144

سفید جھوٹ اور کالا پانی

سعد اللہ جان برق

قہرخداوندی چشم گل عرف کورونا وائرس، سابق ڈنگی مچھر کی نئی دریافت کالے جھوٹ بمقابلہ سفید جھوٹ نے ہماری توجہ ’’رنگوں‘‘کی طرف کردی ہے ورنہ اس سے پہلے تو ہم صرف دو ہی رنگوں کو جانتے تھے۔’’سیاہ وسفید‘‘جنھیں کبھی کبھی ملاکر ’’بھورا‘‘ یا ’’گرے‘‘بھی بنایا جاتا تھا لیکن وہ صرف ’’سیاست‘‘میں ہوتا تھا۔لیکن اب تو اتنے رنگ ہیں کہ رنگ بھی باتیں کرنے لگے ہیں۔

مجھ کو بے رنگ نہ کردیں کہیں یہ اتنے رنگ

سبز موسم ہے،ہوا سرخ، فضا نیلی ہے

خیر تو جھوٹ کے رنگ دیکھ کر ہمارا خیال پانی کی طرف گیا۔ویسے تو پانی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، ہر رنگ اس کا ہوتا ہے اور خود پانی نے بتایا ہے۔

پانی رے پانی تیرا رنگ کیسا

جس میں ملادو لگے اس جیسا

لیکن پرانے زمانے میں ’’کالا پانی‘‘بہت  مشہوا ہوا جو سفید گورے انگریز ’’کالوں‘‘کو سزا کے طور پر دیا کرتے۔’’کالا پانی‘‘جس کا قانونی نام ’’بعبوردریائے شور‘‘تھا۔ہمارے بہت سے اکابرین کو کالے پانی کی سزا دی جاچکی ہے، غالباً  بہادر شاہ ظفر بھی ان میں شامل تھے۔خیر گولی ماریے کالے پانی کو۔کہ گورے کم بخت خود تو اپنا گورا رنگ لے کر چلے گئے اور ہم سب کو کالے پانی کے سنگ چھوڑ کر’’بد رنگ‘‘کرگئے ۔گویا اب کالا پانی یا بلیک واٹر ہماری دہلیزپر آکر کھڑا ہوگیاہے۔اس لیے سفید پانی یا ’’وائٹ واٹر‘‘ کی بات کرتے ہیں۔

ایک عجب سا اتفاق ہے، ہم تو حیران ہوگئے، دنیا میں کیا کیا انقلابات آتے رہتے ہیں۔ کسی بزرگ نے کہا ہے کہ زندہ رہوگے تو بہت کچھ دیکھ لوگے، وہ بھی جو دیکھنے کے لائق ہے اور وہ بھی جو دیکھنے کے لائق نہیں ہے لیکن کوئی کیا کرے کہ صبح سویرے ’’اخبار‘‘ اور شام کو چینلز دیکھنا پڑتے ہیں۔ہمارے ایک کسان شاعر نے کہا ہے کہ جب بھی کھیت میں ہل چلتا ہے تو نیچے کی مٹی اوپر اور اوپر کی مٹی نیچے چلی جاتی ہے۔ ہمارے اس کھیت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک فصل کاٹ لی جاتی ہے تو پھر دوسری فصل کے لیے ہل چلا کر وہی کیا جاتا ہے جس کا نام’’ہل چل‘‘ہے۔

بہت سارے انقلاب اور ہلچل بھی آئے۔جس کی وجہ سے وہ،وہ ہوگئے جو کبھی  ’’وہ‘‘نہیں تھے۔اور جو وہ تھے وہ ، وہ نہیں رہے ۔ مثلاً پہلے مرغی مہنگی تھی اور دال ستی، اب دال مہنگی اور مرغی دال ہوگئی۔جو چھوٹے تھے، وہ بڑے ہوگئے مطلب یہ کہ انقلاب ہی انقلاب اور ہلچل ہی ہلچل جس کی وجہ سے رنگ بھی بدرنگ ہوگئے۔

کہ رنگارنگی اصل میں بدرنگی ہی ہوتی ہے۔ اب کالا پانی کسی کو یاد بھی نہیں کیونکہ سب کے سب کالے پانی میں ہیں البتہ ’’سفیدپانی‘‘ کا دور ہے۔ آپ نے دیکھا بھی ہوگا اور سنا بھی ہوگا کہ اب خطرناک، بدنام اور مجرم مشرق بعید کے بجائے ’’مغرب بعید‘‘یعنی ’’سفید پانی‘‘جاتے ہیںبلکہ بھیجے جاتے ہیں۔

سفید پانی میں جاکر دیکھیے کہ کتنا کالا مکھن وہاں اکھٹا ہوا ہے، بچارے ضیاء الحق کو ظالموں نے مرگ مفاجات دی ورنہ وہ بھی آخر میں کہیں کسی سفیدپانی میں چلے جاتے۔کیا انقلاب ہے، پہلے ’’لوگوں‘‘ کو سزا کے طور پر کالا پانی بھیجا جاتا ہے اور اب جزا کے طور پر سفید پانی بھیجا جاتا ہے اور کالے پانی ہی کو یہاں لایا گیا ہے شاید اس لیے کہ اتنے سارے کروڑوں کی تعداد میں ’’مجرموں‘‘کو کالا پانی بھیجنے میں اخراجات زیادہ تھے، اس لیے کالے پانی ہی کو لاکر ’’مجرموں‘‘ پر چھوڑ دیا گیا اور ’’گوروں‘‘کو سفید پانی بھیجا جانے لگا۔ایک لطیفہ یاد آرہا ہے، پتہ نہیں اس موضوع سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں لیکن جب آیا ہے تو آنے دیتے ہیں۔کہتے ہیں کسی شہر میں کوئی وباء پھوٹی تو لوگ یہاں وہاں فرار ہونے لگے۔

ایک گھرانے کے والدین خود تو نہیں جاسکتے تھے لیکن انھوں نے بچوں کی ٹولی کو دور دراز کے کسی محفوظ رشتے داروں کے ہاں بھیج دیا۔ وہ بچے اتنے ہنگامہ خیز تھے کہ کچھ ہی دنوں میں ان رشتے داروں نے بچوں کے والدین کو ’’تار‘‘ بھیجا کہ مہربانی کرکے ’’وباء‘‘ کو یہاں بھیج دیں اور یہ بچے لے جائیں لیکن ہم تو سفید پانی کے سفیدوں کو ایسا تار بھی نہیں بھیج سکتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں