99

ورکنگ ویمن کا عالمی دن

پاکستان میں 2011 میں عورتوں کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے 22 دسمبر کا دن ورکنگ وومن کے نام سے منانے کا عزم کیا گیا اس دن کو منانے کا مقصد کام کرنے والی خواتین کی شناخت کو تسلیم کرنا اور ان خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنا اور خواتین کے کام کے دوران بے شمار مسائل جن کا وہ شکار ہوتی ہیں ان کے تدارک کے لئے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے سلسلہ کو عملی طور پر کرنے کا عزم کرنا ہے قیام پاکستان سے خواتین عملی طور پر سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ تعلیم صحت ڈاکٹر نرسنگ ہیلتھ ورکرز کھیتی باڑی یعنی فصلوں کی کاشت بجاہی اور کٹائی میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں دہیی علاقوں میں بچپن سے گھر کی ذمہ داری نبھانے والی بچیاں کھیتوں میں چاول کی فصل لگانے کے لیے سارا دن کام کرتی ہیں سبزیوں اور پھلوں کی چنائی میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی ہیں سخت درجہ حرارت میں کپاس کی چنائی جیسے سخت کام کرتی نظر آتی ہیں خواتین ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کی بھاری ذمہ داری نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ان خواتین کو صنف نازک کہا جاتا ہے خواتین یہ ذمہ داریاں بغیر شکایات کے نبا رہی ہوتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو مواقع ملے انہوں نے آرگنائزیشن رجسٹرڈ کروائیں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر کام کرتی نظر آئیں خواتین گلوکارہ فنکارہ وکلا ڈاکٹر انجینئر شاعری کے ساتھ ساتھ ان ذمہ داریوں کو نبھا لینا شروع کیا اس کے ساتھ ساتھ گھر پر بچوں کی تربیت بزرگوں کی حفاظت احسن طریقے سے زمہ داریاں نبھا کر رول ماڈل ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ خواتین میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے زیادہ تر خواتین نہ صرف مسائل پر آواز اٹھاتی ہیں بلکہ حق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرتی ہیں ورکنگ وومن پر دوہری ذمہ داریاں گھر کے ساتھ ساتھ کفالت کا بوجھ بھی کندھوں پر ہوتا ہے بچوں کی پرورش اور گھر کی اضافی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خواتین اکثر اوقات تمام معاشی ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی ہیں تو کافی خواتین کاروبار اور ابان لائن کاروبار کرتی نظر آرہی ہیں آن لائن کاروبار کے حوالے سے ڈیجیٹل لٹریسی کے حوالے سے خواتین میں معلومات کا فقدان ہے اور آن لائن کاروبار کے حوالے سے ابھی ان کو اس حد تک رسائی نہیں ہے اگر خواتین کو ڈیجیٹل لٹریسی تک رسائی دی جائے تو چھوٹے کاروبار کے ذریعے ترقی میں شراکت داری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اگرچہ پہلے کی نسبت معاشی خودمختاری سیاسی خودمختاری میں خواتین کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے مگر آج بھی خواتین فیکٹریوں دیہاتوں کھیتوں میں بہت کم معاوضہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں خواتین گھروں میں بطور ملازمہ بہت کم معاوضے پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی باقاعدہ رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سوشل سکیورٹی کی سہولت حاصل نہ ہے کسان خاتون کو پورا دن کام کرنے کے باوجود دیہاڑی کم ملتی ہے چارہ کاٹنا جانوروں کی پرورش جو ان کے گھر کی کفالت میں پر اثر انداز ہوتی ہیں وہ ایسے بہت سارے کام کر رہی ہوتی ہیں جو ان کے گھر کی کفالت پر اثر انداز ہوتے ہیں محنت کش خواتین کو زیادہ مسائل کا سامنا ہے معاوضہ سکیورٹی مہنگائی کی شرح میں اضافہ سے
عورتوں پر معاشی دبا کے ساتھ ساتھ ذہنی دبا بھی شدت اختیار کررہا ہے کام کرنے والی خواتین کی شمولیت اور اہمیت کو تسلیم کیا جائے صرف عورتوں کو نہیں ان کے کاموں کو بھی گننے کی ضرورت ہے اگرچہ پاکستان میں خواتین نیوقت گزرنے کے ساتھ تعلیمی معاشی اور سیاسی اعتبار سے اپنی جگہ بنا لی ہے لیکن یہ تعداد مخصوص اور کم ہیں اب بھی بہتری کی بہت گنجائش ہے دوسری جانب پاکستان کی خواتین ہی خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے حقوق سے آگاہی معلومات تک رسائی اور مشورہ دلانے میں سرگرم دکھائی دیتی ہیں یہ بہترین کاوش ہیملکی ترقی میں خواتین کا کلیدی کردار ہے مسلسل جدوجہد اور مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود سیاسی سماجی معاشی سطح پر خواتین کے لئے مواقع محدود ہیں آج بھی ورکنگ وومن تشدد اور حق تلفی کا شکار ہے خواتین کو گھر والوں کی طرف سے تعلیم اور اداروں تک رسائی ملازمت کی سہولت نہیں ملتی جس سے وہ مقام نہ حاصل کر سکتی ہیں اور مساہل کا شکار رہتی ہیں خصوصی طور پر شادی کے بندھن کامیاب نہ ہونے کے صورت میں مسائل کی صورت میں یا بیوہ ہونے کی صورت میں ورکنگ وومن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے شمار مسائل کا شکار رہتی ہیں ورکنگ وومن کو عام طور پر شادی کے بعد تبادلہ نہ ہونے یا متبادل کام نہ ملنے کی وجہ سے بھی صلاحیتیں دب جاتی. ہیں اکثر پرائیویٹ سیکٹر میں دوران زچگی میٹرنٹی لیو جو خاتون کا بنیادی حق ہے نہ ملنے کی وجہ سے کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اکثر اداروں میں بچوں کے لیے ڈے کیئر سنٹر کے مناسب انتظام نہ ہونے یا سرے سے ہی ڈے کیئر سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے مسائل درپیش ہوتے ہیں ورکنگ وومن کو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کام کو خیر آباد کہنا پڑتا ہے ورکنگ وومن کو . ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مسائل کا سامنا رہتا ہے اگرچہ کچھ خواتین سکوٹی اور موٹر بائیک استعمال کر رہی ہیں اور گاڑیاں چلا رہی ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے یقینا بہترین اقدام ہے اس سے خواتین میں ہراسگی کے کیسز میں کمی واقع ہوئی ہے خواتین کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے مگر آج بھی دہیی علاقوں میں خواتین کپاس کی چنائی کے لیے صبح سے شام تک ٹرانسپورٹ پر مردوں پر انحصار کرتی ہیں اور ان کا بہت سارا وقت کا ضیاع ہوتا ہے دوسری جانب حکومت کی طرف سے 15 فیصد کوٹہ خواتین کے لئے سرکاری ملازمتوں میں مختص کیا گیا مگر عملدرآمد میں مسائل ہیں خواتین کی بڑی تعداد بے روزگارہے مختلف محکموں میں خواتین کی سیٹیں خالی پڑی خواتین کو جب سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت گھر سے مل رہی ہوتی ہیں تو وہ نہیں کر پاتی جس کی ایک وجہ گورنمنٹ کی طرف سے ورکنگ ویمن ہاسٹل کا فقدان ہے اکثر خواتین کام کے دوران بذریعہ فون بھی دھمکیوں کی صورت میں بلیک میل ہوتی ہیں فون یا سوشل میڈیا کے ذریعے بلیک میل ہونے کی صورت میں دھمکیاں ملنے سے یہ خواتین سائبر کرائم کو درخواست دینے کے حوالے سے معلومات نہیں رکھتی اور اکثر خوف سے گھر پر قید ہو کر رہ جاتی ہیں برابری کے لیے ایسے طبقے کو زیادہ مواقع اور زیادہ معلومات کی رسائی کی بنیادی ضرورت ہے اگرچہ سرکاری ملازمت کے لیے خواتین کے لیے ایج ریلیکسیشن کی سہولت بھی ہے مگر خواتین تک معلومات نہ ہونے کی وجہ سے عمر بڑھنے کے ساتھ مایوسی کا شکار ہوکر بے شمار بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں اکثر اوقات کام کرنے والی جگہ پر خواتین کو مردوں کے برابر کام کرنے پر معاوضہ کم دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ تشدد اور حراسگی کا شکار ہوتی ہیں اگرچہ عورتوں کی حراسگی سے تحفظ کا قانون 2010 موجود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبائی محتسب کا دفاتر موجود ہیں اور ہیلپ لائن بھی متعارف کروائی گئی ہیں لڑکیاں اور عورتیں جو کسی بھی جگہ بشمول دفتر کالج یونیورسٹی بینک دوکان کمپنی فیکٹری گھریلو ملازمہ یا بطور مزدور گھر میں اجرت کا کام کریں نرس ڈاکٹر وکیل کسی بھی شعبہ سرکاری یا غیرسرکاری ادارے سے منسلک ہو تعلیم حاصل کر رہی ہو ہراسگی کے خلاف پاکستان میں تحفظ کا حق رکھتی ہے جہاں پر خواتین کام کر رہی ہو وہاں پر انکوائری کمیٹی کا قیام بے حد ضروری ہے اور خواتین کسی بھی ہراسگی کی صورت میں خوف سے نوکری چھوڑنے کی بجائے انکوائری کمیٹی کو آگاہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے کمیٹی کے قیام کا مقصد خواتین ملک کی ترقی میں بلاخوف اپنا کردار ادا کر سکیں تحفظ نہیں تو سارے قوانین بیکار ہیں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کا تحفظ اور اقتصادی ترقی میں ان کے کردار کو اجاگر اور تسلیم کیا جا رہا ہے پہلے رشتہ کرنے کے لیے ورکنگ وومن کا انتخاب معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اب تبدیلی آئی ہے پڑھی لکھی اور ووکنگ ویمن یعنی ہنر مند کو فوقیت دی جاتی ہے کام کرنے والی خواتین خاندانی طور پر خطرہ نہیں بلکہ گھر کی عزت ہے اقتصادی ترقی میں خواتین کے حقوق کو اجاگر کر رہی ہیں خواتین کو اعتماد اور پر امن ماحول ملے تو بہتر انداز میں نہ صرف گھر کا نقشہ بدل رہی ہے بلکہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں عورت ہر مشکل اور خوشی میں گھر والوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے عورت کے کام کرنے سے گھریلو ذمہ داریاں متاثر یا کم نہیں ہوتی بلکہ منظم طریقے سے ہو رہی ہوتی ہیں ورکنگ ویمن پہلے مجبوری تھی اب ضرورت ہے حکومت کو چاہیے کہ ورکنگ ویمن کے لئے مناسب ٹرانسپورٹ کا اجتماعی یا انفرادی طور پر اقدامات کریں قسطوں پر سکیوٹی فراہم کی جائے ٹیکنیکل اداروں میں موبائل ریپئرنگ موٹر سائیکل ریپیرنگ اور الیکٹریشن کے کورس کروائے جائیں ورکنگ وومن ہاسٹل اور ڈے کیئر سنٹر زیادہ سے زیادہ بنائے جائیں جہاں تک ممکن ہوسکی کام کرنے والی ہراسگی کا شکار ہونے والی خواتین کی شکایت کا سرکاری سطح پر جائزہ لیا جائے اور فوری طور پر حل کرواء جاہے ورکنگ ویمن کو معلومات تک رسائی ہو اور میڈیا بھی مثبت کردار ادا کرے اورکنگ ویمن کی کاوشوں اور مشکلات کو اجاگر کرے ورکنگ ویمن کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان کے پاس اپنے شناختی کارڈ تک رسائی یو ہیلپ لائن اور حکومت کی جانب سے قانون سازی اور خواتین سے متعلقہ اداروں کے حوالے سے معلومات ہو اس کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھی خواتین سے بھی گزارش ہے کہ وہ ان خواتین کے مسائل کو دیکھتے ہوئے موثر قانون سازی کروائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں