75

”آس”

اُمید انتظار احساس دید لحاظ اور اُڈیک کو مرنے نہ دیں آس کو نراس میں بدلتے اک لمحہ لگتا ہے مگر یہ اک لمحہ صدیوںکی جستجو کو ملیا میٹ کر دینے کا باعث بن سکتا ہے دل کی تجوری میں آس کی کر نسی جب تک رہے گی تب تک ہر روز روز عید اور ہر شب شبِ برات ہو گی آس کا چراغ بجھ گیا تو زندگی کی راوہوں پر سوائے مایوسی کے اندھیروںکے کو ئی روشنی کو ئی جگنو نہیں بچے گا مایو سی اندھیروں کو دعوت دیتی ہیں کرنوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتی امید کا اک چراغ مایوسیوں کے کو ہ ِ ہمالیہ کو پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ اندھیروں کو للکارتے ہو ئے کہتا ہے کہ میرے دل کا یہ راستہ دکھوں کے لئے شارع عام نہیں قوی ایمان بھی تو اُمید اور خوف کے درمیان رہتا ہے کہ یہ مالک سے ناامید ہو نے ہی نہیں دیتا مگر اپنی خطائوں پرجراء ت سے بھی منع کرتا ہے کہ مالک تو مالک ہے چاہے تو بخش دے چاہے تو حساب لے لے بندہ بڑا عظیم ہو جائے تو بھی بندہ ہی ہے التجا ہی کر سکتا ہے اس التجا کے سامنے مالک کی مرضی ہے بے نیاز ی بھی تو حق تعالیٰ شانہ کی اک صفت ہے چاہے تو مان لے چاہے تو رد کر دے۔
ایک صالح متقی اور صاحب ِ دل صاحب ِحال نو جوان کے ساتھ ساتھ بہت سال گذرے میں نے اک روز اس سے پو چھا
”،حشر کے دن حق تعالیٰ شانہ اپنے جلال کے ساتھ فرمائیں گے
” ، لِلہِ الوَحِدُالقَہا،،
ایساکیوں ہو گا؟
نو جوان کہنے لگا اس کے 2جواب ہیں
ایک تو یہ کہ مالک کی مر ضی ہے اپنی طاقتوں قدرتوں اور جلال کا اظہار کرے یااپنی کریمی رحمت در گذر اور معاف کرنے والی صفات کا اظہار کرے ۔ مخلوق خالق سے پو چھنے کی حق ہی نہیں رکھتی۔
دوسرا یہ سمجھا نا مقصود ہو گا کہ دنیا میں جو لوگوںنے چھوٹے مو ٹے بت بنا رکھے تھے جنھیں وہ حاجت روا کہتے تھے یا جن سے مرادیں مانگیں اُنھیں واحد اور قہارّجبارّاللہ کے سامنے پیش کریں تاکہ ان سے کچھ بن پانے کی جھوٹی آس ہے بھی تو وہ دم توڑ دے اُڈیک ختم ہو گئی تو راستے ہی معدوم ہو گئے ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی امید کے جتنے مینار تھے سبھی زمیںبوس ہو ئے آس کے بڑے بڑے محل خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے وقت کے تھپیڑے ایسے تھے پہلی لہر سب کچھ بہا کر لے گئی جہاںخزانوں کے خزانے تھے ہیروں اور جواہرات کے ڈھیر تھے وہاں اڈیک رخصت ہو ئی ما یو سیوں نے ڈیرے لگا لئے اور بعض اوقات تو یہ ڈیرے ایسے مستقل ہو ئے کہ آس ہی ٹو ٹ گئی حالات کو کبھی Point of no Returnتک جانے ہی نہ دیں ہماری لچک سے ٹو ٹی آس بندھ سکتی ہے یہ ٹوٹ گئی تو زندگی کے لمحے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر سکتے ہیں پھر ساری عمر یہی دانے چننے اور اکھٹے کرنے میں گذر جاتی ہے آس کو نراس میں بدلنے کے لئے اک لمحہ درکار ہو تا ہے اصلی آس دل ہی سے روح ہی پھوٹتی ہے اگر یہ سوتے خشک ہو جائیں تو ہم اس ادھوری دنیا میں ادھوری زندگی جی کر رخصت ہو نگے کہ آخرت کی دنیا ہی اس دنیا کی تکمیل کر سکتی ہے جس طرح کا لے کا متضاد گو را ہے دن کا متضاد رات اسی طرح یہاں ہر چیز ہر جزبے کا متضاد موجود ہے تو دنیا کا بھی کو ئی متضاد ہو گا اور وہ آ خرت ہے ۔
یہ تحریر ابھی یہیں تک لکھ پا یا تھا میرے پڑوسی چاچا شکر دین نے اپنی لاٹھی سے میرے چیمبر کا دروازہ بجا کر خیالات کا تانا با نا ادھیڑ دیا چچا شکر دین تو یہ نہیں جا نتا کہ افسانہ نگار کالم نگا اور شاعر جب غزل کے ادھیڑ بُن میں ہو تو اسے ڈسٹرب کرنے والے اک بہت ہی قیمتی خیال کو لکھاری کے ذھن کی دسترس سے دور کر دیتے ہیں لیکن ذرا اک لحظہ ٹھریں میں نے اپنے قارئین کو یہ تو بتایا ہی نہیںکہ چچا شکر دین کو ن ہے ۔
یہ میرا پڑوسی تو ہے ہی مگر یہ دیہاتی کلچر کا گم گشتہ کردار بھی ہے ۔چچا کی فتو حا ت کا تذکرہ اس کی زبانی ہی سنیں
”،اب عمرِ عزیز کے سو سال پو رے ہو چکے مگر اس لحاظ سے میری صحت اچھی ہے کہ چل پھر سکتا ہو ں چاہے لاٹھی کے سہارے ہی سہی جوانی میں بڑا کسری بدن تھا اور بے راہ روی والی زندگی روزانہ جھگڑ ا لڑا ئی مار کٹا ئی سر پھٹّو ل میرا معمول تھا زمانے کے مشہور چوروں رسہ گیروں اور بد معاشوں سے یارانہ تھا قبضہ گروپوں کا تو میں خود سر غنہ تھا اپنی ڈ انگ سے رو زانہ کسی کا سر پھاڑ نا میرا معمول تھا ۔مگر بیوی سکینہ بہت صالح عورت تھی نماز محبت سے پڑ ھتی اسلامی شعائر کی پابندی کرتی ۔بڑی نیک دل اور نیک سیرت تھی میں جب بھی لرائی جھگڑا کر کے آتا تھا تو کہتی
”،شکر دین بدمعاشی اور بد کاری والی زندگی بھی کو ئی زندگی ہو تی ہے تیرا مالک تیرا خالق تیرے لوٹ آنے کا منتظر ہے وہ اس آس میں ہے کہ شکر دین نہ جانے پاکیزگی والی اللہ کی محبت والی زندگی کی طرف واپس آئے گا تولو ٹ آئے گا تو وہ عرش پر چراغاں کرے گا حالانکہ دنیا کے سبھی لو گ فاسق و فاجر ہو جائیں تو بھی اس کی ربوبیت اور قدرتوں میں کیا کمی ہو گی ”
ایک روز قبضہ گروپ کے ساتھ جھگڑا ہوا ۔زور دار فائرنگ ہو ئی زمین تو میںنے واگذار کر والی مگر فائرنگ میں ایک گو لی میری ران کو چیر کر گذر گئی
یہ کہہ کر شکر دین نے اپنا تہمد سرکایا تو اس کے پٹ پر اب بھی گھائوکا نشان ا ور گڑھا صاف نظر آرہا تھا
”۔پھر کیا ہوا ؟ میں نے شکر دین سے پو چھا
اس نے خلا ئوں میں گھورتے ہو ئے کہا
”، اس رات سکینہ نے ترلا کیا نہ منت کی بس تن کے میرے سامنے کھڑی ہو گئی کہنے لگی اس لمحہ کے بعد اپنی آوارہ گروپوں کی مسد ود جانیئے گا میری آس ختم ہو نے کو ہے اُڈیک مُک گئی ۔
پھر آپ نے سکینہ سے کیا کہا ؟
”، بس میں نے سوچا اگر سکینہ کو اب مار پیٹ کروں تو یہ میرا Failure ہو گا میں نے سچے دل سے سکینہ سے معافی مانگ لی اور اپنے رب سے بھی آپ تو جانتے ہیں میرا مالک بڑ ا سخی ہے میرے ندامت بھرے ایک ہی آنسو سے اس نے میری سالہا سال کی گندگی کو اپنی رحمت کے پاکیزہ پانی سے دھو دیا مجھے ایسے لگا کہ میں پھو لوں کی طرح ہلکا پھلکا اور خو شبودار ہو گیا شکر دین میرا نام تو تھا ہی مگر اس رات میںنے دل سے شکر ادا کیا اگر سکینہ کی آس ٹوٹ جاتی اس کی اُڈیک مُک جاتی تو نا جانے کیا ہو تا مگر سکینہ سکون کا مرکز بن گئی ”
پچھتاوا شکر دین کے چہرے پر تحریر تھا اور آنکھوں میں ندامت بھرے آنسو جو اس کے چہرے کی جھریوں کو تر کر رہے تھے یہی شکر دین جو مخالفوں کے لئے ایک وحشت ناک عفریت تھا آج بات کرتے ہو ئے ہانپنے لگتا
میں نے پو چھا شکر دین رو تے کیوں ہو ؟”
تو وہ بو لا ”، سکینہ کے دل میں اپنے مالک اپنے محبوب حقیقی کی بڑی محبت تھی میں اپنی رفیق ِحیات کو پہچان ہی نا سکا بڑی بے قدری ہو گئی اس کی آس کی چادر نا جانے کتنی بار نا جانے کہاں کہاں سے پھٹی ہو گی پھر سلی ہو گی سکینہ تو پیوند و پیوند ہو گئی ہو گی”
یہ کہہ کر چاچے نے لاٹھی کا سہارا لیا اورلرزتے قدموں سے میرے کمرے سے باہر نکل گیا میں سوچ رہا تھا وہ جو اس پورے علاقے میں دہشت کی علامت تھا آج میرے ہسپتال کی دو سیڑھیاں اُترنے سے قاصر تھا وہ صبح کا بھولا تھا جو شام کو اپنی سکینہ کے پاس جا رہا تھا چاچے کو اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ اصلی سفر وہ نہیں تھا جو اس نے گذشتہ سو سال میں کیا اصل سفر تو اب شروع ہو نے والا تھا جس کا کو ئی اختتام ہی نہیںیہاں مرنے کی پابندی ہے تو وہاں جینے کی پابندی ہو گی اصل آس تو اسی سفر کے بارے ہے ہمارے بابا جی فرمایا کرتے
”، انسان سماج بناتا ہے انسان سماج شکن ہے انسان رحمان کا مظہر ہے عمو ماََ انسان شیطان کا پیرو کار بنتا ہے انسان کی خاطر اللہ نے شیطان کو دور کر دیا شیطان کی خاطر انسان اللہ سے دور ہو گیاانسان اپنی دنیا میں نا کچھ کھو تا ہے ناکچھ پا تا ہے وہ صرف آتا ہے جاتا ہے ”
مندرجہ بالا ارشاد حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ کا ہے میری خو ش نصیبی کہ جن دنوںآپ لاہو ر میں گلشن واری میں مقیم تھے ان کی زیارت کی توفیق ملی ۔ آپ بھی ہمیشہ احباب کو آس ہی دلایا کرتے تھے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اپنے مالک سے محبت کرنے والا ہر انسان دنیا میں صرف آتا ہے اور جاتا ہے بس اپنے ساتھ اللہ جل شانہ سے رحمت کی کرم کی فضل کی امید اور آس لے کے جاتا ہے اک بار احباب میںسے کسی نے عرض کیا
”،حضرت دل میں اپنے خالق کی محبت بھی بہت ہے اس چاہت سے یاد بھی کرتا پہو ں مگر خوف زدہ رہتا ہوں کہ اللہ مجھے جہنم میں نہ پھینک دے؟”
حضرت مسکرائے اور فرمایا
”،ڈرتے کیوں ہو ۔آس کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا وہ مہر بان مالک ہے جب تمھارے سینے میں اس کی محبت کے سمندر مو جزن ہیں تو پھر یقین رکھنا انشاللہ اللہ سخی مالک ہے کبھی تمھیں جہنم میں نہیں پھینکے گا اسے کیا تمھیں دوزخ میں پھینک کر اپنی دوزخ کو ٹھنڈا کرنا ہے ؟”
آس کب پیدا ہو گی جب اللہ کی محبت دل میں جگہ بنا ئے گی ایسا تب ہو گا جب دل میں ختم المرسلین ۖکی محبت اور اطاعت آئے گی جس طرح سرکارِ دو عالم ۖ رحمتہ العالمین ہیں اسی طرح حق تعالیٰ شانہ پو ری کی پو ری انسانیت کے لئے رحمت ہیں اللہ بھی رحمتہ العالمیں ہے کرم کرنے والا وہ تو ملحدین کو بھی لاکھوں نعمتیں عطا کرتا جا رہاہے اس سے زیادہ کریم مالک کو ن ہو گا وہ تو کسی بھی انسان کو بے آس رہنے د یتا ہی نہیں اگر دُکھوںاور تکالیف سے گھبرا کر آس کھو بیٹھتا ہے ۔
یا اس کی اُڈیک مک جاتی ہے تو یہ اس کی اپنی بد نصیبی ہے کہ وہ اتنے عظیم سخی مالک سے خالق سے کچھ پا نہ سکا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں