119

زرعی ملک اور آٹے کا بحران

اس وقت مملکت خداداد میں آٹے کا شدید بحران ہے یہاں تک کہ دو وقت کی روٹی غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے بتدریج دور ہوتی جا رہی ہے سوشل میڈیا پر صرف ایک ہی بات گردش کر رہی ہے کہ پاکستان میں آٹے کا بحران ہے دوسری جانب سرکاری گودام گندم سے بھرے پڑے ہیں منافع خوروں کے پاس گندم کے سٹاک ہیں زمیندار سے آٹھ ماہ پہلے بائیس سو میں خریدی ہوئی گندم 5000 سے زاہد میں کون بیچ رہا ہے تحفظ خوراک اور صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے مگر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گزشتہ دو برسوں سے پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے اس وقت پاکستان میں گندم کا بحران یا آٹا ایک طرف تو غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہے دوسری جانب ہر صوبہ پر ضلع میں اٹے کے من مانے ریٹ سننے کو مل رہے ہیں پنجاب میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا ہے بچے بوڑھے جوان عورتیں غرض ہر عمر کے افراد لائنوں میں لگ کر ہاتھ میں پیسے تھا میےآٹا لینے کے لیے جتن کرتے نظر آ رہے ہیں آٹے کی قوت خرید کی استطاعت نہ رکھنے کا اتنا بھیانک منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا غریب کی زندگی اجیرن بن گئی ہے دیہاڑی دار طبقہ کام پر جانے کی بجائے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے آٹے کے حصول کے لے لائن میں صبح سے شام منتظر نظر آتے ہیں عوام غربت کی چکی میں پس رہی ہے ہاتھوں میں پیسے لے کر روٹی اور آٹے کے لیے ترس رہے ہیں ہر جگہ دردناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ہم معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ ہو چکے ہیں بے حسی کی انتہا کہ قوم نے یہ خبر بھی خاموشی سے ہضم کر لی کہ میرپور خاص میں سستا آٹا لینے کی جدوجہد میں چھ بچیوں کا باپ انتقال کر گیا بھگدڑ میں اٹا تو نہ ملا مگر موت مل گئی آٹے کے بحران میں صوبوں اور وفاقی کی لڑائی میں غریب عوام ترس رہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے اسمبلیاں توڑنے اور کرسی بچانے میں مگن ہیں اسمبلی ٹوٹے یا بچ جائیں مگر غریب کی کمر ٹوٹ چکی ہے ریلیف کے نام پر چند دکانوں پر سٹال لگا کر لوگوں کو ذلیل کیا جارہا ہے کے حکومت پنجاب کی پالیسی کے مطابق روزانہ کی
بنیاد پر فلور ملز دس کلو کے ساڑھے اٹھارہ لاکھ تھیلے روزانہ کی بنیاد پر دینے کی پابند ہے مگر ایسا ہو نہیں رہا اور فلور ملز مہنگے داموں گندم فروخت کررہی ہے جس کی قانون ہرگز اجازت نہیں دیتا سرکاری اداروں سیموثر مانیٹرنگ کا فقدان ہے حکومت کسی سانحہ کی منتظر ہے پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں گندم کی پیداوار بتدریج کم ہوہی اس کی بنیادی وجہ زرعی زمینوں پر سوسائٹیوں کا بننا کسان کا استحصال اور زراعت کی تباہی اور ابادی
کا بڑھنا ہے پاکستان آبادی میں پانچویں نمبر پر اور گندم پیدا کرنے میں ساتویں نمبر پر کرونا کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کی وجہ سے مملکت خداداد مختلف بحرانوں کا شکار ہے جس وجہ سے ہر سال گندم درآمد کی جا رہی ہے 2022 میں بھی رو س سے سستی گندم بروقت خریدنی تھی اس وقت گندم کی درآمد پر وفاق نے پابندی لگا دی کیونکہ ہمارے پاس ڈالر موجود نہیں تھے سیاسی لڑائی میں گندم پر دھیان نہیں دیا گیا اور گندم کا بدترین بحران پیدا ہوگیا پنجاب جو بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے اور زراعت میں خود کفیل ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا کو بھی گندم فراہم کرتا تھا اس وقت پنجاب کے پاس اپنی ضرورت کی گندم بڑی مشکل ہوگی گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطا 124 کلوگرام گندم سالانہ کھا لیتے ہیں دہاڑی دار طبقہ نقد اٹا لیتا ہے دہیی علاقوں میں گھروں میں کھانے کے لیے گندم کٹائی کے بعد محفوظ کی جاتی ہے گندم کا سب سے کم ریٹ اس وقت ہوتا ہے جب اس کی کٹائی ہوتی ہے کیونکہ اس وقت کسان نے گندم بیچنی ہوتی اور سب سے زیادہ ریٹ اس وقت ہوتا ہے جب اس کی بجای ہوتی ہے کہ شاید اس وقت کسان نے بیج خریدنا ہوتا ہے شاید اسی وجہ سے اہندہ سال گندم کی پیداوار میں نہیں ہوگی کیونکہ پنجاب میں زیادہ تر کسانوں نے کینولا اور سرسوں کاشت کی اور سندھ میں سیلاب کی وجہ سے رقبہ کاشت کے قابل نہ ہیحکومت بھی طلب اور رسد کو صحیح طریقے سے نہیں دیکھ سکی حکومت نے
گندم کی کاشت کے لئے اعلی کوالٹی کے بیج پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی کسانوں نے اپنے حق کے لے دھرنے دیے اور کسی نے توجہ نا دی بجلی کے بلوں اور کھاد کی قیمتوں سے مایوس کسانوں نے گندم کی کاشت محدود کردی کاشتکاروں کی مشکلات مزید بڑھ گئیں یوریا کھاد کا بروقت نا ملنا اور گندم کی کاشت کے لیے بروقت بیج کا نہ ملنا جس نے گندم کی کاشت کو متاثر کیا غذائی بحران کا خطرہ بڑھ گیا کھاد کے بحران سے گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار کم ہو گی گندم کے بحران کی ایک وجہ حکمران اپس میں مگن ہے مگر عوام کی بات سننے کو کوئی تیار نہیں ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر کے آخری ہفتے میں آٹے کی قیمت میں تقریبا تین فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا موسم سرما میں دوران گیس کی لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر کی وجہ سے تندوروں کا رخ عوام کو کرنا پڑتا ہے جس سے روٹی پچیس روپے سے کم نہیں مل رہی گندم آٹے کے بحران سے ڈبل روٹی میدہ بسکٹ دلیہ بچوں کی خوراک نہ صرف ناپید بلکہ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں مہنگاہی کا نا تھمنے والا سیلاب ہے اورمزدور طبقہ اس کا براہ راست شکار ہے گندم سٹاک کرنے والے دولت مند ہو رہے ہیں اور غریب خود کشی پر مجبور ہو رہا ہے سوشل جسٹس کہاں ہے عدالتیں کیوں خاموشی ہیں انسانیت کی بات کرنے والے حکمران کہاں ہیں آٹے کا بحران پیدا کرنے والا اور ذخیرہ اندوزوں کو قانون کی گرفت میں کب لیا جائے گا فلورملز کا کوٹہ بڑھانے سے غریب کی بجائے اگر ہوٹلوں اور اداروں کو آٹا فراہم ہوگا تو فلور ملز تو شاید ڈبل ہو جائیں مگر عوام کے آنسو اور دل میں اس کے درد کو کون محسوس کرے گا موجودہ وقت میں مزدور اپنے بچوں کو دو ٹائم کی روٹی فراہم کرنے کے لئے پریشان ہیں آٹا ایک سو ساٹھ روپے کلو ملے گا اور گھر کے پانچ افراد کیلئے تین وقت کا آٹیکے لیے مزدور دہاڑی دار کیا کرے گا ہاسنگ سکیموں کے لیے کمیشن لے کر اجازت دیتے رہے تو غذائی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے خطرات منڈلا تے ر ہیں گیحکومت کسانوں کو بروقت کھاد کی فراہمی عمدہ بیج فراہم کرے تو ہم آبادی کی ضروریات کے مطابق گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیں اور اگر نہ کر سکے تو اسی طرح کے بحرانوں میں اضافہ ہوتا رہا گا چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ لوگ روزگار کو خیر آباد کر کے لائنوں میں لگ کر اٹا لینگے تو سمجھنا پڑے گا کہ وہ کھائیں گے کہاں سے حکمرانوں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ روٹی بندہ کھا جاندی اے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں