88

قومی مفادات فروموش…بے حسی کی انتہا اورکیا ہوگی؟

سائنس دانوں نے پانچ بندروں کو ایک پنجرے میں قید کردیا، اس میں انہوںنے ایک سیڑھی رکھی اوراس سیڑھی پر ایک کیلا رکھا دیا، جب بھی کوئی بندر کیلا حاصل کرنے کے لیے اوپرچڑھنے کی کوشش کرتا تو دیگر بندروں پر یخ بستہ پانی کی بوچھاڑ کردی جاتی کچھ دنوں میں بندروں نے سیکھ لیا کہ سیڑھی چڑھنے سے ان پر یہ عذاب آتا ہے اب جب بھی کوئی بندر کیلا لینے کے لیے سیڑھی چڑھنے کی کوشش کرتا تودیگر تمام بندراس پرچڑھ دوڑتے اوراس کو مارمارکر سیڑھی سے دورکردیتے لوگوں نے ان میں سے ایک بند ر کو باہر نکالا اورایک نیا بندر پنجرے میں داخل کردیا، نیا بند رجب بھی کیلے کی خاطر سیڑھی پرچڑھنے کی کوشش کرتا تبھی تمام بندر اس کو مارنا شروع کردیتے ،کچھ دنوں میں بند ر بھی سمجھ گیا کہ سیڑھی پر چڑھنا مارکھانے کا باعث ہے ایک ایک کرکے سائنسدانوں نے تمام بندربدل دیئے اورٹھنڈے پانی کی بوچھاڑ بند کردی گئی مگر ہر نیا آنے والا بند رسیڑھی چڑھنے پر مار کھاتا رہا اورپھر وہ اس گروہ کا حصہ بنتا گیا جو ہر نئے آنے والے کو سیڑھی چڑھنے پر مارتے تھے ، کچھ دنوں کے بعد مارنے والے کسی بندر کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیوں ماررہا ہے اورمار کھانے والے کو کچھ پتہ نہ تھا کہ اس کو کیوں ماراجارہا ہے اگر دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ ملک عزیز میں گزشتہ چند برسوں سے ہمارے نام نہاد جمہورے جمہوریت کے نام پر عوامی حقوق سے کھلواڑ کرنے میں مصروف سیاستدانوں کی طرف سے کرس اقتدار کی خاطر آپس میں بندروں والی لڑائی ہی لڑی جارہی ہے،ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرنے، بلکہ ایک دوسرے کی ماں بہن تک کے لتے لینے کا جو باندر کلا کھیلا جا رہا ہے، بندر نما فطرت کے مالک عوامی مسائل سے عاری شب وروز اقتدار کی جنگ میں مگن سیاستدانوں سے اب ملک و قوم کی بہتری کے حوالے سے مکمل مایوسی پھیل چکی ہے۔اپنی عیاشیوں،اللوں تللوں میں مگن ملک کی قسمت سے کھیلنے والی جونکیں اب بھی دن رات جی بھر کر عوامی وسائل پر شب و روز خون چوسنے میں مصروف عمل ہیں۔ مملکت خداداد، وطن عزیز، ملک پاکستان کی تباہ حال معیشت کا نوحہ تو ہم ہر روز سنتے ہیںیہ ایک بھیانک حقیقت بھی ہے کہ اس وقت مہنگائی، بیروزگاری اور غربت نے نا صرف غریبوں کی بلکہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں۔کاروبار منجمد ہوچکے ہیں،تاجر برادری چلا اٹھی ہے،فیکٹریاں بند ہورہی ہیں،خام مال کراچی کے ساحل پر پڑا ہے جس کو کلئیر کروانے کے لیے تاجروں کو ڈالر نہیں مل رہے،انڈس موٹرز کمپنی نے ڈالر کی کمی کی وجہ سے خام مال کی عدم فراہمی پر پاکستان میں پیداوار بند کرنے کا اعلان کردیا
ہے،ٹیکسٹائل انڈسٹری تیزی سے بند ہورہی ہے،پولٹری فارم انڈسٹری سکڑ گئی ہے،ملز مالکان مزدوروں کی چھٹی کروا رہے ہیں۔پاکستان ایشیا کے دوسرے مہنگے ترین ملک کے طور پر سامنے آگیا ہے،زر مبادلہ کے ذخائز خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔لیکن وفاقی حکومت کا راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے اور وفاقی کابینہ میں روز کسی نا کسی اضافے کی نوید سنا دیتا ہے،اس وقت لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ بھوک ہے جو مزید کئی مسائل کو پیدا کررہا ہے۔بقول سعادت حسن منٹو دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے۔بھوک گداگری سکھاتی ہے۔بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے۔ بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے۔بھوک
انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے۔اس کا حملہ بہت شدید، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے….بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے، دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی۔حتی کہ منٹو کی ہر بات وطن عزیز میں پوری ہورہی ہے۔لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہے ہیں. جب وہ بھی ختم ہوجاتی ہیں تو پھر قرض اٹھا کر گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں. جب قرض بھی نہیں مل پاتا تو خودکشیاں کرکے اس دارالمتحان سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔وفاقی کابینہ کی تعداد 76 ہوگئی ہے جس میں 31 معاونین خصوصی، 34 وفاقی وزیر، 7 وزیر مملکت اور 4 مشیر شامل ہیںہو سکتا کالم شائع ہونے تک وزا کی فوج میں مزید اضافہ ہوجائے اب کچھ ہی درجن ایم این اے رہ گئے ہیں کہ جن کا تعلق کاروان اقتدار سے ہے اور وہ ابھی تک ان مراعات و اختیارات سے محروم ہیں۔ملکی مسائل حل ہی تب ہونے ہیں جب کاروان اقتدار سے جڑے ہر سپاہی کو وزارت دستیاب ہوگی۔ایک وہ وقت تھا کہ جب وفاقی کابینہ کی تعداد 50 کو پہنچ گئی تھی. تب عمران خان صاحب وزیراعظم تھے،موجودہ سوا چھ درجن وزرا میں سے کئی درجن لوگ سارا سارا دن اس وقت کی حکومت کی کمر پر تنقید کی چابک برسایا کرتے تھے. وہ 50 رکنی کابینہ کو ملکی سرمائے کو دریا برد کرنے کے مترادف سمجھتے تھے۔اس کو عمران خان کا یاروں کو نوازنے کا بہانہ قرار دیتے تھے،آج وہی فوج ظفر موج اقتدار کے نشے میں مست ہوکر اپنی کابینہ کو 76 اراکین تک لے جا چکی ہے لیکن اب یہ نا تو یاروں کو نوازنے کا بہانہ سمجھتے ہیں اور نا ملکی
سرمائے کا ضیاع یہ اب اس کو ملک کی خدمت کا موقع قرار دیتے ہیں۔ایک وقت تھا جب موجودہ وزرا کے درجنوں چہرے دن رات مہنگائی پر تشویش کا اظہار کرتے تھے اور اس وقت کی حکومت کو گرانے کا واحد جواز پاکستان کی غریب عوام کا مہنگائی کی چکی میں پسنا قرار دیتے تھے،مگر خود اقتدار میں آکر جب غریب کی ننگی کمر پر مہنگائی کے تازیانے برسانے کی رفتار ان سے بھی کئی گنا بڑھا دی ہے تو اس کو ملک بچانے کا واحد حل قرار دیتے ہیں۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ دن رات آٹا چور، چینی چور، قبضہ مافیا اور ادویات مافیا کی گردان سننے کو ملتی تھی جس میں آٹا اور چینی مہنگی کرکے 500 ارب روپے کا فائدہ اٹھانے والوں میں جہانگیر خان ترین کا نام بتایا جاتا تھا. پراپرٹی کے نام پر اربوں کا فائدہ اٹھانے والوں میں علیم خان کا نام بتایا جاتا تھا، ادویات کے نام پر پیسہ بنانے والوں میں عون چوہدری کے خلاف پریس کانفرنسز سننے کو ملتی تھیں.حالات نے کروٹ لی. جہانگیر خان ترین، علیم خان اور عون چوہدری نے اپنا وزن عمران خان کے پلڑے سے اٹھا لیا. پی ڈی ایم کو اس کا تختہ الٹنے پر مدد فراہم کی تو کل تک جو لوگ انہیں ملکی خزانے کو لوٹنے والا قرار دیتے تھے وہی ان کے گن گانے لگے اور جو زبانیں ان کی ملک دشمنی اور لوٹ مار بیان کرتی تھیں وہی ان کی شرافت، دیانت اور مظلومیت کے قصے سناتی نظر آئیں.ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا”مگر اب مجھے لگتا ہے کہ سیاست کے سینے میں ذرا سی شرم و حیا اور غیرت بھی نہیں رہی،اب جھوٹ، مکر، فریب، دغا بازی اور منافقت کو سیاسی دانشمندی کا نام دیا جاتا ہے، جن نعروں کا سہارا لے کر اقتدار تک پہنچا جاتا ہے اقدامات اس کے بالکل الٹ کیے جاتے ہیں،جیسے عمران خان نے ایک کروڑ نوکری کے بدلے کئی کروڑ بیروزگارکیے.پچاس لاکھ گھر کے بدلے کئی لاکھ بے گھر کیے،خوشحالی کے بدلے بدحالی دی. نظام کی بہتری کے بدلے نظام کو بدتر کیا. فلاح کے بدلے مہنگائی کا تحفہ دیا،بالکل ویسے ہی موجودہ حکومت نے بھی عوام کو ریلیف کے بدلے عوام کا گلا گھونٹا،مہنگائی کم کرنے کی بجائے کئی گنا زیادہ کردی،جمہوریت کی بحالی کی بجائے آمرانہ رویے کو فروغ دیا،کفایت شعاری کو فروغ دینے کی بجائے نوازشات کی بارش کی،ڈالر کنٹرول کرنے کی بجائے اس کو اڑان دی،پٹرولیم مصنوعات کو آدھی قیمت پر لانے کی بجائے دوگنی پر لے گئے،الیکشن اصلاحات کی بجائے وقت گزاری کو ترجیح دی ہے۔ملکی معیشت کی بحالی پہلا بڑا چیلنج ہے تاکہ عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کیا جائے لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ہمارے ملک کے حکمرانوں ، ججوں اورجرنیلوں کو ایک مثال بننا ہوگایہ نہیں ہوسکتا کہ یہ تینوں طبقات تو عیاشیاں کریں اورقربانی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں