکپن کے وہ دن بُھول نہیں پایا
پھر یادوںکی اسکرین پر پرانی فلم کے کردارر نظر آنے لگے باتیں کرنے لگے
وہ بڑے رئیس باپ کا بیٹا تھا اُس کے والد کنٹریکٹر تھے اور وہ چھوٹے موٹے ٹھکیدار نا تھے ڈیموں کے ٹھیکے لیا کرتے ۔وہ سونے کا چمچ منہ مین لے کر پیدا ہوا ہوش سنبھالا تو فکر مند والدین نے اس کے بہتر مستقبل کے لئے اُسے معروف کیڈٹ کالج حسن ابدال بھیجا ہمارے کالج میں ابدالینز کی بڑی دھوم تھی اور یہ کیڈٹ تھے بھی بہت ذہین ہم جو اناٹومی کئی گھنٹوں میں یاد کرتے وہ منٹوں میں یاد کر لیتے ۔
وہ روزانہ نئے برینڈ کی پتلون شرٹ پہنتا ۔سرخ یلیرزکے ساتھ بلیک پینٹ میں وہ بہت جچتا ۔مخلوط تعلیم والے اس میڈیکل کالج میں اس کی موٹی آنکھوں اور مردانا وجاہت کی دھوم تھی جب وہ صبح بیش قیمت پرفیوم لگا کر لیکچر تھیٹر میں پتھالوجی یا سرجری کے پروفیسر کا لیکچر اٹیند کرنے جاتا تو سارے کالج میں اس کی دھوم مچ جاتی ۔لڑکے لڑکیاں کلاس فیلو اور اساتذہ مُڑمُڑ کر اُسے اور اس کی خوبرو جوانی کو کن اکھیوں سے دیکھتے اور رشک کرتے
میںاور میرے کچھ دوست اسے نماز کی دعوت دیتے اللہ کی یاد ہ پر مائل کرتے تو وہ ٹھاہ ٹھا ہ کر کے ہنستا اور کہتا
”،اوئے مولویو تمھیںہمارے ہاں سے کچھ نہیں ملنے والا خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع نا کرو”
اُسے نت نئے موسیقی کے آلات خریدنے کا شوق تھا ہم کبھی دین کی یا دین کی محبت کی پھر اللہ جل شانہ سے محبت کی بات کرتے تو وہ ڈھولکی اور آلات موسیقی لے کر ہاسٹل کی چھت پر چڑھ جاتا ۔موسیقی کے راگ الاپتے وہ حسب ِتوفیق نماز پر مائل کرنے والے دوستوںکو آڑے ہاتھوں لیتا۔اک روز وہ اپنے آزاد خیال دوستوںکے ساتھ بے ہنگم موسیقی پر رقص کر رہا تھا کہ دوست پھر اُسے نماز کی دعوت دینے گئے ۔ڈانس کرتے ہو ئے وہ آرکسٹرا کی دھن پر لڑکھڑا رہا تھا ۔نماز کے لئے یاد دہانی کرانے والے ایک دوست نے اُسے Step لے کر دکھائے تو وہ کچھ خجل سا ہوا ۔اسی شرمندگی میں وہ اُن دوستوںکے ساتھ مسجد میں آگیا مجھے اس بڑھاپے میں بھی یاد ہے اُس روز سردی بہت تھی اس نے اپنی قیمتی شال سے سارا چہرہ اس طرح چھپایا ہوا تھا کہ دائیںبائیں دیکھنے والا اس کی آنکھوں میںچھپی نمی شرمندگی اداسی اور یقین کو دیکھ نا لے ۔میرے کمرے کی پرائیویسی (پچھواڑا )اس کے کمرے کے پچھواڑے کی طرف تھی اگلی صبح میں اناٹومی کے کچھ اسباق یاد کر رہا تھا کہ کیک کا ایک ٹکڑا اُڑتا ہوا آکرمیری جھولی میں گرا ۔سامنے دیکھا تو وہ کھڑا مسکرا رہا تھا مجھے پتہ چل گیا کہ اللہ والوں کی قینچی اس پر چل چکی ہے اگلے روز اس نے لمبے بال کٹوا دئیے برنڈیڈ ورسٹڈ اور جینز کی پتلونیں نوکروں یا دوسرے دوستوں کو دے دیں(کپڑے کسی بھی قسم کے ہو ں ان کو پہننے میں کو ئی حرج نہیںبس عبادت میں مخل نا ہوں اگر کلف لگی ہو ئی قیمتی کاٹن کے سوٹ کی کریز پر ہی نماز کے دوران دھیان رہے تو پھر اسے بدلنا ہو گا لوگوں کو اور دنیا کو چھوڑنا مقصود نہیںبس بندہ دنیا میں رہے مگر الودہِ دنیا نا ہو )
”،پتلون شرٹ پہننا کمیوں چھوڑ دی ؟”میں نے اسی سرگودھا والے دوست سے پو چھا
اس نے کہا ”،میرے دل نے کہا اب ا للہ سے محبت کرنے کا وقت آگیا ہے پتلون شرٹ پہنی تو ایسا لگا بس اندر ہی اندر نا جانے کیا کچھ ٹوٹ گیا یو ں لگتا ہے کہ میں کرچی کرچی ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گیا ہو ں ”٫
بس کچھ ہی دنون میں وہ محبوبِ حقیقی کے رنگ میں رنگ چکا تھا ۔وہ بڑی چاہت سے اللہ والوں کی باتیں سنتا کلاس فیلو اُسے کہتے
”،یار ڈاکٹر بنیں گے ہسپتال بنائیںگے Ultimate Aim تو پیسہ ہی ہو تا ہے زندگی میں کامیابیاں اور خوشیاں اسی کے دم سے ہیں ”٫
وہ کہتا ”،میں نے بڑے مشہور لو گوں کو کھرب پتی لو گوں کو مغموم اور رنجور دیکھا ہے ۔نوجوانوں کی زندگی میں ایسا گلیمر دیکھا ہے کہ کو ئی جس چکا چوند کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا یہ رنگینیاں انھیں حاصل ہو تی ہیں مگر وہ خوش نہیں ہو تے خوش نہیں رہتے سکون اور کامیابی خوشی اور طمانیت چیزوں میں نہیں اللہ کی قربت میں ہے ”
ہم دونوں اناٹومی ہال میں ڈیڈ باڈی کی Disection کرتے یعنی پٹھوں شریانوں اور ہڈیوں کا مطالعہ کرتے تو وہ میرے کان میں کہتا
،میڈیکل کالجوں میں صرف جسم پڑھایا جاتا روح نہیں دل نہیں جذبات نہیں اللہ سے محبت نہیں یقین نہیں ایمان نہیں دل کی شریانیں تو پڑھائی جاتی ہیں احساسات نہیں میں یہاں جسم پڑنے آیا تھا انشاء اللہ ا ب روح پڑھ کر جائوں گا یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کو بے حیائی پڑھائی جاتی ہے دین نہیں کسی کسی بھی کالج کے امتحانات میں اس بارے میں کو ئی پر چہ نہیں آتا کہ لڑکی کو خاوند کو کس طرح محبت دے کر اپنے گھر کو جنت بناتا ہے اسی لیئے طلاق یافتہ لڑکیوں میں نوّے فیصد اعلیٰ تعلیم یافتہ لیڈی ڈاکڑز لیکچرارز ہنر مند شامل ہو تی ہیں
وہ کہتا ”،جدید تعلیم اور جدید فنون حق لینا سکھاتے ہیں قانون کی تعلیم حاصل کریں یا بار ایٹ لابن کر بیرسٹر بن کر آئیں تو ایسی کتابیں دفعات اور دلائل ازبر کے آئیں گے جن کے استعمال سے حق لیا جا سکے حق دینے اور حقوق کی قربانی کے بارے میں نا ہی کو ئی قانون ہے اور نا ہی لاء کالجوں میں اس بارے میں کو ئی لیکچر ہو تا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جنت اپنے حقوق کی قربانی کا نام ہے ۔
وہ نادرِ زمانہ تھا مزاج عاشقانہ تھا انداز دلبرانہ تھا بس اللہ والوں کی محفل ہی اس کا آشیانہ تھا آستانہ تھا الحمدُاللہ اب اسے کو ئی لالچ تھا نا خواہشات جب خواہشات ہی نہیں تھیںتو ان کی پیروی بھی نا پید تھی اپنی خواہشات کو روند کر ہی بندہ محبت کی را ہوں پر چل سکتا ہے پھر اپنی مرضی تو ختم ہو جاتی ہے محبوبِ حقیقی ہی کی مرضی پر چلناہو تا ہے کیوں؟اس لیئے کہ خواہشات ذلیل کرتی ہیں ان کی پیروی میں کچھ اور خواری ہو تی ہے اگر ساتھ طمع بھی شامل ہو جائے تو کچھ اور رسوائی ہو تی ہے طمع محبت کو کھاجاتی ہے محبت دنیاوی ہو مجازی ہو یا حقیقی ہو لالچ محبت کے تناور درخت کو بھی بھون کر رکھ دیتا ہے پھر پیچھے ایندھن ہی بچتا ہے اور وہ بھی جلا ہوا بکھرا ہوا اندہِ درگاہ ہو جانے والا ۔
دکھلاوے والاعاشق جھوٹا ہو تا ہے وہ سچے عاشق کا سپولیا ہو تا ہے مارِآستیں ہو تا ہے ۔ دنیاوی یا دینی اور دکھلاوے کے لحاظ ہے اک بات یہ بھی جاننے والی ہے کہ سچل محب یا چاہنے والا بھی محبوب کی نظر میں اسی وقت معزز ہو گا جب حرص و ہوس سے پاک صاف ہو گا ۔پاک ہو نا اور ہے صاف ہو نا اور ہے ہو سکتا ہے کو ئی صاف نا ہو مگر پاک ہو ہو سکتا ہے کو ئی پاک نا ہو مگر بظاہر صاف نظر آرہا ہو اس کے بعد انکساری والی سٹیج ہے یہ مرحلہ آجائے تو بظاہر ذلت ّاور رسوائی کے نقشوںمیں بھی عزت لذّت اور اک فرحت اک مسرّت محسوس بھی ہو تی ہے اور دل کو نگاہِ کو نظر بھی آتی ہے
دنیاوی محبتوں میں عموماََیہی ہو تا ہے کہ محب جتنا مائل ہو گا محبوب غافل ہو گا اعراض کرے گا مگر محبوب حقیقی بہت کمال کا پروٹوکول دیتا ۔محب کو چاہئیے کہ محبوب سے اور کچھ نا مانگے صرف محبوب سے محبوب ہی کو مانگے یہ بات محبوب کو بہت ہی خوبصورت لگتی ہے ۔محبوب کا وصل نصیبوں سے ملتا ہے قسمت والوں کو نصیب ہو تا ہے مگر وصل کی خو اہش بعض اوقات ہوس کی سرحد سے جاملتی ہے حد اور ہے سر حد اور ہے وصل کی ہوس ہو او ر محبوب اپنا بنا لے تو کیا کہنے دراصل محبت ہی حقیقت ہے اور محبوب کی حقیقت ہی محبت ہے
سرگودھا والا دوست مندرجہ بالا باتیں یا اسی طرح کی باتیں مجھ سے اور کلاس فیلوز سے کیا کرتا تھا بہت سال گذر گئے اس سے کچھ کچھ رابطہ تو رہا مگر ملاقات نا ہو سکی بہت سال پہلے سرگودھا جانا ہوا تو خصوصی طور پر اسے ملنے گیا ملتے ہی وہ مسکرا اُٹھا مگر اس کی آنکھوں کے کناروں میںوہ سبھی دن وہ سبھی راتیں پنہاں بھی تھیں عیاں بھی تھیں جو کالج کے زمانے میں اللہ والوں کے ہاں گزریں ۔
میرے کمرے میں سبھی ہم جو لیوں اور کلاس فیلوز کی گروپ فوٹو آویزاں ہے جب ذرا فراغت ہو تو اس گروپ فوٹو کو غور سے دیکھتا رہتا ہوںسوچتا ہو ں میرے اس دوست کی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب آیا تھا ۔اللہ والوں کے پاس بیٹھنے سے پہلے وہ کچھ ا و ر تھا بعد میں کچھ اور تھا اسے اللہ جل شانہ نے کتنی استقامت دی تھی اس نے زندگی اور دنیاوی زندگی کی حقیقت کو پا لیا تھا پھر وہ کبھی گلیمر کی Pseudo زندگی طرف نہیں گیا بلکہ اس نے مُڑ کر اس بے دینی والی زندگی کی طرف آنکھ بھر کر بھی نا دیکھا
میں دل ہی دل میں اس سے پو چھتا ہو ں
”،یا راب آئے ہو جب چہرے کی تازگی خوبصورتی شکن در شکن جھریوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے وقت کتنی تیزی سے گزرجاتا ہے اور گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے زندگی کی اُجلی راہوں پر یادوں کی اُڑتی ہو ئی دھول بھی یہ نقوش مٹانے سے قاصر رہتی ہے میرا صاحبِ دل دوست جو اس کالم کا مرکزی خیال ہے ۔
نظروں کے سامنے ہے ایسے لگتا ہے ابھی کل ہی وہ الٹرا ماڈرن تھا اللہ والوں کا معاذ اللہ مذاق اُڑایا کرتا تھا پھر ایسے لگتا ہے کل ہی وہ محبوبِ حقیقی کی ازلی اور ابدی محبت کا اسیر ہو گیا اور اسیر بھی ایسا جو ساری عمر یہی کہتا رہا کہ
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں