93

آپ کیوں روئے ؟

یہ ایک سادہ سے گھر کا دروازہ ہے اور دروازہ بھی شاید ہے یا نہیں ہے ؟کیوں ؟اس لئے کہ کہ نا تو اس میں کو ئی دیدہ زیب چوکھٹ ہے نا ہی بیش قیمت نقش و نگار والا دروازہ ہے صرف اس میں پردہ کے لئے اک بوریا لٹکا ہوا ہے جس کے آگے تقریباََ دو مرلے کا گھر ہے ہو سکتا ہے یہ پیمائش زیادہ بتا دی گئی ہو ۔(کیونکہ اس پاکیزہ اور متبرک گھر کا جو ماڈل راقم نے مدینہ شریف میں دیکھا وہ تو بہ مشکل ایک ہی مرلے کا تھا )
یہ ختم المرسلین کا گھر ہے اس کائنات ہی کے نہیں کائناتوں کے والی کا ہے کہ اس گھر کے مکیں صرف مسلمانوں ہی کے نہیں انسانیت کے محسن ہیں ۔اسی ننھے سے گھر کا مختصر سا دالان بالکل کچا ہے مگر یہ اس دور کے قیصر و کسریٰ کے بیش قیمت پکے محلوں سے کہیں افضل ہے بلکہ معاذ اللہ یہ موازنہ بھی ہم دنیا داروں ہی کے سمجھ کے لئے ہے ورنہ ا س گھرکے مکیں کا ممبر عرشِ بر یں ہے ان کا سائیں اس گھر کے مکیں سدرة المنتہیٰ تک پہنچے ۔اس مختصر دالان میں ایک کو نہ باقی دالان سے ذرا اوپر بنا ہوا ہے اس میں عُنابی سے رنگ کی چکی پڑی ہو ئی ہے جس کے پُڑے تازہ پیسے گئے جو والے آٹے سے مزین ہیں
اس چکی سے ذرا سا ہٹ کر کچی دیوار ہے اس کے ساتھ مٹی کا لمبوترا سا بڑا گھڑا رکھا ہے تا کہ صحرائے عرب کی سخت گرمی میں اس کے اندر پانی ذرا ٹھنڈا رہے اس مٹی کے برتن کے ساتھ ہی دیوار پر ایک چٹائی لٹک رہی ہے جسے بچھا کر سرکارِ دوعالم ۖ رات کو بہت دیر تلک نوافل ادا کرتے ہیں امی جان حضرت عائشہ فرماتی ہیں رات کو اللہ کے سچے رسولۖ لمبا قیام لمبا رکوع اور لمبا سجدہ کرتے ۔آپ فرماتی ہیں کہ اتنا لمبا قیام ہو تا کہ پا ئوں مبارک پر ورم آجاتا ۔آپ ۖ اتنے درد سے روتے کہ سینے سے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز آتی تھی ۔
میں نے اس بارے پہرو ں سوچا بڑی لمبی راتیں اسی فکر میں گذریں کہ آپ ۖ میرے لئے آپ کے لئے اور ہم سب کے لئے راتوں کے پچھلے پہر بہت دیر تلک روئے ۔حق تعا لیٰ شانہ سے ہمارے لئے بخشش مانگی بہت سی کتابیںراقم نے اسی بات کے بارے کھنگالی گئیں بس اک تحفکن اک شرمندگی ہی ان پہروں کا حاصل تھی
لگتا ہے کئی راتوں سے جاگا ہے مصورّ
تصویر کی آنکھوں سے تھکن جھانک رہی ہے
خیر خواہی کی حد ہے محبت کی حد ہے حد ہے کہ وہ ہر بندہ پراگندہ کے لئے روئے وہ خود تو بخشے بخشائے تھے بس وہ میرے لئے روئے دل نے بار بار بارگاہ رسالت ۖمیں حاضر ہو کر التجا کی کہ آپ ۖ کیوں رو ئے ۔؟پھر میرے لئے ؟ میں تو گلیوں کا روڑا کوڑا ہوں ۔بھلا کوئی کسی کا اتنا خیال بھی کیا کرتا ہے اور وہ بھی اپنے ان امتیوں کے لئے کہ جن کی غالب اکثریت کے دامن میں کوتاہیوں نادانیوں اور غفلتوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔دل نے کہا کاش میں اس سمے اس مختصر سے گھر کے آس پاس ہو تا کہ کون مکاں اور آفاق جس کی چوکھٹ پر سرنگوں ہو تے ہیں ۔میں اپنے آقا ۖ کے قدموں میں گرجاتا اور عرض کرتا ۔بس کریں اللہ کے سچے رسول ۖ میرے ماں باپ بیوی بچے گھر بار کاروبار او میری یہ عمر ِ رائیگاں آپ ۖ پر نثار ۔آپ ۖ نے ہادی ِبر حق ہو نے کا حق ادا ہی نہیں کیا اس سے کہیں زیادہ دلداری کی ہے ۔کاش میں وقت کو پیچھے لے جاتا پھر وہ لمحہ بن جاتا ۔وہ لمحہ کہ جس میں آپ ۖ میرے لئے روئے اتنی خیر خواہی تو سگے ماں باپ بہن بھائی اور جگری یار بھی نہیں کرتے جتنی آپ نے کی میری کو تاہیوں کو آپ نے ڈھانپ دیا کیسے کریم آقا ہیں آپ کہ صبر اور ضبط کا پہاڑ بھی آپ کے تحمل کے سامنے پاش پاش ہو کر ریزہ ریزہ ہو جائے جس گھر کا نقشہ آپ کے سامنے کھینچا اس میں ہر رات صبر کی تحمل کی رات تھی یعنی اپنی کو ئی ذاتی خواہش ہی نا تھی جب سوچا اُمت ّکے لئے ہر ہر امتی کے لئے ہی سوچا ہماری مائوں سے نکاح ببھی کیا تو امت کی سوچ میں کیا ۔حضرت جویریہ سے نکاح کیا تو دین متین کو کس قدر فائدہ ہو ا یہ دورِ نبوی ۖ کے لوگ ہی جانتے ہیں حضرت جویریہ اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں آپ ۖ سے نکاح کے بعد صحابہ کرام نے سوچا کہ یہ قبیلہ تو حضورۖکا سسرال ہے سب نے اس قبیلہ والوں کی عزت و توقیر کی ہر کسی نے ہدیہ دیا ۔بعض صحابہ کے پاس غربتِ دنیا کی وجہ سے کو ئی ہدیہ نا تھا تو تن کی قمیض یا عبا اتار کر اپنے نو مسلم بھائی کو ہدیہ کر دی اس سلوک کو دیکھ کر سینکڑوں ہزاروں کلمہ گو بن گئے کہ جسے قرآن مجید نے کہا ۔جو ق در جوق اور جھنڈکے جھنڈ لوگ دین ِ حق میں داخل ہو گئے ۔
آئیے اس عظیم گھر کے نقشہ کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے یہ ربط جہاں سے یہ رابطہ منقطع ہوا تھا ۔تو اس دیوار میں مٹی کے لمبے برتن میں پانی ہے جو کہ گرمی میں ٹھنڈا ہو جاتا ہے ۔اس برتن کے اوپر ایک چٹا ئی ہے جسے اسی برتن کے ساتھ بچھا کر یہ خاک نشیں سچے رسول ۖ عرش نشیں ہو تے ہیں ۔دعائیں کرتے ہیں اپنے خالق کے ساتھ باتیں کرتے ہیں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ سامنے چارپائی پر سوئی ہماری اماں جان کی نیند اچاٹ نا ہو یہ سامنے امی جان حضرت عائشہ کا بستر ہے اور بستر بھی کیا ہے بان کی کھری چار پائی ہے ۔یہی چٹا ئی جو جائے نماز بنی اسے ہی چار پائی پر بچھا کر سرکارِ دوعالم ۖ رات کو استراحت فرماتے ہیں ایک رات اسی طرح آپ حضرت میمونہ کے گھر میں لیٹے ہو ئے امت اور امتیوں کے فکر میں تھے نیند آپ ۖ کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی روایات میں آتا ہے کہ ہماری سبھی مائوں میں ام المومنین حضرت میمونہ بہت ہی خوبصورت تھیں (راقم کو حضرت میمونہ کی قبر مبارک دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔میرے اک عزیز گزشتہ 32سال سے مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں اسٹیل اور ایلومینیم کی مسنوعات بنانے والی ورکشاپ چلاتے ہیں ۔مکہ مکرمہ کے مضافات میں مقامی لوگ روایت کرتے ہیں کہ یہ قبر مبارک حضرت میمونہ کی ہے کیسی کمال کی ہماری مائیں تھیں اور کیسے کمال کے ان کے عظیم المرتبت شوہر ۖ ۔کہ ان ہی کی وجہ سے دین عورتوں میں پھیلا )جب لوگوں کا اک جمِ غفیر ایمان لے آیا تو مسجد نبوی ۖ میںسارا دن دور دراز سے وفود آتے ۔اللہ کے سچے رسول انھیں دین کی تعلیم دیتے ۔حرام اور حلال کے بارے فرائض اور واجبا ت کے بارے تعلیم کے ذریعے دین سکھاتے ۔مستورات میں یہی کام ہماری مائیں سر انجام دیا کرتی تھیں اور یہی امھات المومنین کی اہمیت ہے ۔
ایک بار پھر حضر ت میمونہ کے اسی چھوٹے سے گھر میں آپ کو لئے چلتے ہیں ۔اللہ کے سچے رسول ۖ کے ہاں آج رات رت جگا ہے یہ کیا رت جگا ہے جو دنیا کا نقشہ بدلنے والا ہے کہ اس کے نتیجے میں اسلام چار براعظموں کو پھلانگ کر گزر جائے گا ۔آپ ۖ رفع حاجت کے لئے اس ننھے مُنے ّگھر سے نکلتے ہیں فراعت کے بعد واپس تشریف لاتے ہیں ۔اماں جی حضرت میمونہ اب جاگ رہی ہیں ۔فرمانے لگیں
”،نیند ہی نیند میں مَیں نے بستر پر ہاتھ پھیرا تو پتہ چلا تاجدار ِ ختمِ نبوت گھر سے باہر تشریف لے گئے ہیں کیا کسی دوسری زوجہ کے گھر جانا ہوا ؟اگر جانا ہی تھا تو بتا کر چلے جاتے ”۔
برد باری اور معاملہ فہمی کی معراج دیکھئے ۔آپ نے فرمایا ”،میمونہ میں تو رفع حاجت کے لئے باہر ذرا آبادی سے دور گیا تھا اور وہیں سے واپس تمھارے پاس آگیا ہو ں ”٫
آپ ۖ تحمل کے ساتھ لیٹ گئے ۔اماں جان کو پچھتاوا ہوا ۔آپ اکثر اس واقعہ کا ذکر فرمایا کرتی تھیں کہ آپ ۖ نے جواب میں معاذ اللہ نا ہی کو ئی تلخ حملہ کہا نا ہی رنجیدہ ہو ئے ۔چُپ چاپ بستر پر لیٹ گئے اس کمرہ نماگھر کی چھت یوں تو عرش بریں ہے مگر دنیا وی نظروں کے لحاظ سے اس پر کھجور کی ٹہنیاں دھری ہیں جن میں سے جسم و جاں پر چبھ جانے والی سورج کی تیز گرم کرنیں پڑتی ہیں اس چھت کے نیچے ہر رات بہائے گئے آنسو کتنے پَوِ تر اور سچل تھے جو ہم جیسوں کے راہنما بنے یہ کیا دُکھ تھا جو میرے سُکھ کے لئے تھا ایک ڈھل مُل یقین امتی کے لئے جس کے ہاں عبادات میں ہمیشہ سستی نماز میں کو تاہی اور تلاوت میں بے یقینی ہوا کرتی ہے ۔
ہائے اپنی کو تاہی ِ فن یاد آجائی
اگر کوئی صاحبِ دل صاحبِ حال بندہ رحمت دوعالم کا حشر کے دن سامنا کرے گا تو کس حال میں کرے گا سوچے گا کہ نامہ اعمال میں بارگاہ ِ رسالت میں دکھانے کو کچھ نہیں میرے پاس بہت حسیں اعمال تو نہیں مگر میں نے انساں سے انسانیت سے محبت کی ہے ۔میں نے کوشش کی کہ کسی بھی سوالی کو اپنے مکان کی چوکھٹ سے خالی جھولی نا بھیجوں ۔میں نے یہ بھی کوشش کی کہ مال کی محبت دل سے نکل جائے اس کی مشق بھی کی یوں کہ اپنی جیب میں پھوٹی کو ڑی بھی نا رکھی جب کو ئی مفلس آیا پھر یہ نا پو چھا کہ وہ مستحق ہے یا نہیں پھر صاحبِ دل بندہ سوچتا ہے جب اس نے سوال کر دیا تو پیچھے کچھ نہیں بچا
کچھ بھی نہیں بچا جسے رکھیں سنبھال کر
ہم نے یہ فیصلہ کیا سکّہ اچھال کر
پھر گھر والوں سے کہا یا دوکان پر ہیں تو ملازم سے کہا دفتر میں ہیں تو نائب قاصد سے کہا سوالی کی مدد کر دیں کہ اپنی جیب اور اپنا دامن تو خالی ہے یہ خالی رکھنا ہے ایسا کرنے سے بہت آفاقہ ہو جاتا ہے بار بار نوٹ گننے سے بندے کے دل میں نوٹوں کی الفت پیدا ہو جاتی ہے مگر یہ احتیاط صرف دل والوں کے لئے ہے عوام الناس کے لئے واقعی رزق حلال عین عبادت ہے مگر جو قرآن مجید نے کہا
”،تمھیں اپنے مال سے محبت ہے بہت زیادہ محبت (الفجر۔20)
صاحبِ دل بندہ دل ہی دل میں بارگاہِ رسالت میں عرض کرتا ہے ”،اے میرے آقا ۖ میں نے ہمیشہ مسکین کی مدد کی دل سے کہا کبھی جھڑکی نا دینا سوال کرنے والے کو یہ نا کہنا کہ تو مستحق نہیں تو کسی قابل نا تھا تو مستحق نہیں تھا مگر تیرے رب نے تیرا ہاتھ اوپر والا بنایا ۔تجھے کسی کے سامنے تلی کرنی پڑتی خالی ہاتھ پھیلانا پرتا تو تجھے پتہ چلتا کہ سوال کرنے والا نا جانے انا کے کتنے بُت توڑ کر تیرے پاس آیا ۔صاحبِ دل بندہ دُکھی ہو تا ہے کہ میرے لیئے آپ کیوں روئے آپ ۖ نے خود فرمایا کہ جتنی تکالیف اور دُکھ میری جان کو پہنچے اور کسی نبی کو ان سے واسطہ نا پڑ ا ۔مگر میں جانتا ہوں آپ ۖ اپنے دُکھوں کے لئے نہیں آپ تو راتوں کو میرے لئے روئے ان کی تو اپنی کو ئی بھی ذاتی خواہش ہی نا تھی بس ایک آرزو تھی کہ دین دنیا میں عام ہو جائے ان کی پاکیزہ آنکھیں اسی لئے نہریں اور دریا بنی رہیں اگر معاذ اللہ ذاتی خواہش ہو تی تو مکہ ہی میں مشرکین نے انھیں ہر طرح کی دولت کی خوبصورت عورت کی پھر سرداری کی آفر کی اگر معاذ اللہ ذاتی خواہش ہو تی تو وہ اس مندرجہ بالا ایک مرلے کے گھر میں رہ کر آنسو نا بہاتے وہ سچل تھے اور سچے تھے اسی لئے ان کی اس عطمت کا اعتراف غیر مسلموں نے بھی کیا ۔
The Hundred پچاس سال میں پو رے امریکہ یورپ اور دنیا کے سبھی ملکوں میںسب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے جس میں مصنف مائیکل ہارٹ نے دنیاکی عظیم ترین 100ہستیوں کا زکر کیا اس کتاب کا پہلا ایڈیشن متعصب یہودیوں نے خرید کر کسی نا معلوم جگہ چھپا دیا ۔دوسرے ایڈیشن کے ساتھ بھی یہی ہوا کیونکہ اس کتاب میں اس فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر سرکارِ دوعالم ۖ کا ذکر کیا گیا اور آپ کے اوصاف ِ حمیدہ کا پھر انسانیت پر آپ کے احسانات کا تذ کرہ کیا گیا حالانکہ مصنف خود عیسائی تھا ۔عیسائی لوگوں نے بھی مصنف پر اعتراض کیا کہ کہ پہلے نمبر پر تو حضرت عیسی کا ذکر ہو نا چاہئے تھے اس کتاب کے تیسرے ایڈیشن پر بہت بڑا مجمع کٹھا ہوا جس نے مائیکل ہارٹ پر آواز ے کسناّ شروع کئے تو وہ سب کے سامنے اسٹیج پر آکر کھڑا ہو گیا ۔راتوں کو میرے لئے اُٹھ کر رونے والی اس عظیم ہستی اور میرے ہادی برحق ۖ کے بارے میںاس نے صرف دو جملے کہے جنھیں سن کر مشتعل ہجوم کو سانپ سونگھ گیا ۔
اس نے کہا آپ سب ذرا اُس عظیم اور سچی شخصیت کے بارے سوچیں ۔ایک یتیم بچہ جس کا لڑکپن اور جوانی بے داغ تھی وہ چالیس سال کی عمر میں اعلان کرتا ہے کہ میں اللہ کا سچا رسول ۖ ہوں تو صرف گھر کے دو بچے (حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت زید بن حارث )اس کی بیوی اور ایک دوست (سیدنا حضرت ابو بکر صدیق)ایمان لائے مگر آج پو نے دو ارب لوگ ان کے نام لیوا ہیں حاضرین و سامعین جھوٹ (معاذ اللہ )پندرہ سو سال تو چل نہیں سکتا ۔ان کے فضائل ان کی رفعتیں اور عظمتیں ہی اتنی تھیں کہ میں نے کر سچین ہو تے ہو ئے بھی 100مشہور شخصیات جو اس کرہ ارض پر آئیں ان میں سے نمبر1پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام رکھا کہ یہ میرے ضمیر کا فیصلہ تھا ۔
دی ہنڈرڈ میں دوسرے نمبر پر آئن سٹا ئن اور تیسرے نمبر حضرت عیسی کا اسمِ گرامی ہے آئن سٹائن کی سائنسی خدمات کو اک طرف رکھ کر اگر دیکھیں تو اس نے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اس کے بنائے ہو ئے ایٹم بم نے لاکھوں لوگوں پر تابکاری اثرات چھوڑ ے جبکہ میرے آقا ۖ نے انسانیت کو زندگی عطا کی انھیں جینے کے ایسے اصول سکھائے کہ جس قوم میں وہ مبعوث ہو ئے اس نے رومتہ الکبریٰ اور فارس جو اس زمانے کے روس امریکہ تھے انہیں زیر نگیں کر لیا اب ایسے جانثار اور جیدصحابہ کے سردار اور وجہ وجودِ کائنات اگر میرے لئے روئے اوروہ بھی رات کے پچھلے پہر تو یہ اک خوشگوار حیرت والی بات ہے کیونکہ
پہلا پہر تو ہر کوئی جاگے
دوجا نا جاگے کو ئی
اتنی محبت ایسی چاہت ایسی دلداری اور ایسا اُنس تو سگے ماں باپ اور بہن بھائی یا جگری دوست بھی نہیں کرتے ۔دو عالم کے سردار اور میرے جیسے بندے کے لئے روئے دل نے بارگاہ ِ رسالت میں بصد ادب و احترام عرض کیا میرے آقا ۖ آپ کیوں رو ئے مجھ سے دوسری بار کبھی کسی نے مصافحہ نہیں کیا ۔جن کی کسی بات کو درخور اعتانہ نا سمجھا گیا آپ ان کے لئے بھی رو ئے یہ کیسا کرم ہے کہ کرم کی انتہا بھی اس کرم کو دیکھ کر مند چھپائے پھرتی ہے ۔میرے آقا ۖ میں اک غریب الد یارشخص ہو ں اک مسکین اور قلاش آدمی ہوں مگر جس دن سے مجھے پتہ چلا کہ میرے آقا میرے لئے روئے میں مسکین سے سلطان بن گیا ۔ عالیشان بن گیا ۔کو ہِ سلیمان بن گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں