65

پیپلز،پارٹی اور بالٹی

عظیم سیاستدان،مدبر اور دوراندیش قائد ذوالفقارعلی بھٹو کا دورِ حکومت تاریخ کے اوراق پر آج بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے،تاریخ کے اوراق اور اس دور کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ملک و قوم کے خیر خواہ،عوام دوست رہنما اور اچھے پالیسی میکر تھے۔ذوالفقارعلی بھٹو کی قائدانہ خصوصیات اور صلاحیتوں کو دنیائے سیاست میں اعلی درجہ پر دیکھاجاتا بے۔بھٹو صاحب کے بعد یہ خصوصیات بینظیر بھٹو میں نظر آتی تھیں،بے نظیر بھٹو کو سیاسی بصیرت و سیرت کے حوالے سے کئی حوالوں سے ذوالفقار بھٹو کا پرتو کہا جاسکتاہے۔شہید بے نظیر بھٹو کو عالمی سطح پر آئرن لیڈی،مشرق کی شہزادی،دخترِ اسلام اور مشرق کی بیٹی کہا جاتا ہے۔بی بی محترمہ ایک مدبر،ٹھنڈے مگر تیز مغز کی حامل لیڈر تھیں۔بی بی شہید اپنے باپ،رہنما اور استاد کی سیاسی اور فکری صلاحیتوں کی بلا مبالغہ امین تھیں۔بے نظیر بھٹر کو شہید ذوالفقار بھٹو نے 21 جون 1978 میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل سے ایک خط میں لکھا تھا کہ بیٹی تم پختہ فولاد کی بنی ہوئی ہو تمہاری فکر اور عزائم متزلزل ہونے والے نہیں ہیں۔ تمہاری ذہانت و صلاحیت تمہیں ایک اعلی ترین مقام پر پہنچائے گی۔بی بی بے نظیر کی قائدانہ صلاحیتوں کو ذوالفقار علی بھٹو پِدری محبت میں نہیں بلکہ ایک دانشور کی آنکھ سے بھانپ کر یہ الفاظ کہے تھے۔جب تک محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ رہیں،بھٹو صاحب کے تراشے ہوئے “پیپلز “کندھے سے کندھا ملائے بی بی کے ساتھ گامزن رہے۔اس وقت تک پارٹی بھی رہی نظریہ اور وِژن بھی زندہ رہا۔مگر جب بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر2007 کی شام راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔تو بہت کچھ ٹوٹ کر بِکھر گیا،پیپلز پارٹی کے جیالے تو کیا، مخالفین کو بھی غمزدہ دیکھا گیا۔کئی خواتین جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا انہیں دھاڑیں مار کر روتے کرلاتے اور مصلوں پر دعائیں کرتے دیکھا گیا کہ اے اللہ تو ہر شے پر قادر ہے،بے نظیر کو دوبارہ زندگی دے دے۔مرد جن کی آنکھوں میں آنسو بڑی مشکل سے آتے ہیں،انہیں اس رات سڑکوں پر جوان بیٹوں کے لاشوں پر بین کرتی ہوئی عورتوں کی طرح چہروں اور رانوں کو پیٹتے دھاڑیں مارتے دیکھا گیا۔ہرطرف کہرام بپا تھا۔یہ کیسا رشتہ تھا،کیسی محبت اور کیسا جنون تھا۔یہ ایک ایسی روحانی کشش کی غیر مرئی تار تھی جو راولپنڈی مقتل گاہ سے نگر نگر تک جیالوں کے دِلوں
میں دردِ مفارقت کو ابھار رہی تھی۔بے نظیر بھٹو کے دنیائے فانی سے کوچ کرجانے کے بعد پارٹی کارکنان کا “بھٹو اِزم” سے جڑا ہوا جذبات کا خونی سا جذباتی رشتہ بھی دم توڑ گیا۔کارکنان کی ایک خاص تراشیدہ و کشیدہ کھیپ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد گمنامی کی قبر میں چلی گئی۔ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں اور جرات وبہادری کے قِصے کہانیاں اور نشانیاں بھی معدوم سی ہوکے رہ گئیں۔بھٹو اِزم،عزم و استقلال اور استحکام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو پارٹی کی ناتجربہ کار اور کارکنان سے ہمدردی کے جذبہ سے خالی قیادت کی سیاسی بربریت کی کڑی دھوپ میں سوکھ گیا،لوگ مایوسی کی دلدل میں اتر گئے۔ایک طرح سے بے نظیر بھٹو کے ساتھ اصلی اور پہلے والی پیپلز پارٹی بھی دفن ہوگئی۔اب”پیپلز”تو ہیں مگر پہلے والی پارٹی نہیں ہے۔کہنے سننے کو اب پارٹی بھی ہے لیکن بھٹو اور بے نظیر کے نظریہ اور وژن والے وہ”پیپلز”نہیں ہیں،اور نہ ہی اس نطریہ اور وژن کو آگے منتقل کیاگیا ہے۔اب تو موجودہ پیپلزپارٹی کسی چِھینے ہوئے متنازعہ”پلاٹ”کی سی حیثیت رکھتی ہے۔موجودہ پیپلز پارٹی میں سیاست تو ہے مدبر قیادت نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اب اخباروں کی سرخیوں،چینلز کے ٹِکرز اور سٹِکرز تک رہ گئی ہے۔پیپلز پارٹی کے اصلی جیالے دنیا
سے کوچ کرگئے اور کچھ مایوس ہوکر کونے کھدروں میں بیٹھے”نظریے کو تار تار ہوتے” دیکھ رہے ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ گلی گلی نگر نگر تھڑوں اور برف کے پھٹوں پر بھٹو کے نظریہ کی مدبرانہ باتیں ،تقریریں اور تدبیریں سنی سنائی جاتی تھیں ۔ کارکنان کے جذبات کو تر وتازہ رکھا جاتا تھا۔ اب اس سیاسی تبلیغ کا سلسلہ جیسے دفن سا ہوکے رہ گیا ہے۔یوں”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا”والے نعرہ کا مفہوم الٹ ہوگیا ہے۔اب واقعی ہر گھر سے بھٹو”نِکل”گیا ہے۔ہر گھر بھٹو سے خالی ہوگیا ہے۔پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو چاہئیے کہ پارٹی کے نگینوں،دفینوں کو کسی کرامت و معجزہ سے ایک بار پھر سامنے لے کر آئیں یا پھر اپنے اندر کی کمیاں کوتاہیاں اور خامیاں تلاش کرکے اپنی اصلاح کی پگڈنڈی پر گامزن ہونے کی سعی کریں۔تاکہ منہدم و برباد پارٹی کے آثارِ قدیمہ سے کوئی دفینے،نگینے مل سکیں،جنہیں تراشنے کے ازسرِنو کارِ گراں کے بعد شاید قابلِ عمل بنایا جا سکے۔پیلپز پارٹی جو کبھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تھی،پولنگ اسٹیشنز سے جس کے ووٹ ہزاروں،لاکھوں کی تعداد میں نکلتے تھے۔اب اکیلا پولنگ ایجنٹ پولنگ بوتھ پر” بو تھا”بنائے شام تک جمائیاں لیتا تھک ہار جاتا ہے،بلکہ الیکشن ہی ہار جاتا ہے۔اب کی پیپلز پارٹی بھٹو کی ہے نہ بے نظیر کی اس لئے پارٹی کے وجود سے نظریہ کی ایک روح تھی جو نکل چکی ہے۔اب پارٹی ہے تو وہ”پیپلز”نہیں،غیر نظریاتی سے”پیپلز”ہیں تو وہ “پارٹی”نہیں رہی،سمندر سی پارٹی اب وہ”بالٹی”بن گئی ہے۔جو صبح سے شام تک بھی ووٹوں سے نہیں بھرتی۔پیپلز پارٹی کی قیادت کو بی بی شہید بے نظیر کی”بے نظیریت”سے سبق سیکھ کر،منافقت،کرپشن اور جھوٹ کے چمکتے موتیوں سے پاک بے نظیری کا اصل تاج اپنے سر پر سجاناہوگا۔تاکہ پیپلز پارٹی کا وجود سندھ کی حدود سے نکل کر ماضی کی طرح بحرِ بے کراں بن کر پورے ملک کے اندر موجزن دکھائی دے سکے۔بالٹی تک محدود ہوچکی پارٹی کو ایک بار پھر بحرِ بے کراں بنانے کے لئے بڑی کٹھن راہوں سے گزر کر پارٹی کے گردآلود تختِ اقتدار تک پہنچنا ممکن ہوسکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں