121

دکھاں دی روٹی سولاں دا سالن

دینِ اسلام میں تو مزدور کی بڑی شان وشوکت اور عظمت بیان کی گئی ہے،کئی انداز میں غریب،نادار اور مزدور طبقہ کے ساتھ حسنِ سلوک پر زور دیا گیا ہے۔جیسا کہ”الکاسِب حبِیب اللہ”محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔دوسرا یہ کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے۔مگر یہاں پر تو مزدورکا حق مار کر اس کو ٹھنڈی تریلیوں میں شرابور کردیا جاتا ہے۔غریب اور مزدور طبقہ کو تو گویا راندہ درگاہ کردیا گیا ہے۔ملک کی تعمیر و ترقی میں مزدور کا بہت اہم کردار ہے۔بنگلوں،کوٹھیوں اور وِلاز میں شاہانہ زندگی گزارنے والے،سیاستدان،وزیر مشیر اور بیورو کریٹس یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ ان کی محلات نما رہائشوں کی دیواروں میں حلال روزی پر پلنے والے مزدوروں کا خون پسینہ شامل ہے،مگر ان محلات نما کوٹھیوں میں رہنے والے قانون پر دسترس رکھنے والے بااختیار لوگ مزدور اور غریب طبقہ کو کیوں ترجیح نہیں دیتے۔ہرسال یکم مئی کو”مزدور ڈے”منا کر میڈیا کوریج تو لے لیتے ہیں،فنڈز تو ہڑپ کرتے ہیں مگر ناراض و نالاں مزدور کونہیں مناتے،ویسے بھی ہمارے ہاں شخصیات کو منانے کا نہیں محض ایام منانے کا کلچر رائج ہے۔ملکی وسائل کی بہار کے مزے تو صرف بیورو کریٹس اور سیاستدان لوٹتے ہیں مگر خزاں کی کی منحوس پرچھائیاں ان غریبوں کے داغدار اور رنجیدہ چہروں پر سے عیاں ہوتی ہیں۔اللہ کے دوست(مزدور) کو جان بوجھ کر عجیب مسائل سے دوچار کردیا جاتا ہے،کیوں کہ سیاست کے وجود کی تمام نسیں کسی نہ کسی طرح غریب کو غریب ہی رکھنے سیاپنا حیاتیاتی نظام چلا سکتی ہیں۔کئی سیاسی ایشوز غریب کی بدحالی اور محتاجی پر زندہ ہیں۔اگر غریب لوگ امیر اور صاحب ثروت ہوگئے تو”سیاست کے گِدھ”کس کی بوٹیاں نوچیں گے۔حرص و ہوس کی جونکیں کس کا لہو چوسیں گی۔سیاست کی کتاب سے اگر غریب کا تذکرہ ہی نکل گیا تو پھر سیاستدانوں کی ایک دوسرے پر تنقید و تنقیص اور تف لعنت کی سیاست دم توڑ جائیگی۔غریب مزدوروں کے نام پر ملکی و غیر ملکی فنڈز کا سمندر سوکھ جائے گا،اور یہ کرپٹ حرام خور بھوکے پیاسے مرجائیں گے۔سیاسی تقریروں میں عوام پر محبت اور ہمدردی بھرے جملے برسانے والے یہ سیاست دان”بڑے سیاسی”ہیں۔یہ صرف اقتدار کی اپنی اپنی باری کو روتے ہیں۔ورنہ یہ تو عوام کے لئے بے حس ہیں۔یہ تو تمام باریاں بند رکھتے ہیں کہ کوئی ہوا کا جھونکا بھی غریب کا نالہ و فریاد ان تک نہ پہنچاسکے۔جیسا کہ
کِیویں سن دا میریاں چِیکاں اوہدے گھر نوں باری کوئی نئیں
دوسرے ممالک میں تو حکمران عوام سے ماں کے
اولاد سے پیار کی طرح پیار کرتے ہیں مگر یہاں ہمارے ٹیکسوں اور ووٹوں پر وجود پانے والے حکمران بڑے ظالم و جابر شمار ہوتے ہیں۔یورپین ممالک میں تو کسی سیریئس مریض کے لئے اعلی اداروں تک حرکت میں آجاتے ہیں لیکن یہاں پر ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی لاپرواہی اور متعلقہ ادویات و مشینری کی عدم دستیابی کے باعث مریض سسکتے تڑپتے جان دے دیتے ہیں۔اور اس سانحہ کو کسے ڈربے میں مرغی اور چوک چوراہے میں کتا بِلا مرجانے کی سی حیثیت دی جاتی ہے۔کون کب بدلے گا ہمارے نظام کو ہماری عجیب ترجیحات کو۔غریب عوام لمحہ لمحہ مسائل کی چکی میں پِس رہے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہم نے مزدور اور غریب کے مرتبہ و مقام والی کئی احادیث اور قرآنی آیات کے مفاہیم کو اپنے نفس کی بھوک اور لالچ و ہوس کی پیروی میں پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ہم مزدور اور غریب کی توقیر و تکریم کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کی تذلیل اور تحقیر کے مرتکب ہو کر دراصل قرآنی آیات اور احادیث کو رد کررہے ہیں۔جس کے نتیجہ میں ہم کسی نہ کسی طرح سزا بھگت رہے ہیں۔مزدور جو کبھی سارا دن مزدوری کرکے بیس تیس روپے کے چنے یا پکوڑے لے کر پچاس ساٹھ روپے میں پیٹ بھر کر کھانا کھا
لیتا تھا،اب اسے بھوک مٹانے کے لئے کم از کم 150 سے 200 روپے تک خرچ کرنا پڑتے ہیں۔اب مہنگائی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ دس روپے کی ٹِکی یا پکوڑے تو گویا قدیم زمانے کی بات ہوگئی ہے۔دس روپے کو تو گویا گنتی سے نکال ہی دیا گیا ہے۔اب ابتدا 20 روپے سے ہوتی ہے۔سادہ نان کچھ عرصہ پہلے 10,15 روپے کا تھا،20 روپے کا ہوا اور اب یکدم 30 روپے کا ہو گیا ہے۔اب ایک غریب مزدور 30 روپے کا صرف نان اور 50 روپے کے چنے کیسے خریدے گا اور کھائے گا۔مشقت کرنے والا مزدور کم ازکم 3 نان تو ضرور کھائے گا،پھر سردی میں 40 روپے کی چائے بھی تو پئے گا تاکہ مضرِ صحت چنے ہضم اور پٹھوں کو گرم کرکے اگلے چند گھنٹوں کے لئے کولہو کا یہ بیل تیاری پکڑ سکے۔ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ چیک اینڈ بیلبس کا کوئی نظام متحرک نہیں ہے۔اکثر لاری اڈوں اور سڑکوں پر ریڑھیوں والے گھٹیا قسم کیچنیکی ایک پلیٹ اور 2عدد نان کے 200 روپے وصول کر رہے ہیں۔ایسے مقامات پر مسافروں کو پریشان کیا جاتا ہے۔کوئی بھی مسافر نان چنے سمجھ کر ریٹ پوچھے بغیر جب کھانا کھا لینے کے بعد ریٹ پوچھتا ہے تو ریٹ سن کر غریب پردیسی گاہک کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔ستم یہ ہے کہ نان چنے کو عوام کے لئے”دکھاں دی روٹی سولاں دا سالن”بنانے والے ان محکموں کو کون پوچھے جو اپنے حصہ بھتہ کے لئے”کتی چور مِلے ہوے”کے مصداق بنے ہوے ہیں۔خراب ڈگر پر لڑکھڑاتی،تڑپتی اور بسمل زندگی پر اب نظر ڈالیں تو پوری زندگی”دکھاں دی روٹی تے سولاں دا سالن”کی تفسیر و تصویر نظر آتی ہے۔ہم آج جس کسمپرسی کی صورت سے دوچار ہیں۔حضرت بابا شاہ حسین کے اشعار ہمارے حالات کی بھرپور عکاسی کررہی ہے۔
مائے نی میں کنہوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
آہیں دا بالن بال نی
یہاں غریب مفلس دکھ کی روٹی اور کانٹوں کے سالن کے لقمے کھا رہے ہیں۔بجلی گیس مہنگی اور عدم دستیابی کے باعث آہوں سسکیوں کی آگ پر دکھوں کی روٹی پکا کرحلق سے اترتے ہوئے لقموں کو تازیانوں،طمانچوں کی طرح برداشت کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں