105

پنجابی فلم ناصر ادیب اور حکومت

پاکستان فلم انڈسٹری کو اس حال میں پہنچانے میں جہاں اپنوں کا ہاتھ ہے دوسری طرف حکومتوں کی عدم دلچسپی بھی شامل ہے۔ تین بار صنعت تسلیم کر کے نوٹی فکیشن نہیں ہو پایا۔ موجودہ صورت حال کو ہی لے لیجیے وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کئی بار کہ چکی ہیں کہ وزیر اعظم فلم انڈسٹری کی ترقی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کو اپنے پائوں پہ کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے مگر بات ابھی اعلانات تک محدود ہے گو کہ پرویز الٰہی کی حکومت فنکاروں کے لیے دلی ہمدردی رکھتی ہے اور طارق ٹیڈی کے بیٹے کو اک خطیر رقم اور نوکری دے کر فنکار دوستی کا ثبوت دیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ فنکاروں کی مالی مدد میں اضافہ کا اعلان کر کے ان کو پانچ سے پچیس ہزار ماہانہ کا اعلان فرمایا اور اس کے لیے ایک بڑی رقم بھی وقف کی جس کی ترسیل کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ جس کا تین ماہ ہو چلے ایک اجلاس بھی نہیں ہو پایا دراصل سیاست دانوں کی آپس کی چپقلش نے جہاں دوسری انڈسٹری کو شدید بحران مین مبتلا کیا ہے وہاں فلم کی حالت بھی نا قابل بیان ہے۔ بقول مصنف ناصر ادیب کے میں نے چند سال پہلے کہہ دیا تھا کہ فلم اس وقت سے ریوائویول کرے گی جب پنجابی فلم ہٹ ہو ۔گی تو وہ کام قدرت نے انہی سے لے لیا اور لیجینڈ آف مولا جٹ پنجابی فلم نے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ کر صرف پاکستان میں ایک سو کڑوڑ کا بزنس کر دیا۔ فلم کو ریلیز ہوئے دس بارہ ہفتے ہو نے کو ہیں کیا فلم انڈسٹری میں پنجابی فلم نے تہلکہ مچا دیا کتنی پنجابی فلمیں شروع ہوئیں۔کتنی زیر تکمیل ہین تو سوائے ایک فلم(سپر پنجابی)مکمل اور دو فلمیں سکرپٹ تک محدود ہیں۔ اسے خوشگوار تبدیلی کا نام نہیں دیا جا سکتا اگر ہم اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ لیجینڈ آف مولا جٹ ایک بڑے بجٹ کی فلم ہے اور اس فلم کے فلمساز کے پاس وسائل کے علاوہ انٹر نیشنل مارکیٹ تک رسائی بھی حاصل تھی مگر دم توڑتی انڈ سٹری میں اتنے کثیر سرمائے کا فلمساز تلاش کرنا مشکل ہے اور نہ ہر فلمساز کے پاس فارن فلم ریلیز کرنے کے سورسس ہیں جیسا کہ محترم سید نور جیسے ہدایتکار اور صفدر ملک جیسے با اثر فلمساز کی فلم (تیرے باجرے دی راکھی)کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ بڑے بجٹ کی فلم فارن تو درکنار کراچی ریلیز کرنا مسئلہ بن گیا۔ ناصر ادیب کی پنجابی فلم ہٹ ہونے سے فلم پر بہار آنے کی بات سو فیصد صحیح ہے مگر اس کے لیے مصنفین کو ایک اور کوشش کرنی ہو گی کہ چھوٹے بجٹ کی ایک دو فلمیں ہٹ کروائیں اور اسی کے مزاج کے سینما ہائوسس بنانے ہو نگے جن کی ٹکٹ تک عام آدمی کی رسائی ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں