147

ڈھول کی تھاپ پہ ناچی رادھا

ساری دنیا اور بالخصوص خواتین کو اس تھرتھراتی دنیا میں اچانک مشہور ہونے کے خبط نے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔چھوٹے چھوٹے کلپ سوشل میڈیا پہ چھوڑ کے بنا سوچے سمجھے کہ معاشرے مذہب اور اخلاقیات کے کیا تقاضے ہیں اور پھر جب کوئی کلپ وائرل ہو کر ان خواتین کی شہرت کی بھی ٹھیک ٹھاک دھاک بٹھا دیتا ہے تو یہ بیچاری بھولی بھالی خواتین خواہ مخواہ ہی اپنا موازنہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کی اداکاروں سے شروع کر دیتی ہیں چند سال قبل مری کی سیر کے دوران ایک لڑکی کا یہ کلپیہ میں ہوں یہ میری سہیلیاں اور یہ پارٹی ہو رہی ہے چھت پھاڑ کے وائرل ہوا تھا اور ابھی چند دن قبل سہیلی کی مہندی پہ ڈانس کرتی ہوئی لڑکی بھیگا بھیگا ہے سماںنے سوشل میڈیا پہ آنے وا پذیرائی حاصل کی اور ہر طرف بھیگا بھیگا ہے سماں پہ ہر کوئی ٹھمکے لگا کے اپنی ویڈیو ز بنا خواہ مخواہ کی موج مستی میں مصروف ہے گویا کرنے کو اور کچھ بھی نہیں واقعی میں بحیثیت قوم ہم انتہائی بیکار قوم ہیں ہم وہی قوم ہیں جو وقت کو ضائع کر کے روتی ہے۔وقت کسی کا انتظار نہیں کرتااور ہم وقت کے درست استعمال سے ابھی تک نا آشنا ہیں اورویلے کی نماز اور کویلے کی ٹکروں کا منہ بولتا ثبوت ہیںگھروں سے تربیت شروع ہوتی ہے اور درسگاہوں میں اس کی تکمیل ہوتی ہے مگر ہمارے گھروں درسگاہوں اداروں اور معاشرے میں ایک ہی کام رہ گیا ہے اپنے کام کو چھوڑ کے دوسرے کے کام میں خواہ مخواہ کی ٹانگیں اڑانا ہی ساری عوام کا من پسند مشغلہ بن چکا ہے اور حکمران جماعت بھی اسی طرح کے مشاغل میں مصروف نہ کوئی فرق نہ کوئی فاقہ بانسری بجتی رہی جلتے رہے نیرو کے گھرہر کوئی دوسرے کو ننگا کرنے کے جتن میں خود ہی ننگا ہوتا جا رہا ہے ہر کوئی دوسرے کے منہ سے نوالہ چھیننے کے چکر اپنے نوالے سے بھی ہاتھ دھو رہا ہے دنیا کا کوئی بھی مذہب ہیرا پھیری دنگا فساد بے ایمانی نہیں سکھاتا اور انسانی سرشت شیاطن کا چیلا بننے سے باز نہیں آتی لہذا بدی اور نیکی کی یہ جنگ روز اول سے جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گی اچھے اور برے لوگ آپس میں گھتم گتھا رہیں گے روز و شام کی آنی جانی لگی رہے گی بہاروں اور خزائوں کی آنکھ مچولی لگی رہے گی انسان انسانوں کا خون پیتے رہیں گے
بدبخت نیک بخت لوگوں کو ڈنک مارتے رہیں گے یہ سب چلتا رہے مگر عورت کو اپنے وقار اور حیا کے آنچل کو اوڑھ کے یہ ٹھمکے لگاے بغیر شان سے آگے بڑ ھنا چاہیے حیرانی اس وقت ہوئی جب اس بچی کے باپ نے گھگھیاتے ہوئے کہا کہ ہم تو سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ہماری بیٹی اس طرح پوری دنیا میں مشہور ہو جائے گی اور ہم اس قدر امیر ہو جائیں گے غربت کا عفریت اس طرح پوری دنیا پہ حاوی ہو چکا ہے کہ اب کوئی چارہ ہی نہیں رہا کہ عورت گھر کی چار دیواری میں بیٹھ جاے ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے اور مرد کمای کی چکی میں پستا رہے موجود دور میں گھر چلانا مرد و زن دونوں کی برابر ذمہ داری ہے اب یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو اس کی حیا میں کس حد تک قبول کرتا ہے اور ملکی ترقی میں مرد کس حد تک عورت کا مدد گار ثابت ہو تا ہے ورنہ ہمیں تو مارنے والے ہمارے جنم کے ساتھ ہی پیدا ہو گیے تھے کی دہائیاں پہلے پہلے ہمسایہ ملک کی خاتون وزیراعظم نے ببانگ دہل ہمارے ملک کے بارے میں پشین گوئی کر دی تھی کہ انہیں مارنے کے لیے گولی کی کیا ضرورت ہے ہم انہیں اپنی ثقافت سے مار دیں گے اور بالکل وہی پشین گوئی پوری ہو رہی ہے سینما گھروں میں ہمسایہ ممالک کی فلموں پہ پابندی کے باوجود رادھا انھی کے گانوں پہ ڈھول کی تھاپپہ ناچ رہی ہے اور ہم ہار رہے ہیں خدا را ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں