106

طلاق مرد عورت کی نہیں دو خاندانوں کی ہوتی ہے

لفظ طلاق ایک معمولی سا لفظ ہے طلاق لفظ کو کھیل سمجھاجاتا ہے اور ہمارے پاکستانی ڈرامے اسے خوب پرموٹ کررہے ہیں اور اس بات کو نہیں سوچا کہ ہم کس مغربی کلچرل کو فروغ دے رہے ہیں ہمارے معاشرے میں طلاق مرد دیتا ہے مگر اس کے باوجود اس کے لیے غیر شادی شدہ اور کم عمر لڑکیوں کی ایک لائن لگی ہوتی ہے مگر بے قصور طلاق یافتہ عورت پہ زندگی تنگ کر دی جاتی ہے قصور چاہے اس عورت کا بے شک کچھ بھی نہ ہو مگر عجیب و غریب قسم کے القابات سے نوازا جاتا ہے افسوس اگر اس عورت کی دوبارہ شادی ہو بھی جائے تو چاہے مرد اس سے دس سے بیس سال تک بڑا ہو، اور اسکی پہلی بیوی سے تین چار بچے ہی کیونہ نہہوں اور وہ مرد ان بچوں کاباپ کیوں نا ہو ہمیشہ غلط عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے یہ عورت صرف اپنی عزت اور دو وقت کی روٹی کے لیے صبر کر لیتی ہے، بوڑھے مرد کے ساتھ گزارہ کر لیتی ہے، اس کے بچے بھی سنبھال لیتی ہے مگر انجانے میں کوئی چھوٹی سی بھی خطا ہو جائے تو ہر بار ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ تم اگر اتنی ہی شریف نیک ہوتی تو پہلا خاوند تمہیں طلاق کیوں دیتا حالانکہ یہ جملہ “انسان خطا کا پتلا ہے”سب بولتے ہیں مگر یہ کام صرف مرد کے آتا ہے ۔ہمارے جاننے والوں میں کئی ایسی عورتیں ہیں جو نیک پارسا ہو پھر بھی طلاق کے بھنور میں پھنس جاتی ہے ۔ خاوند نے ان کو طلاق دے دی مگر کئی ایسی خواتین ہیں جو اپنی جوانی اپنے بچوں پر قربان کیدوبارہ شادی نہیں کرتیں بچے جوان ہوجاتے ہیں سر پر سفید رنگ کی چاندی کی طرح سفید بال آ جاتے ہیں بچوں کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑتیں مگر وہ بچے ہمیشہ اپنے باپ کی شفقت سے محروم رہتے ہیں مجھے ایسی عورتوں کو دیکھ کر دلی دکھ ہوتا ہے میری ایک قریبی بہت ہی قریبی رشتہ دار ہے جس کی شرافت اور پاکدامنی کی میں قسم کھانے کو تیار ہوں وہ نیک اور پارسا خاتون کو طلاق کا ایک لیبل لگا کر اسے بے قصور چھوڑ دیا گیا اور اس وقت جب اسکے پیٹ میں نومولود بچے تھا جو اس دنیا میں
ابھی نہیں آیا تھا اپنے سسرال کے سامنے روتی گڑگڑاتی رہی مگر اس کے آنسووں اور اس کے باندھے ہوئے ہاتھوں کی طرف نا دیکھا گیا آخر اس بچے کا کیا گناہ تھا جو پیدا ہونے سے لیکر آج تک اپنے باپ کی شکل دیکھنے سے محروم رہا۔طلاق اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نا پسندیدہ عمل ہے جب ایک مرد اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو عرش اور فرش کانپ اٹھتے ہیں ہم اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایک بیوہ سے شادی کی تھی اگر ہم کسی عورت کا درد سمجھ نہیں سکتے تو اسے طعنہ دینے کا حق بھی نہیں میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں سے گزارش کرتی ہوں کہ کسی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پوری کرتے ہوئے نکاح کریں تو اس کو کبھی اس بات کا طعنہ مت دیں کیونکہ الفاظ باہری
زخم تو نہیں دیتے مگر جگر چیرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ٹوٹا ہوا شیشہ جیسے کبھی نہیں جڑ سکتا ایسے ہی ہمارے منہ سے نکلے جلے کسی کا جگر بھی چیر سکتے ہیں شاید وہ گھا کبھی نا بھر سکیں۔ہمیں اس معاشرے میں رہ کر اپنی سوچ کا بدلنا ہوگا عورت کو عزت دینا ہوگی مرد گھر کو چلانے کے لئے دن رات محنت مزدوری کرتا ہے اور ایک گھر کو سنوارنے اور بنانے میں جو اہم کردار عورت کا ہے اسے بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا عورت ایک ماں بھی ہے،بہن بھی ہے،بیٹی بھی ،بیوی بھی ہے گھر کے نظام چلانے میں عورت کھانا بنانے سے لیکر صفائی ستھرائی گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کی خانہ داری کے علاوہ تنکا تنکا جوڑ کر وہ اپنی کٹیا کو محل بناتی ہے خاوند کی خدمت، بچوں کی نگہداشت اور ان کی پرورش اچھے طریقے سے کرتی ہے اب تو دنیا کے علاہ پاکستان میں بھی 20فیصد خواتین جاب کرکے اپنے خاوند کا سہارا بن رہی ہیں کہیں مہنگائی کی وجہ تو کہیں عورت کہتی ہے گھر بیٹھ کر بور ہوجاتی ہو تو کہیں سسرال سے توں تکرار سے بچنے کیلئے مگر پھر بھی عورت کو کسی نہ کسی جانے طلاق کا سامنا ہوجاتا ہے آج بھی کئی خاندانوں میں طلاق کو گالی سمجھا جاتا ہے طلاق وہ بدنما داغ ہے جو کسی شریف عورت کے ماتھے پر لگ جائے تو ایک بد نما داغ بن کر رہ جاتا ہے۔ میں مرد کی اہمیت اور رتبہ کو ہرگز نہیں جھٹلا رہی بلکہ آپ سب کے سامنے ایک حقیقت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہوں میرا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے اگر کسی کی بھی میری اس تحریر سے آزاری ہوئی ہو تو میں تہہ دل سے معذرت چاہتی ہوں ہمیں مل کراپنی سوچ کو بدلنا ہوگا جب ہم اپنی سوچ کو بدلیں گے تو معاشرہ ترقی کریگا ہم ترقی کریں گے پاکستان ترقی کریگا۔ کیونکہ طلاق صرف مرد یا عورت کی نہیں دو خاندانوں کی ہوتی ہے ہمیں ایسی سوچ کو تشکیل دینا ہوگا جس سے اس ناسور کا ختم کیا جائے تاکہ سب کے چہروں پر مسکان سجی رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں