98

جوباتیں ادھوری رہ گئیں

یکم جنوری کوعتیق انور راجہ کی سالگرہ تھی ۔سلیم اکیلے چلے گئے ۔میں کتنی دیر سوچتی رہی جاں کہ نہیں ۔؟مجھے ساتھ نہیں لے کر گئے تو “کیوں”؟آغا سہیل بھی کراچی ہیں ۔وہ ہوتے تو شک کا جواز بنتاتھا کہ “ضرور کوئی واردات ہوگی “جلدی جلدی تیار ہوکر سالگرہ کے حوالے سے بیانیہ لکھا ۔اور ریحان سے کہا “پتر،ذرا آرٹس کونسل تک چھوڑ آ”وہاں پہنچی تو اندازہ ہوا کہ مجھے کیوں نہیں لے کر گئے ۔۔وہاں نائلہ بٹ بھی موجود تھیں ۔ دونوں بہن بھائیوں نے وہ “ات ” چکی ہوئی تھی کہ اگر اسٹیج تک ان کی آواز جاتی تو کم ازکم ظفر اقبال مغل نے یہ ضرور کہنا تھا “مجھے واپس سامعین میں بٹھادیں ” میں تو کان لپیٹے چپ چاپ فرحانہ عنبر کے ساتھ بیٹھی رہی ۔اور جو تقریر لکھ کر لے گئی وہ بھی نہیں کی کہ ان دونوں تخریب کاروں کا کیا پتہ ۔۔۔کچھ بھی کہہ دیں ۔؟یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے اس دن اسٹیج پہ کہنی تھیں ۔ آپ سب احباب کو آداب ۔میں اس تقریب کے حوالے سے کچھ لکھ نہیں پائی کیونکہ مجھے آدھ گھنٹہ پہلے لگا کہ مجھے بھی یہاں آنا چاہئیے۔ مجھے تقریر کرنا نہیں آتا۔اس لئے میں اپنا لکھا ہوا پڑھوں گی ۔۔آج عتیق انور راجہ کے نام یہ شام، دراصل ان کے۔۔۔۔ اعزاز میں نہیں بلکہ گوجرانوالہ کی خوش قسمتی کے نام ہے کہ عتیق انور آج اس شہر کا باسی ہے۔اور ہماری بھی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہم کسی نہ حوالے سے اس بہترین انسان، بہترین کالم نگار اور بہترین شاعر کے ساتھ وابستہ ہیں ۔آج عتیق انور راجہ کی سالگرہ کا دن ہے ۔میری طرف سے انہیں بہت بہت مبارک باد اور نیک تمنائیں ۔کہیں پڑھا تھا کہ یہ دن ان لوگوں کی سالگرہ کا ہوتا ہے۔جن کے والدین بلدیہ میں ان کی پیدائش کا اندراج کروانا بھول جاتے تھے ۔چنانچہ اسکول داخلے کے وقت اس زمانے میں یکم جنوری لکھوا دیا جاتا تھا ۔مگر سلیم مرزا کہتے ہیں کہ یکم جنوری سے نو مہینے پیچھے جائیں تو یکم اپریل بنتا ہے۔اور ہماری قوم مذاق میں کچھ بھی کرسکتی ہے ۔مگر مجھے یقین ہے کہ راجہ صاحب کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوگا ۔جتنی شاندار ان کی شخصیت ہے، اتنی ہی شاندار ان کی تاریخ پیدائش ہوگی۔عتیق انور راجہ کو اللہ نے جتنی عزت سے نوازاہے وہ اتنا ہی مان سمان دوستوں کو بھی دیتے ہیں۔اور یہی خوبی انہیں عام ادیبوں سے ممتاز کرتی ہے ۔ایک گھریلو خاتون ہونے کی وجہ سے میری ان کے بارے میں معلومات کچھ زیادہ نہیں ۔سنا ہے کہ آپ گوجرانوالہ کی تقریبا تمام ادبی، سماجی سیاسی اور تجارتی تنظیموں کے یا تو عہدیدار ہیں یا ان کے ممبر ہیں ۔اور آپ شہر کی فلاح اور بقا کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔کل سلیم مرزا سے عتیق انور کی سماجی سرگرمیوں کیبارے میں پوچھا تو کہنے لگے صرف دائیوں کی یونین میں انکے پاس کوئی عہدہ نہیں ۔میری دعا ہے کہ اس سال وہ مڈوائفری یونین کے بھی صدر ہوں۔اور پروردگار ۔۔ہمیشہ انہیں ایسے شادمان اور کامران رکھے ۔تاکہ گوجرانوالہ میں ایسی خوبصورت ادبی تقریبات کا میلہ سجتا ریے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں