129

گورنمنٹ کالج طارق آباد کاسالانہ مشاعرہ

بہت سے مشاعروں میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے اور ہم خود بھی ان گنت مشاعرے کرواچکے ہیں لیکن گورنمنٹ کالج طارق آباد کے مشاعرے میں شرکت سے ایک عجیب سی خوشی نصیب ہوئی ہے ۔ہفتے والے دن کسی نجی کام کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہوا تھا اور فیصل مسجد کی سڑھیاں اُتررہا تھا کہ جیب میں پڑا فون بجنے لگا ۔دیکھا توگورنمنٹ کالج طارق آباد کی پرنسپل محترمہ ثروت سہیل صاحبہ کا نام فون سکرین پہ جگمگا رہا تھا ۔ادب سے سلام کیا توآپ فرمانے لگیں راجہ صاحب! ہم نے اپنے کالج میں بی ایس اردو شروع کر دیا ہے ۔طالبا ت کواردو ادب اور شاعری سے اچھی طرح روشناس کرانے کے لیے ہم اپنے کالج میںسالانہ مشاعرہ کروارہے ہیں یہ ہماری پہلی پہلی کوشش ہے اس لیے ہم بہت کم شاعروں کو مدعو کریں گے لیکن آپ نے ضرور شرکت کرنی ہے ۔محترمہ ثروت سہیل سے ادب کا رشتہ ہے اور آپ مجھے بڑی بہن کے جیسے بھی لگتی ہیں ۔ جب سنجیدہ ہوں تولگتا ہے کہ ابھی ڈانٹ دیں گی لیکن اگلے ہی لمحے آپ کے چہرے کی مسکراہٹ سے شفقت بھرا ہاتھ سر پہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس لیے ہم نے بڑے ادب سے اس ادبی محفل میں شرکت کی حامی بھر لی۔دوپہر اسلام کی خوبصورت شاہرائیں،بلند و بالا عمارتیں اور سرسبز درخت دیکھتے گزار کے شام کے وقت لیک ویو پارک جانے کا فیصلہ ہوا۔لیک ویو میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کے خیال آیا کہ پاکستانی لوگ سیر و سیاحت کے کتنے شوقین ہیں کہ ہر کہیں ہر عمر کے لوگ چہروں پر مسکراہٹیں سجائے چلے جارہے تھے۔بہت سے سکول و کالج کے طلبا و طالبات بھی پارک کے مختلف حصوں میں خوش گپیوں میں مشغول نظر آئے۔تصاویر بنانے والوں کا بھی خوب رش تھا جو اسی وقت بہترین کوالٹی کی تصاویر معقول قیمت میں بنا کے دے رہے تھے۔راول جھیل کا کنارا شام کے وقت ایسا دلفریب منظر پیش کر رہا تھا کہ دل گنگنانے پہ مچلنے لگا۔ایسے میں ایک پیانو والا ہمارے قریب آیا اور کہنے لگا صاحب جی ایک تصویر اس کے ساتھ تو بنوائیے۔ہم ٹھہرے سدا کے من موجی ۔نہ صرف فوراً پیانو ہاتھ میں پکڑا اور پوز بنا کے تصویر بنوالی بلکہ اسی وقت سماجی رابطو ںپر شیئر بھی کردی۔ ابھی گھر نہیں پہنچا تھا کہ راحت ثمر نے مشاعرے کا کارڈ وٹس اپ کردیا جس پہ ہماری اُ سی شام پیانو کے ساتھ بنی تصویر ثبت تھی ۔فوری رابطہ کیا کہ یہ کیا کیا ہے ۔لیکن انہوں نے معصومیت سے جواب دیا راجہ صاحب ! تصویر اچھی لگی تو ہم نے کارڈ میں لگوادی ۔اب تبدیل نہیں ہوگی ۔مشاعرے کی صدارت محترمہ حمیدہ شاہین کی تھی اور خاص مہمانوں میںڈاکٹرضیا ء الحسن، ڈاکٹر سعید اقبال سعدی،محترمہ عرفانہ امر کے نام ہمارے ساتھ ساتھ لکھے ہوئے تھے جبکہ اعزازی مہمانو ںمیں بھی
بڑے قد آور شعرا کے نام موجود تھے۔منگل والے دن شدید دھند میں گھر سے کالج کی طرف اس امید پہ نکل پڑا کہ تھوڑی دیر تک دھند چھٹ جائے گی ۔ سورج چمکے گا اورچہرے خوشیوں سے کھل اُٹھیں گے۔ ابھی آدھا سفر ہی کیا تھا کہ دھوپ نکل آئی اور جب تک ہم کالج پہنچتے سورج کی شدت جسم کو راحت پہنچانے کا سبب بن رہی تھی۔محترمہ ثروت سہیل اور راحت ثمر نے مسکراتے چہروں کے ساتھ خوش آمدید کہا اور کسی نے گرم گرم چائے ہمارے سامنے لا رکھی۔مشاعرے کا اہتمام کالج کے خوبصورت لان میں کیا گیا تھا ۔یہاں بتاتا چلو ںکہ اس کالج کو قائم ہوئے ابھی ایک عشرہ بھی نہیں ہوا ہے لیکن کالج پرنسپل ثروت سہیل نے اپنی قائد انہ صلاحیتوں سے اسے ایک ممتاز درس گاہ بنانے کا عمل خوبصورتی سے شروع کیا ہوا ہے ۔لاہور سے صدر محفل تشریف لاچکیں تو مشاعرہ گاہ کی طرف چلنے کا حکم ہوا۔ کالج کی طالبات ہاتھوں میں پھولوں کے بکے لیے کھڑی تھیں۔سامنے خوبصورت پنڈال سجا انتظامیہ کی محنت،جذبے اور قابلیت کا ثبوت دے رہا تھا۔ بے اختیار دل پکارا واہ بھی! کیا خوبصورت سٹیج بنایا گیا ہے ۔نیلے پیلے،سفید اور کالے دوپٹے اُوڑھے طالبات نے بڑی گرم جوشی
سے مہمانوں کا استقبال کیا ۔راحت ثمر نے نظامت کے لیے مائیک سنبھال لیا اور شاعروں کے تعارف کاسلسلہ بڑے اچھے انداز میں چلایا۔تلاوت قرآن کے بعدجب نعت پڑھی جارہی تھی تو ڈاکٹر سعدی میرے کان میں بولے راجہ صاحب! کیا خوبصورت آواز ہے جو مناسب موقع نہ ملنے سے ضائع ہوجائے گی ۔راحت ثمر نے اپنے کلام سے مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا اس کے بعد وہ ایک کے بعد ایک شاعر کو سٹیج پر دعوت دیتی رہیں ۔بڑی خوشی ہوئی کہ طالبات کی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے پتہ چلنے لگتا کہ انہیں ادب سے کتنا لگاو ہے اس کے بعد وہ ایک ساتھ تالیاں بجاتیںتو جیسے ماحول میں نغمگی کا احساس ہونے لگتا ۔محترمہ ثروت سہیل نے اردو میری سہیلی کلام سنایااور پھر اس کا انگریزی ترجمہ بھی پڑھ دیا۔محترمہ عرفانہ امر بے شک گوجرانوالہ کے شعر و ادب کا سرمایہ ہے بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ گوجرانوالہ کے شعرا میں سب سے باوقار نام عرفانہ امر کا ہی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔آپ جتنی اچھی شاعرہ ہیں اس سے کہیں اچھی انسان اور ساتھی ہیں ۔مان رکھنے والی عزت دینے والی،تعریف کرنے والی اوردعا دینے والی۔ڈاکٹر سعید اقبال سعدی نے اپنے کالج دور میں کہے اشعار سے شروعات کی اور پھر وہ دو دو چار چار اشعار پیش کر کے ماحول گرماتے رہے ۔صدر مشاعرہ محترمہ حمیدہ شاہین نے پہلے طالبات کے لیے اشعار پڑھے اور پھر اپنے دوسرے اشعار ایسے پیش کرتی رہیں کہ ہر کوئی واہ واہ اور مقرر مقرر کہے جاتا تھا۔مشاعرہ وقت پہ شروع ہوا اور وقت پہ ہی ختم کردیا گیا ۔گروپ فوٹو کے لیے کھڑے ہوئے اور جب پنڈال سے طعام کے لیے ہمیں لے جایا جارہا تھا تب بھی طالبات تالیاں بجائے جارہی تھیں ۔بے شک گوجرانوالہ کے کسی بھی کالج میں مشاعرے کے حوالے سے منعقد ہونے والی یہ ایک شاندار اور باقار تقریب تھی جس میںاگر صدر مشاعرہ لاہور سے تشریف لائی تھیں تو خاص مہمانوں میں گوجرانوالہ کے ممتاز نام بھی شامل کیے گئے تھے۔دعا ہے کہ ادب کے یہ رنگ ہمارے سبھی تعلیمی اداروں میں پھلتے پھولتے نظر آئیں ۔یہ سلسلہ چلتا رہے اور تعلیمی اداروں سے بچے کتاب دوستی کا سبق یاد کریں اورموبائل سے نکل کے کتابوں کے ورق اُلٹنے کی کوشش کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں