99

نیا سال اور سالگرہ مبارک

ہر سال جب ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں اسی دن سب لوگ راجا عتیق انور کو سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہیں ۔جی میں بات کر رہی پاکستان کے نامور کالم نگار عتیق انور راجا کی جو کہ نہ صرف الفاظ بلکہ محبت بانٹتے ہیں۔راجا عتیق انور ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اردو ادب نویسی میں نہ صرف خود نام کمایا بلکہ بہت سے ایسے لوگوں کو بھی سامنے لائے جن کا نام آج معروف شعرا میں ہو رہا ہے۔راجا عتیق انور نے اپنی سالگرہ کے موقع پر بہت سے شعرا کو مدعو کیا اور سالگرہ کے ساتھ ساتھ نیا سال منانے کا بھی موقع دیا۔مشاعرہ یکم جنوری 2023بروز اتوار منعقد ہوا۔ملازمت سے وابستہ لوگوں کیلئے کہا جاتا ہے کہ اتوار کا دن مطلب آرام کا دن لیکن مجھے لگتا ہے کہ اتوار کے دن معمول سے زیادہ کام ہوتے ہیں اور اگر بات مشاعرے کی ہو تو ادب سے لگا رکھنے والے کے سارے کام ایک طرف اور مشاعرہ ایک طرفکیونکہ میرا ماننا ہے کہ اگر لکھاری لکھنے لگ جائے تو وہ الفاظ ہی نہیں بلکہ جذبات اور درد کے ایسے
ڈھیر لکھ دیتا ہے جو نہ تو کسی کو دکھا سکتا ہے اور نہ ہی بتا سکتا ہے ۔ایسی ہی مسکراہٹوں سے بھرپور بزم عتیق راجا انور کی سالگرہ پر سجائی گئی ۔اتوار کو بنا کام نمٹائے مشاعرے کیلئے روانہ ہوئی ۔سردی اور دھند سے لپٹی ہوئی دوپہر تھی لیکن یہ سردی کا موسم شاعری کو مزید رومانوی بنا دیتا ہے۔۔مشاعرے کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا ۔ آ رٹس کونسل ہال اللہ تعالی کی حمد و ثنا کا سرور چھا گیا۔راحت قمر نے نقابت کیلئے بہت اعلی الفاظ کا انتخاب کیا۔ نعتیہ کلام نے فضا کو معطر کر دیا۔اس کے بعد شاعری کا باقاعدہ آغاز اس شعر سے ہوا
آ ئوجشن کا اہتمام کریں
آج کی شاعری راجا عتیق انور کے نام کریں
راجا عتیق انور کی خدمات کو سراہتے ہوئے سب
شعرا نے اپنا کلام پیش کیا اور آپ کو بہت سی دعائیں دی۔مشاعرے رونق کو مزید بڑھانے کیلئے معزز دوستوں راجا عتیق انور کے سر پر سفید پگڑی باندھی جس نے ان کے حسن اور وقار میں مزید اضافہ کر دیا ۔ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ سفید پگڑی نہیں بلکہ ادب نگاری کا تاج ہو۔سردی سے ٹھٹھرتی شام میں شعرا نے اپنے کلام سے پر کشش ماحول بنا رکھا تھا ۔اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی میں اپنی مثال آپ رکھنے والے نامور شاعر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شبیر بٹ کی آمد نے مشاعرے میں چار چاند لگا دئیے ۔ہر قسم کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد مشاعرے میں شرکت کی ۔عمران عباس چدھڑ صاحب کے ان الفاظ سے مشاعرہ تالیوں سے گونج اٹھا “جب تک انسان زندہ ہے اسے زندہ رہنا چاہئے”پروفیسر نائیلہ بٹ اور دیگر شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد نے اردو ادب کے فروغ کیلئے اظہار خیال پیش کیا۔سب زیادہ حیرانی اس بات سے ہوئی راجا عتیق انور خود سٹیج کی زینت بنے ہوئے بھی اپنے عزیزوں کو خوش آمدید اور محبت فاتح عالم کہنا نہیں بھولے۔آخر میں یہ کہنا بجا نہ ہو گا راجا عتیق انور نے صرف نام کے نہیں بلکہ کام کے بھی راجا ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں