141

طبقاتی شعور

ظہیر اختر بیدری

کورونا کے حوالے سے پاکستان کو کم نقصان اٹھانے والا ملک کہا جاتا ہے اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود روزانہ کم ازکم 20انسانی زندگیاں کورونا کی نذر ہو رہی ہیں۔ کورونا دور حاضر کی ایک ایسی جان لیوا وبا ہے جو اب تک صرف پاکستان میں 22 ہزار سے زیادہ زندگیوں کا خراج لے چکی ہے۔

دنیا میں تو لاکھوں جانیں اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ پاکستان میں ابتدائی کچھ عرصہ تو بڑے آرام سے کسی بھگدڑ کے بغیر گزر گیا لیکن اس کے بعد جو افراتفری مچی ہے، اس کی وجہ سے ویکسین لگوانا مسئلہ بن گیا ہے۔ ہر طرف ایک افراتفری مچی ہوئی ہے ،کوئی بہادر اس بھیڑ بھاڑ کو چیرتا ہوا اگر ویکسین تک پہنچ گیا تو وہ خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات نہیں کہ ویکسین ختم ہوگئی ہے بلکہ بات یہ ہے کہ اس کی مینجمنٹ درست نہیں ہے، اگر یہی کام سلیقے سے کیا جائے تو زحمت سے بچا جاسکتا ہے۔ ویکسین سینٹرز کو دو تین جگہ مرکوز کر دیا گیا ہے جہاں شہر بھر کے ضرورت مند جمع ہو جاتے ہیں اور وہ بھیڑ بھاڑ ہو جاتی ہے کہ اللہ دے بندہ لے۔ اب بھی صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے۔ لوگ ویکسین لگوانے اس طرح جاتے ہیں جیسے جنگ لڑنے جا رہے ہوں۔

اس صورتحال کی وجہ سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے جس کا سدباب ہونا چاہیے۔ ہمارے شہر میں ایسے اداروں کی کمی نہیں جہاں ویکسینیشن کا اہتمام کیا جاسکتا ہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان سینٹروں کو استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہمارا یہ قومی المیہ ہے کہ کوئی کام سلیقے اور ڈھنگ سے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قومی تربیت کی بات ہے لیکن بدقسمتی سے نہ ہم ایک قوم بن سکے نہ وہ سلیقہ ہم میں پیدا ہوا جو ایک میچور قوم میں ہوتا ہے۔ ان کمزوریوں کی وجہ ہم انتشار کا شکار ہیں اور مشکلات کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔

ہماری ’’نئی حکومت‘‘ کے پاس اتنا ٹائم ہے نہ سلیقہ کہ وہ ہر ایسے کام کو سلیقے سے کرسکے جسے عوامی کہا جاسکتا ہے۔ ہماری حکومت کے سربراہ حکومت کو نئی حکومت کہتے ہیں لیکن یہ حکومت کسی طرف سے بھی نئی حکومت نظر نہیں آتی ہے۔ دنیا آگے  دیکھ رہی ہے لیکن ہم ماضی کے دھندلکوں میں کھوتے جا رہے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ دنیاحال سے مستقبل کی طرف سفر کرتی ہے اور ہم حال سے ماضی کی طرف جا رہے ہیں۔

آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے، وہ قومیں ترقی کر رہی ہیں جو دور حاضر کے علوم سے استفادہ کر رہی ہیں، جو قومیں دور حاضر کے علوم کو بھلا کر مختلف سمتوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہیں، وہ اپنی قوم کے ساتھ دشمنی کر رہی ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم دو حصوں میں بٹا ہواہے۔ ایک سرکاری دوسرے پرائیویٹ۔ سرکاری اسکول عام طور پر بچوں کی تفریح کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، ان اسکولوں میں تعلیم کی جگہ نئے نئے کھیل متعارف کیے جا رہے ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم کی زندگی کا بہت بڑا حصہ مغربی ملکوں میں گزرا ہے جہاں جدید علوم کے علاوہ جدید طریقہ تعلیم بھی متعارف کرایا گیا ہے، اس کی وجہ تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت ہے اور یہ بیماری چونکہ پرانی ہے لہٰذا اس سے نجات پانا بھی آسان نہیں۔ لیکن نئے ملک کے نئے سربراہ کی ذمے داری ہے کہ وہ قوم میں ایک ڈسپلن نافذ کرنے کی کوشش کرے ویکسین کے حوالے سے جو بد نظمی دیکھی جا رہی ہے، وہ نئی حکومت کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔ کیا یہ کام نئی حکومت نہیں کراسکتی؟

اصل بات یہ ہے کہ نئے نظام اور پرانے نظام کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔نئے نظام کی حامی فطری طور پر نئی نسل ہے لیکن شاہوں اور شہنشاہوں کی اولاد نے اس نوجوان نسل کو محض اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے قوم، قومیت، رنگ، نسل، زبان کے حوالے سے اس طرح تقسیم کرکے رکھ دیا ہے کہ تقسیم  ہونے والے تو دست و گریباں ہیں تقسیم کرنے والے شاہوں کی زندگی گزار رہے ہیں، آج جس طرف نظر اٹھائیں یہی نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ ان نظاروں کو دیکھ کر کوئی خون کے آنسو روتے ہیں تو کوئی اپنی سازشوں کی کامیابی دیکھ کر پھولے نہیں سماتے۔

ہم نے کورونا ویکسین کی تقسیم کے حوالے سے ہونے والی افراتفری کا ذکر کیا تھا۔ یہ افراتفری خود سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ اسے پیدا کیا گیا، قومی سطح پر اور اس افراتفری کا فائدہ ایلیٹ اٹھا رہی ہے۔ ایک چھوٹا سا طبقہ وہ ہے جس کے ایوانوں میں ڈاکٹر جا کر ویکسین لگاتے ہیں، باقی کروڑوں لوگ وہ ہیں جو ویکسین کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے گلے پکڑتے ہیں۔ یہ سب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک عام آدمی میں طبقاتی شعور نہیں پیدا ہوتا اور وہ دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کرسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں