177

معاشی سیاسی اور نظریات کی مسلسل تنزلی اور اقتدار کی جنگ

اس ملکِ پاکستان کو اپنا وجود قائم کئے تقریبا پونی صدی سے اوپر کا عرصہ گزر چکا ہے پہلے دن سے لے کر آج کے دن تک ہم مالی معاشی سیاسی اور نظریاتی تنزلی کا شکار چلے آ رہے ہیں اور سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ دن بدن ہم اپنی بدحالی معاشی سیاسی اور نظریاتی تنزلی کی منزلیں تیزی سے پار کر رہے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک ایسے اندھے کنوں میں گِر چکے ہیں جہاں پر ہمارے آگے کچھ نظر آ رہا ہے نا ہی پیچھے کوئی راستہ ہیعوام کی وہ صورتحال ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی روزی سے بھی تنگ ہو چکے ہیں کہنے کو تو ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ ایک روٹی بیس سے پچیس روپے میں دستیاب ہے مثال کے طور پر اگر ایک گھر میں ایک مزدور کے میاں بیوی بچوں سمیت چھ افراد ہیں تو پہلے تو ساڑھے چار سو روپے کا روزانہ آٹا ہی خریدیں گے اور دو سو روپے کی دال بنائیں گے یہ سارا خرچہ ساڑھے چھ سو روپیہ کا ہے لیکن اس کی ایک دن کی اجرت اگر چھ سو روپے ہے تو اپنے باقی معاملات زندگی کہاں سے پورے کرے گا پھر کیا اسکو حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوٹ مار کرے ناجائز زریع سے اپنے بچوں کا پیٹ پالے لیکن نہیں ہم ایک ایسے غیر مہذب معاشرہ میں زندہ ہیں جہاں جہاں پر ملاں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہے کہ کوئی کسی کا رزق نہیں کھا سکتا تمہیں اسی مفلسی میں جینا ہے اور اسی قرب میں مبتلا ہو کر مرنا ہیاور آج کا حکمران طبقہ اور اور نام نہاد اپوزیشن کے سرخاب اقتدار کی جنگ و جدل میں مصروف عمل نظر آتے ہیں جب اسلامی ٹچ کے ماہر عمران خان کو ملک کی معاشی اور معاشرتی بدل حالی کے بعد اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے اقتدار ایسے چمٹے جیسے ان کے باپ کی جاگیر ان کو واپس مل گئی ہو اور آج عوام دشمن پالیسیوں کو ماننے
اور عوام پر ایک مہنگائی کا پہاڑ گِرانے کیلئے آئی ایم ایف کی منتیں کی جا رہی ہیں تاکہ ہمارا ڈنگ ٹپا دیا جائے بعد میں کیا ہوگا دیکھا جائے گا آج میں اجلت میں نظریاتی ہونے والے تین دفعہ کے وزیر اعظم نواز شریف سے پوچھتا ہوں کہ کہاں گیا تمہارا وہ نعرہ کہ ووٹ کو عزت دو کہاں ہیں وہ تمہارے نظریات جو اس ملک کی غریب مظلوم و محکوم عوام کیلئے جنم لے رہے تھے کیا وہ سب آج تمہارے بھائی کی وزارت عظمی اور بھتیجے کو وزارت اعلی دلوانے کے سمندر میں سب کچھ غرق ہو چکا ہے باقی رہی عمران خان کی بات وہ آج بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی کبھی تو منتیں کرتا ہے کہ مجھے معافی تلافی دے دی جائے جب کچھ نہیں بن پڑتا تو گندی زبان اور دھمکیوں پر اتر آتا ہے جہاں تک رہی نظریہ کی بات تو اس خان کے پاس نا تو کوئی نظریہ ہے اور نا ہی کوئی پروگرام جس سے اس ریاست کی چاروں وحدتوں کے باسیوں کیلئے کوئی فلاحی پروگرام ہو یہ صرف اسلام کے نام پر عوام کو بیووف بنا رہا ہے باقی ہماری بھولی عوام بھی کیا کرئے وہ بھی ہر دفع کبھی کسی ملاں کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر اور کبھی کسی اس جیسے اسلامی ٹچ والے کو اپنا نجات دھندہ سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ کے یہ غیرنظریاتی لوگ اقتدار کے بھوکے اسلام کو اپنا ہتھیار بنا کر غریب عوام کو فتح کرتے ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں نظریاتی طور پر کبھی بھی اس ملک کی عوام کو سوچنے سمجھنے کی سرت ہی نہیں آنے دی گئی اگر کبھی
ایسی کوئی کرن بھی پھوٹنے کا سوچ رہی ہوتی تھی تو کبھی کسی ڈکٹیٹر نے کبھی کسی ملاں نے اور کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کسی سول عوام میں مقبول لیڈر سے ایسا کام کروایا کہ سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا کبھی ملکی سلامتی کے نام پر اور کبھی اسلام کو شدید خطرات کا بہانہ بنا کر لوگوں کو شاہ دولہ کے چوہے بنائے رکھا گیاجہاں پر نظریات اپنا کام دیکھلاتے ہیں وہاں پر عام آدمی پارٹی انڈیا جیسی جماعتیں بی جے پی جیسی بڑی پارٹی کے بھکیے ادھیڑ کر رکھا دیتی ہیں وہاں پر عام مزدور کا بیٹا جیتتا ہے وہاں ایک سڑکوں پر جھاڑو لگانی والی سیاست میں آ کر شہر کی ڈپٹی میر بنتی ہے لیکن ہماری ریاست پاکستان میں جاگیردار سرمایہ دار پیر گدی نشین مِل مالک جو اربوں کھربوں پتی لوگ ہوتے ہیں انہی کو حق ہوتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں کی زینت بنیں ایک عام آدمی تو اپنے نومی نیشن پیپر تک جمع نہیں کروا سکتا پہلی بات کہ اس کو تصدیق و تائید کنندہ ہی نہیں ہوگا اوپر سے مرنا یہ کہ اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہونگے کہ ان نومی نیشن پیپرز کی فیس ہی ادا کر سکے۔ آج بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیے جائیں ریاست پاکستان چار وحدتوں یعنی چار صوبوں کا مجموعہ ہے کبھی ہم نے بلوچستان کے حالات پر غور کیا ہے جہاں اگر کوئی بیمار ہو جائے تو ایک یا آدھ گھنٹہ اس کو کندھوں پر اٹھا کر کسی چھوٹے موٹے ڈاکٹر یا اسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں پر انکی عورتیں روزانہ میلوں سفر کر کے پینے کیلئے پانی بھر کر لاتی ہیں جہاں پر بھوک غربت مفلسی بے روزگاری کے لالے ہیں اس طرح خیبر پختونخوا سندھ اور پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں عوام کو نا پانی میسر ہے نا کھانے کو دو وقت کی روٹی میسر ہیاگر حالات اسی طرح روزبروز بدتر ہوتے رہے تو پھر انقلاب برپا ہوتے ہیں ریاستوں کا وجود صفا ہستی سے مٹ جاتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسی کئی ریاستیں صفا ہستی پر موجود ہی نہیں ہیں اور تاریخ بھی انکو بھلا چکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں