103

ورلڈ پنجابی کانگریس کے زیر اہتمام وارث شاہ انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس کا کامیاب انعقاد

ورلڈ پنجابی کانگریس کے زیر اہتمام 32 ویں وارث شاہ انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس برائے امن و ادب کا انعقاد ہیریٹیج ہوٹل لاہور میں کیا گیا۔ یہ کانفرنس 27 سے 29 دسمبر تک جاری رہی جب کہ چوتھے روز شرکا کو ننکانہ صاحب کا دورہ کروایا گیا۔ یہ کانفرنس پنجابی ادب کے مہان لکھاری فخر زمان چیئرمین ورلڈ پنجابی کانگریس کی جانب سے کروائی گئی جو پچھلے بتیس سالوں سے مسلسل اس کا انعقاد کر رہے ہیں۔ یاد رہے چیئرمین ورلڈ پنجابی کانگریس فخر زمان سابقہ وزیر، سینیٹراور چیئرمین پاکستان کادمی ادبیات بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پنجابی کے عبقری شاعر، ادیب، ناول نگار اور دانشور ہیں۔ پنجابی اور اردو کی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ 27 دسمبر 2022 کو کانفرنس کا پہلا دن تھا۔ پہلے دن عمران مسعود وائس چانسلر یونیورسٹی آف سائوتھ ایشیا اور ڈاکٹر نظام الدین پروریکٹر سپیرئیر یونیورسٹی چیف گیسٹ تھے۔
عمران مسعود نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ ایسی ہی کانفرنس یونیورسٹی آف سائوتھ ایشیا میں بھی کروانے کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے چیئرمین ورلڈ پنجابی کانگریس فخر زمان کو باقاعدگی سے یہ کانفرنس کروانے پر سراہا اور مبارکباد دی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ پنجابی بولتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صوبائی وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں اور پنجابی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فخر زمان نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ لاہور میں پنجابی یونیورسٹی ہونی چاہیے۔ یہ تجویز انہیں بہت اچھی لگی ہے اور اس بارے چیف منسٹر پنجاب سے ضرور بات کریں گے۔ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے کہ لاہور میں پنجابی یونیورسٹی ضرور قائم ہو۔ اس سے بڑھ کر پنجاب کی اور کوئی خدمت نہیں ہو سکتی۔
ڈاکٹر نظام الدین جو کہ اپنی ذاتی یونیورسٹی لاہور میں بنا چکے ہیں، انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی خوبصورت زبان ہے۔ اُن کی یونیورسٹی کی عمارت زیر تعمیر ہے۔ وہ وائس چانسلر سپیرئیر یونیورسٹی لاہور کو کہیں گے کہ یونیورسٹی میں گریجوایشن اور ڈاکٹریٹ لیول تک پنجابی کی تعلیم شروع کی جائے تاکہ پنجابی زبان و ادب اور ثقافت کی بڑھوتری ہو۔
محترمہ صغریٰ صدف نے کہا کہ اُن کا ادارہ پلاک پنجابی زبان اور ثقافت کے لیے بہت کام کر رہا ہے۔ پنجابی کی بڑھوتری کے لیے اُدھر متواتر پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ سماج سیوک اور دانشور فرخ سہیل گوئندی نے کہا کہ وہ پنجابی زبان اور ثقافت کی بڑھوتری کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ وہ پچھلے کچھ برسوں سے غیرمعمولی کمٹمنٹ کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں ۔ اُنہوں نے پنجاب کی مجوزہ تقسیم کو رَد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کچھ مصلحت پسندوں کا کام ہے جو پنجاب پر حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
فخر زمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ورلڈ پنجابی کانگریس اب تک پاکستان، انڈیا، آسٹریا، اٹلی، فرانس، ڈنمارک ، ہالینڈ، سویڈن، ناروے ، امریکہ، کینیڈا اور دور دراز کے ملک اسٹونیا میں بتیس کانفرنسوں کا انعقاد کر چکی ہے۔ فخر زمان نے اعلان کیا کہ وہ اگلی کانفرنس مارچ 2022 میں کروا رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ وہ بھارتی دانشوروں کے لیے 74 ویزوں کا بندوبست کر چکے تھے لیکن بھارتی حکومت نے انہیں پاکستان آنے کی اجازت ہی نہیں دی جو انتہائی غلط اقدام ہے۔
ورلڈ پنجابی کانگریس کی طرف سے لاہور میں سہ روزہ 32 ویں وارث شاہ انٹرنیشنل کانفرنس برائے امن اور ادب کے دوسرے روز کی تقریبات نے دلوں کو موہ لیا ۔کانفرنس کے دوسرے روز سٹیج کی رونق جن شخصیات نے بڑھائی، وہ تھے فخر زمان، مسز فخر زمان ڈاکٹر فاطمہ حسن، الیاس گھمن، مدثر اقبال بٹ اور فرخ سہیل گوئندی جب کہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض پروفیسر عباس مرزا نے سرانجام دئیے۔
کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کنول فیروز نے کہا کہ قرآن شریف کا پہلا پنجابی ترجمہ بھی ہندوستان میں شائع ہوا۔ جب پرنٹنگ پریس یہاں پہنچا۔ ہماری مسیحی عبادت گاہوں میں پنجابی زبان کے اندر عبادات ہوتی ہیں۔ انجیل مقدس عبرانی زبان میں ہے مگر دنیا میں جہاں کہیں بھی پڑھی جاتی ہے وہ اسے اپنی مادری زبانوں میں پڑھتے ہیں مگر پنجاب کا المیہ یہ ہے کہ بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ہی حاصل نہیں۔
بچوں کے مقبول پنجابی رسالے پکھیرو کے چیف ایڈیٹر سہیل اشرف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچے تو پنجابی پڑھنا چاہتے ہیں مگر بچوں کو پنجابی پڑھانے والی مائوں کا فقدان ہے۔ میری خواہش ہے کہ دیہی اور شہری سکولوں میں پنجابی ڈرامے ہوں تاکہ چھپے گوہر سامنے آ سکیں۔ میرے ادارے کی جانب سے جو لوگ بچوں کا رسالہ نہیں خرید سکتے‘ انہیں مفت دیا جاتا ہے جبکہ ٹیچرز اگر چاہیں تو انہیں ہر ماہ دس پرچے مفت دئیے جاتے ہیں۔ کانفرنس میں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے ریسرچ پیپرز انگریزی زبان میں پڑھے جن میں انہوں نے ہیر رانجھا کی داستان کے حوالے سے بات کی۔ ہیر کے کرداروں کو آج کے تناظر میں بیان کیا۔ کانفرنس کی تقریبات کے دوران مختلف شاعروں اور شاعرات نے اپنا کلام بھی سنایا۔ ان میں مشتاق قمر’ ڈاکٹر تبسم’ ممتاز راشد لاہوری’ انیس احمد’ ملک ارشاد’ سید فراست بخاری’ نرگس نور’ طاہر ابدال’ ڈاکٹر سعید الفت’ پروفیسر عباس مرزا اور بابا نجمی شامل تھے۔
ثقافتی پروگرام میں توقیر صدیقی نے اپنی خوبصورت آواز میں گیت سنایا جبکہ لوک فنکاروں نے لوک گیتوں سے محفل کو گرمایا۔ ندیم اقبال باہو نے کلام باہو کو اپنی پرسوز آواز میں گا کر تو جیسے محفل کو لوٹ ہی لیا۔ شرکا اَش اَش کر اٹھے اور انہیں جی بھر کے داد دی۔ ماضی کے معروف شوخ اداکار درپن اور ملکہ جذبات نیئرسلطانہ کے بیٹے ولید نے کتھک ناچ کا مظاہرہ کیا جسے بے حد پسند کیا گیا۔ واضح رہے کہ ماضی کے نامور فلمی ہدایتکار ایس سلیمان کی بیگم مشہور رقاصہ پنا زرین ولید کی استاد ہیں۔
پروفیسر عباس مرزا نے کہا کہ پنجابی بہت بڑی زبان ہے۔ ماجھی کو مرکزی پنجابی لہجہ کہا جاتا ہے۔ ماجھی بولنے والے دنیا کی ہر زبان کو اس کے اصل لہجے میں بول سکتا ہے۔ کانفرنس میں قائد پنجابی زبان تحریک الیاس گھمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ وارث شاہ نہ صرف اپنے علاقے کی بات کرتا ہے بلکہ وہ پورے پنجاب کی بات کرتا ہے اور ایک وسیع تر تناظر میں ہر خطے کی بات کرتا ہے۔ جہاں بھی ظلم‘ استحصال اور ناانصافی ہے وارث شاہ امید کا پیامبر ہے۔ یاسیت‘ قنوطیت یا مایوسی کا مظہر نہیں۔
الیاس گھمن نے مزید کہا کہ اہل پنجاب کو ان کا حق دیا جائے۔ اب یہ معاملہ رک نہیں سکتا۔ پنجابی اپنے حقوق حاصل کر کے رہیں گے۔ ہم تقسیم پنجاب نہیں چاہتے۔ ہم پنجاب کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ ہم صرف پنجابی کی بات نہیں کرتے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ تمام زبانوں کو ان کے حقوق دئیے جائیں۔ پنجابی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پنجاب کے صرف 17ضلعوں میں 4000 پنجابی اساتزہ کی ڈیمانڈ ہے۔ فخر زمان نے جو خواب دیکھا وہ ضرور پورا ہو کے رہے گا۔ ہم خود اس کانفرنس کو کامیاب کروائیں گے۔ جب سے اس کانفرنس کا آغاز ہوا ہے‘ میں نے اس میں ضرور شرکت کی ہے۔ پنجابی کے حوالے سے جتنا کام فخر زمان نے کیا ہے‘ شاید ہی کسی اور نے کیا ہو‘ وہ جدوجہد اب مزید آگے بڑھ رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب پنجابی بچے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کریں گے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پنجابی میڈیاگروپ مدثر اقبال بٹ نے کہا کہ میں فخر زمان کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے پنجابی زبان کے لئے بہت جدوجہد کی ہے۔ ہم اسی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک ہم پنجابی کو تعلیمی’ دفتری’ صحافتی اور عدالتی زبان قرار نہیں دلوا لیتے۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ ہم پرامید لوگ ہیں۔ جدوجہد کرنا اور قربانیاں دینا جانتے ہیں۔
کانفرنس کے دوسرے روز کی تقریبات کے اختتام پر فخر زمان نے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور الیاس گھمن کی جانب سے انہیں کتب کا تحفہ پیش کیا۔ ان میں پنجابی کہانیوں کی اس کتاب کا حصہ اول بھی شامل تھا جو 1008صفحات پر مشتمل ہے جبکہ مکمل کتاب 4031 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ عمل بھی کسی تاریخ سے کم نہیں۔
32ویں سہہ روزہ وارث شاہ انٹرنیشنل کانفرنس میں شاعروں’ ادیبوں’ دانشوروں’ صحافیوں’ علمی ہستیوں’ سکالروں اور پروفیشنلز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ لاہور میں منعقدہ کانفرنس کا بنیادی مقصد وارث شاہ اور پنجابی ادب کی ترویج و ترقی اور امن کو فروغ دینا ہے۔ سہ روزہ کانفرنس 27 تا 29دسمبر جاری رہی۔ 2022 میں ہونے والی یہ کانفرنس پاک ہیریٹیج ہوٹل لاہور میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے آخری روز چیئرمین ورلڈ پنجابی کانگریس فخر زمان نے شرکا اور کانفرنس کو آرگنائز کرنے والوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ اگلی کانفرنس مارچ 2023 میں منعقد ہوگی۔ انہوں نے اس تاسف کا بھی اظہار کیا کہ رواں برس انڈین حکومت نے کانفرنس کیلئے آنے والوں کو روکا اور ویزا نہیں دیا۔ یوں انڈین وفد آنے سے قاصر رہا لیکن مجھے یقین ہے کہ 33ویں کانفرنس میں دنیا بھر سے 100سے زائد وفود شرکت کریں گے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ آئندہ ہونے والی 33ویں کانفرنس میں شرکت کے لئے آنے والے وفود کو شرکت سے نہ روکیں۔
32ویں کانفرنس کے اختتامی روز پنجابی زبان اور ثقافت کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں اور ان رضاکاروں کو میڈلز دئیے گئے جو اس کانفرنس کے انعقاد میں معاون بنے۔ اختتامی سیشن کے آخر میں پنجابی مشاعرہ بھی ہوا جس میں شاعروں نے اپنی پنجابی شاعری میں امن اور صوفی ازم کے حوالے سے اپنا کلام پیش کیا۔
کانفرنس میں فخر زمان کی زیر قیادت تشکیل دی گئی ڈیکلریشن کمیٹی کی طرف سے لاہور ڈیکلریشن پیش کیا گیا۔ اعلان نامہ لاہور قائد تحریک پنجابی الیاس گھمن نے پیش کیا۔ جن شخصیات نے پنجابی زبان اور ثقافت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور انہیں ورلڈ پنجابی کانگریس کی طرف سے میڈلز دئیے گئے ان میں نمایاں نام مدثر اقبال بٹ‘ جمیل احمد پال، صغریٰ صدف، چودھری الیاس گھمن اور ڈاکٹر عباد نبیل شاد سرفہرست ہیں۔لاہور ڈیکلریشن میں جن قراردادوں کو مکمل اکثریت کے ساتھ منظور کیا، اس قرار داد کے اہم نکات درج ذیل ہیں
-1 پنجاب کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں میں پرائمری سے پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔
-2 پہلی سے بی پنجابی زبان بطور لازمی مضمون پڑھائی جائے۔
-3 پاکستان کو توڑنے کی سازش رچاتے ہوئے پنجاب کی مجوزہ تقسیم کی ہر کوشش کو تر ک کیا جائے۔
-4 ہر سال پہلی چیتر کو پنجابی کلچر ڈے منایا جائے۔ اُس دن تمام سرکاری افسران پنجابی روایتی لباس اور پنجابی پگ پہن کر اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔
-5 پنجابی زبان کو پنجاب کی سرکاری، دفتری، عدالتی اور تعلیمی زبان بنایا جائے۔
-6 پاکستان کے چاروں صوبوں کی زبانوں پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کو قومی زبانوں کا درجہ دے کر ملک کو مضبوط بنایا جائے۔
-7 پنجاب کے سارے سرکاری ملازم پنجابی میں بات کریں اور دوسرے صوبوں سے آکے پنجاب کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والوں کو پنجابی لازمی سکھائی جائے۔
-8 پنجاب کے شہروں، گلیوں ، بازاروں اور شاہراہوں کے نام پنجابی صوفی شعراء، لکھاریوں، پنجابی سُورموں اور فنکاروں کے ناموں پر رکھے جائیں۔
-9 پنجاب میں پرائمری اور مِڈل کلاسوں میں پنجابی پڑھانے کے لیے 10 ہزار اساتذہ بھرتی کیے جائیں۔
-10 پنجابی اداروں ، اخباروں اور رسالوں کو زیادہ سے زیادہ مالی وسائل مہیا کیے جائیں۔
-11 پنجابی میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے سب بے روزگاروں کو محکمہ تعلیم کے علاوہ مختلف محکمہ جات میں ملازمت دی جائے۔
-12 پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں لکھاریوں کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی لائیں ، خاص طور پر اگلی عالمی پنجابی کانفرنس کے لیے زیادہ سے زیادہ لکھاریوں کو ادھر آنے کی اجازت دی جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں