97

بے نظیر بھٹو

27 دسمبر2007کی وہ خون اشام شام کو پاکستانی قوم کھبی نہ بھلا پاے گی جب پاکستان ھی نھیں عالم اسلام کی پہلی منتخب اور سب سے کم عمر وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کے بعد جب وہ گاڑی میں بیٹھ کر واپس جاتے ھوے لوگوں کے نعروں کا جواب دے رھی تھیں کہ ایک خودکش حملہ میں شھید کردیا گیاتھا -محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی کے بعد 2008 کے عام انتخابات میں حصہ لینے اور انتحابی مھم چلانے دوبئی سے کراچی آئیں تو لاکھوں افراد نے ان کا استقبال کیا تھا وہ ائیرپورٹ سے جلوس کی صورت اپنے گھر جاررھی تھیں کہ کارساز کے مقام پر ان کے جلوس پر خود کش حملہ ھوا جس میں سینکڑوں لوگ شہید اور زخمی ھوگئے تھے۔انھیں وطن واپسی سے روکنے کے لئے ڈرایا دھمکایا گیا مگر وہ وطن کی محبت میں تمام خطرات کو بالاطاق رکھتے ھوے واپس وطن ائیں وہ اپنے کارکنان اور عوام کو اکیلا نھیں چھوڑ سکتی تھیں -محترمہ بے نظیر بھٹو کی تیس سالہ سیاسی جدوجہد عوام، جمھوریت، آزادی اظہار اور سماجی و معاشی مساوات سے عبارت ھے – والد کا قتل، بھائیوں کا قتل، شوھر اور والدہ کی قیدوبند جھوٹے مقدمات اور الزامات ان کے پایہ استقلال میں لغرش پیدا نہ کر سکے- انھوں نے جس بھادری اور جرات سے فوجی آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اگے بڑھ کر جدوجہد کی وہ بے مثال ھے اور ان کا نام ان کی شخصیت پر اثرانداز ھوا ورنہ کم لوگ ھوتے ھیں جو اپنے نام کے مطابق ھوتے ھیں – محترمہ بے نظیر بھٹو سندھ کے معروف جاگیردار اور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت کے گھر 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ھوئیں اور نام بے نظیر رکھا اس وقت شاھد انہیں خود بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ واقعی بے نظیر ثابت ھوگی-پاپا نے خوبصورتی پر پنکی کانام دیا اس کا بچپن انتہاء اعلی و ارفع گذرا اور شھزادیوں کی طرح رھی -ابتداء تعلیم کے بعد 1969 میں ھارڈوئیر یونیورسٹی یو کے میں چلی گئیں اور 1973 میں سیاسیات میں ماسٹر کرنے بعد آکسفورڈ گئیں جھاں طلبہ یونین کی پہلی ایشیاء طالب علم کے طور صدر منتخب ھو ئیں۔جب بے نظیر تعلیم کے لئے ریڈکلف کالج جارھی تھیں تو اس کے والد جو اپنی اس بیٹی کو بہت چاھتے تھے ایک خط لکھا اور نصیحت کی کہ: پاکستان میں بھی کم لوگوں کو
یہ موقع میسر آتا ھے لہذا تمھیں اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاھیے اور مت بھولنا کہ وھاں تمھاری تعلیم پر جو رقم خرچ اے گی وہ پیسہ ھماری زمینوں سے اے گا یعنی یہ ان لوگوں کی محنت ھے جو اپنا خون پسینہ ایک کرکے کام کرتے ھیں تو اب تمھیں ان کا قرض چکانا ھے اور یہ قرض بفضل خدا اپنی تعلیم مکمل کرکے ان لوگوں کی زندگیاں بھتر کرکے چکا سکتی ھو :بے نظیر بھٹو نے ثابت کیا کہ وہ اپنے والد کی دولت کی نہیں بلکہ خاندانی روایات اور سیاسی ورثے کی بھی امین ھیں ۔بے نظیر بھٹو تعلیم مکمل کرنے بعد اس عزم سے وطن واپس آئیں کہ خارجہ امور کے میدان میں خدمات سرانجام دئیں مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا اور ملک کے حالات ایسے ھوے کہ بھٹو کی حکومت کا تحتہ الٹ کر انھیں جیل بھیج کر اقتدار جنرل ضیاالحق نے سنبھال لیا ائین کو پھاڑ پھینکا اور بھٹو پر مقدمہ قتل شروع ھو گیا جبکہ بے نظیر کو پابند سلاسل کردیا گیا یہاں تک کہ بھٹو کو مقدمہ قتل میں موت کی سزا دے دی گء بے نظیر اپنی والدہ کے ساتھ اس وقت سھالہ ریسٹ ھاوس میں نظربند تھیں جب بھٹو کی میت جہاز سے راولپنڈی جیل سے گڑھی خدا بخش لے جاے جارھی تھی تو دونوں ماں بیٹی کو لان میں لا کر کہا گیا یہ اوپر سے گزرنے والاجہاز دیکھ لو اس میں اپ کے پاپا کی میت ھے اپنے باپ کے بازوں میں نازوں سے پلی جس نے زندگی کی ابھی 25 بھاریں دیکھی تھیں کس طرح اڑتے جھاز کو دیکھا ھوگا اور یہ خبر کس طرح سنی ھوگی مگر یہ تو بہادر لڑکی ھی جان سکتی ھے- جب بھٹو جیل میں مقدمہ قتل کا سامنا کررھے تھے تو اپنی پنکی کو جو دوسری جیل میں تھی کو خط لکھا کہ؛ایک بدنصیب قیدی باپ اپنی پیاری اور ذھین بیٹی کو خط کے ذریعے سالگرہ کی مبارکباد کیسے دے پایگا جو اپنے باپ کی زندگی کے لئے جدوجھد کررھی ھو اور خود پابند سلاسل ھو – جو اپنے اور اپنی ماں کے سانجھے دکھ کو جانتی ھے کس طرح محبت سے لبریز جذبات کا پیغام ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پھنچ سکتا ہے، تمہارے دادا ،دادی نے مجھے باوقارانداز سے غریب کی سیاست کرنا سکھائے میری پیاری بیٹی! میں تمھیں صرف ایک پیغام دینا چاھتا ھوں کہ یھی تاریخ کا پیغام ھے ۔اپنے عوام پر بھروسہ کرو، ان کی بھلائی اور مساوات کے لئے کام کرو اللہ کی جنت ماں کے قدموں تلے جبکہ سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ھے میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے کیا تحفہ دے سکتا ھوں جہاں سے میں اپنا ھاتھ بھی باھر نھیں نکال سکتابس ، اج میں تمھارے ھاتھ میں عوام کاھاتھ دیتا ھوں : بھٹو کو پھانسی ھوگء تو اس کے بعد ان کی پنکی ایک اہنی طاقت سے آمریت، جبر، ظلم، عدم مساوات، سول بالادستی کے لئے میدان عمل میں اگء اور کہا کہ ھاں میں باغی ھوںطاقت کے نشہ میں چور حکمران یہ سمجھتے تھے کہ اک نہتی لڑکی کا کھڑا رھنا ممکن نھیں ھو گا مگر بے نظیر کا عزم، حوصلہ اور بہادری ان طالع ازماوں پر برق بن کر گرا اور دنیا نے دیکھا کہ ان پر لرزہ طاری ھوگیا جیل سے رھاء کے بعد دوسال یو کے میں جلاوطن رہ کر جب اپریل 1986 میں لاھور ائیں تو پاکستان کی تاریخ کا ریکارڈ استقبال ھوا اب وہ پی پی پی کی سربراہ بھی بن چکی تھیں 1987 میں ان کی شادی آصف زرداری سے ھوگء جو سندھ کے معروف ترقی پسند سیاست دان اور اس وقت اے این پی کے لیڈر تھے حاکم علی زرداری کے بیٹے ہیں- 1988 میں انھیں عالم اسلام کی پہلی اور سب سے کم عمر وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ھوا وہ دو مرتبہ وزیراعظم بنی سچی بات یہ کہ بے نظیر بھٹو کی زندگی بھر پور جدوجھد، محنت، مسائل اور مشکالات میں رھی والد کا قتل بھائیوں کا قتل ماں کی گرفتاری اور ان پر تشدد شوھر کی طویل جداء مگر پھر بھی شھر شھر گاوں گاوں جمھوریت عوام اور ملک کے لئے جنگ لڑتی تھیں اور آخری للکار یہ تھی میرا ملک خطرے میں بے اسے کون بچاے گا میں بچاوں گی پھر 27 دسمبر کی کی شام کے مھیب سایوں میں اس آواز کو خاموش کردیا گیا اس شام کو کون فراموش کرسکتا ھے جب بے نظیر بھٹو کو ھمیشہ کے لئے عوام سے دور کردیا گیا -حبیب جالب نے کیا خوب کھا تھا
ڈرتے ھیں بندوقوں والے ایک نھتی لڑکی سے
پھیلے ھیں ھمت کے اجالے ایک نھتی لڑکی سے ڈرے ھوئے ھیں ، مرے ھوے ھیں لرزیدہ لرزیدہ ھیں
ملا ، تاجر، جنرل، جیالے ایک نھتی لڑکی سے
آزادی کی بات نہ کر لوگوں سے نہ مل، یہ کھتے ھیں بے حس ،ظالم ،دل کا کالے، ایک نھتی لڑکی سے
دیکھ کے اس صورت کو جالب ساری دنیا ھنستی ھے
بلوانوں کے پڑے ھیں پالے، ایک نھتی لڑکی سے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں