68

2023ئ… کیا پسی عوام کو ریلیف مل سکے گا۔؟

سال 2022 تلخ اور شیریں یادیں لے کر رخصت اور 2023 کا نئی امیدیں لے کر طلوع ہوچکا، پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں مہنگائی اور بے روزگاری کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، سیاستدانوں کی کرس اقتدار کے لیے آپس میں رشہ کشی، ریشہ دوانیوں نے ملک کی معیشت کے ساتھ جو بدترین کھلواڑ کیا وہ ملک اوراس پر بسنے والوں کے ساتھ صدی کا بے ہودہ ترین مذاق اور ہندوناک سلوک تصور کیا جائے گا۔ کورونا تو ختم ہوگیا مگر سال گزشتہ غم و الم قتل وغارت گری سمیت لازوال قلم کے مزدوروں سمیت علم وفن،ادب، فن و گائیکی کے ستاروں کو اپنے ساتھ لے کر رخصت ہوگیا، کھانے پینے کی اشیا عوام کی قوت خرید سے اور بھی زیادہ دور ہوگئیں، اجناس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا، دال روٹی بھی غریب عوام کی دسترس باہر ہو گئی، دالیں، چاول، آٹا اور مصالحہ جات کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں، غرض کی ہر شعبہ میں پچھلے سال کی نسبت حالات درگوں رہے ماسوائے ملک وقوم کی تقدیر سنوارنے والوںکے جنہوں نے جی بھر کے لوٹ مار کی اور شیر مادر سمجھ کر عیاشیاں کرنے کو اپنا عین حق سمجھا، عوام کا خون چوسنے والی بیوروکریسی کے اللے تللے بھی بام عروج پر رہے۔گردش ایام میں بالآخر 2022 اس حال میں رخصت ہوا ہے کہ گھمبیر اور لامحدود مسائل کا ایک انبار بطور میراث نئے برس کے سپرد کر گیا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکہ کی افغانستان کے خلاف بیس برس تک جاری رہنے والی جارحیت کے تحفہ کے طور پر پاکستان پر مسلط ہونے والی دہشت گردی کے سبب پاکستان کو کھربوں روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا جب کہ ہزاروں جانوں کی قربانی اس کے علاوہ تھی امریکہ کے اگست 2021 کو شکست فاش کا داغ پیشانی پر سجائے بے نیل مرام افغانستان سے نکلنے کے بعد بڑی مشکلات آزمائشوں اور قربانیوں کے ذریعے دہشت گردی کے اس جن کو بوتل میں بند کیا گیا تھا مگر افسوس کہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر اس جن کو آزاد کرانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے چنانچہ گزشتہ چند ہفتوں میں دہشت گردوں کے حملوں یا ان کے خلاف وطن کے محافظوں کی کارروائیوں میں بہت زیادہ تیزی آ گئی ہے جن میں مسلح افواج کے جوان اور عام شہری اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں تاہم دہشت گردوں کی کارروائیوں میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چنانچہ آنے والے برس میں دہشت گردی کا جن ایک بار پھر ملک و قوم کے لیے ایک خطرناک چیلنج کی شکل اختیار کرتا محسوس ہو رہا ہے!وطن عزیز کو پچھلا پورا سال شدید نوعیت کے سیاسی بحران کا سامنا رہا جس کی ذمہ داری موجودہ و سابقہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے سوا کسی اور پر عائد نہیں کی جا سکتی،
اس صورت حال کے سبب ملک کو زبردست عدم استحکام کا سامنا ہے حتی کہ قومی سلامتی بھی دائو پر لگتی محسوس ہو رہی ہے مگر تشویش ناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مقتدر سیاست دانوں میں سے اصلاح احوال کی فکر کسی کو بھی نہیں ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کی الزام تراشیوں اور مقابلہ بازی میں قوم کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے، عام آدمی اس صورت حال کے باعث ذہنی اذیت سے دو چار ہے، حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ ہمارے عوامی نمائندگی کے دعوے دار تمام سیاست دان سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کریں، اس ضمن میں سب سے زیادہ ذمہ داری حکمران طبقہ یعنی حکومتی اتحاد پر عائد ہوتی ہے جس کی حکومت نے عوام کے چودہ طبق روشن کر دیئے ہیں مگر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ملکی مسائل کے حل کے ضمن میں اس طبقہ کو اپنی ذمہ داریوں کا یا تو قطعی ادراک نہیں یا وہ جانتے بوجھتے اس سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ گزشتہ نو ماہ کے دوران انہوں نے صرف ایک کام نہایت مستعدی سے کیا ہے کہ حکمران اتحاد میں آج شیر و شکر دکھائی دینے والی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے گزشتہ ادوار اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف بدعنوانیوں کے جو مقدمات قائم کئے تھے اور جن کی سماعت برسوں جاری رہنے کے باوجود فیصلے سامنے نہیں آئے، اب وہ دنوں میں نمٹائے جا رہے ہیں، وزیروں، مشیروں، ان کے اعزہ? و اقارب اور سرپرستوں کو عدالتوں سے بریت کے پروانے دھڑا دھڑ جاری ہو رہے ہیں ماضی میں عدالتوں سے مفرور قرار پانے والے جن لوگوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کے احکام جاری ہوئے تھے، ان کو بے گناہ قرار دے کر ان کی قیمتی جائیدادیں واگزار کی جا رہی ہیں، ملک و قوم اور عوام کے مفاد میں کسی قانون سازی میں ناکام رہنے والی مجلس شوری نے بدعنوانی کے خاتمہ اور بدعنوان عناصر کے احتساب کے لیے بنائے گئے قومی احتساب بیورو کے پر کاٹنے اور اسے بے اختیار کرنے کے قوانین کی کسی بحث اور تاخیر کے بغیر منظوری دینے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔روز افزوں دہشت گردی، سیاسی بحران اور عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معاشرہ اس وقت ناقابل بیان اخلاقی انحطاط سے بھی دو چار ہے، دین سے دوری نے لوگوں کو اخلاقی اقدار اور معاشرتی روایات سے بے گانہ کر دیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے گھنائونا کردار ذرائع ابلاغ خصوصا برقی ذرائع ابلاغ ادا کر رہے ہیں جن کو د یکھ
کر کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ان کا تعلق کسی اسلامی مملکت یا مسلم معاشرے سے ہے، سماجی ذرائع ابلاغ جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں، یہ سب مل جل کر معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں، بے حیائی اور بے راہروی کو ہر ممکن طریقے سے فروغ دیا جا رہا ہے،کثیر الاقوامی کاروباری اداروں کے اشتہارات، اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں ان کی نقالی میں مقامی اور قومی کاروباری ادارے بھی ملک کے نظریہ، دین و اخلاق اور ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں یکسر فراموش کر چکے ہیں، فحاشی اور بے ہودگی اس زور شور اور جوش و خروش سے پھیلائی جا رہی ہے کہ خدا کی پناہ ان برائیوں کی روک تھام جن اداروں کی ذمہ داری ہے، وہ اپنے فرائض کی ادائیگی سے قطعی لا تعلق ہو چکے ہیں، کسی مقتدر ادارے یا با اثر شخصیت سے متعلق کسی ورقی، برقی یا سماجی ذریعہ ابلاغ پر کوئی بے احتیاطی سامنے آئے تو پیمرا اور دیگر متعلقہ ادارے فورا متحرک ہو جاتے ہیں، عدالتوں کا رویہ بھی فورا سخت ہو جاتا ہے مگر دینی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار و روایات کی پامالی پر کوئی ادارہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے اور ضروری کارروائی کرنے پر تیار نہیں ہوتا!!!معاشرے کے اس طرز عمل، حکمرانوں کے رویوں، ملک و قوم کو درپیش سیاسی و سماجی بحرانوں اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا شدید منفی اثر ملکی معیشت پر بھی مرتب ہوا ہے ایک جانب مہنگائی نے عام آدمی کے کس بل نکال دیئے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، صحت، رہائش اور پوشاک تو بعد کی بات ہے لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا دشوار ہو چکا ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں تو ان کی عدم دستیابی الگ سے پریشان کن ہے۔ دوسری جانب ملکی خزانے کی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ تمام ماہرین اقتصادیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ کسی بھی وقت خدانخواستہ دیوالیہ کی خبر آ سکتی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور تاریخ میں پہلی بار مرکزی ریاستی بنک کے پاس یہ ذخائر تشویش ناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ بنک کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 23 دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں زرمبادلہ کے ذخائر 29 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی کمی سے چھ ارب ڈالر سے بھی کم ہو کر صرف پانچ ارب 82 کروڑ انیس لاکھ ڈالر کی خطرناک سطح پر پہنچ گئے ہیں اس کے باوجود حکومتی وزرا کا اصرار ہے کہ نادہندہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں اور نادہندگی کی باتیں کرنے والے ملک کے دشمن ہیں۔ اللہ کرے ماہرین کے خدشات غلط ثابت ہوں اور وزرا کا فرمایا ہوا مستند ثابت ہو تاہم اس کے باوجود ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی زعما اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور پانی سر سے گزر جانے سے پہلے پہلے درپیش بحرانوں سے ملک کو نکالنے کے لیے متفقہ اور قابل عمل حکمت عملی تیار کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں