87

سیاسی منڈی پھرتحریک عدم اعتماد

ہمارے ملک میں لگتا ہے کوئی آسیب ہے جو اسمبلیوں میں گھس جاتا ہے اور مدت پوری کرنے نہیں دیتا عمران خان کی حکومت گئے سال بھی نہیں ہوا اب پھر اسمبلی توڑنے””الیکشن کرایا مہم “”تیز ہوگئی ہے اسی سلسلے میں وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت لاہور میں اجلاس ہوا جس میں پنجاب اسمبلی کے مستقبل کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت اجلاس کے حوالیسے پتاچلاکہ چوہدری سالک اپنے چچاپرویز الہی کو بطور وزیراعلی رکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔ مشاورتی اجلاس میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو روکنے اور آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے تجاویز پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے پارٹی رہنماوں کو مسلم لیگ (ق)کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پرویز الہی تحریک انصاف کے ساتھ اپنی پوزیشن واضح کریں گے تو اتحادی جماعتیں اس پر غور و خوض کرسکتی ہیں۔ دوسری جانب چودھری شجاعت حسین نے بھی پرویز الہی سے بات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اجلاس کے خاتمے کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کسی بھی صورت کسی غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔وزیراعظم شہباز شریف نے ساتھ ہی ہدایت کی کہ عمران خان کے خلاف جو کیسز بنائے جارہے ہیں ان میں تیزی لائی جائے۔ چودھری پرویز الہی کیانٹرویوسے لگتاہے کہ وہ عمران خان کیفوجداری بمباری کے جارحانہ انداز سے اکتاچکے ہیں۔چھوٹے چوہدری صاحب مونس الہی زمان پارک گئے اور عمران خان سے اکیلے میں طویل ملاقات کی۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے 23دسمبر کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے تحریک انصاف کے قائد نے زمان پارک سے جو خطاب کیا اس کے دوران پرویز الہی صاحب ان کے دائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے تھیمگروزرا اعلی کے چہرے بول رہے تھے کہ خان صاحب نہ کرو۔ان کی نیت پر شبہ کئے بغیر البتہ سیاسی عمل کو آئینی اور قانونی شکل دینے سے متعلق قواعد وضوابط کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس وزیر اعلی کے دفتر سے جاری ہونا لازمی ہے تو 48گھنٹوں کے بعد صوبائی اسمبلی کا تحلیل ہوجانا لازمی قرار پائے گا۔ سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کے کوٹے سے صوبائی وزیر بنے افراد میں سے کتنے لوگ اس امر کو تیار ہوں گے۔وفاداریاں تبدیل ہونگی ،پھرمنڈی سجائی جائے گی پھرہی لوٹاکریسی یعنی تماشہ کچھ روز تک جاری رہ سکتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین، سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جمہوری استحکام اور پارلیمان کی بالادستی کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔ آنے والا وقت انارکی اور انتشار کی سیاست کرنے والی قوتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پنجاب اسمبلی کو بچانے کی جہدوجہد جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پیپلز پارٹی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ آصف علی زرداری نے پارلیمانی پارٹی کے اراکین کو وزیر اعظم شہبازشریف اور چوہدری شجاعت سے ہونے والی ملاقاتوں پر اعتماد میں لیا۔ اجلاس میں پنجاب کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضی نے کہا ہے کہ ہم نے وزیراعلی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے۔ ہمارے پاس نمبرز
پورے ہیں۔ 186 نمبرز حکومت کو دکھانے پڑیں گے۔ آصف علی زرداری ممکنات کے کھلاڑی ہیں۔ وہ جسے چاہیں گے وہ اگلا وزیراعلی آئے گا۔ملاقاتیں جاری ہیں وزیراعظم شہبازشریف نے مسلم لیگ (ق)کے صدر چودھری شجاعت حسین سے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ملاقات میں سالک حسین عطا تارڑ اور ملک احمد خان بھی موجود تھے۔ بعدازاں گفتگو کرتے ہوئے چودھری شجاعت نے کہا کہ مستقبل کا سیاسی لائحہ عمل مل بیٹھ کر طے کریں گے۔ پنجاب میں اچھا ہی ہونے جا رہا ہے۔ پی پی اور(ن)لیگ عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ دونوں آپشن پر غور کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی پی،(ن)لیگ کے پاس اور بھی آپشن ہوں گے۔ مجھے دونوں جماعتوں نے دو ہی آپشن بتائے ہیں۔ جن کے پاس عدم اعتماد کے ووٹ پورے نہیں وہ اپنا نمبر پورا کریںگے۔ جس کے پاس ووٹ پورے ہوئے وہ بچ جائے گا۔ چودھری شجاعت کا کہنا تھا کہ پرویزالہی اگر فیصلہ کرتے ہیں تو چار پانچ ماہ نکال سکتے ہیں۔ مجھے عام انتخابات جلد نظر نہیں آرہے۔ کچھ لوگ اسمبلیاں توڑنے اور کچھ بچانے پر تلے ہیں۔ چودھری شجاعت نے کہا کہ پرویزالہی کیلئے گنجائش کا مسئلہ نہیں۔ مسئلہ تو سیاسی جماعتوں کا ہے۔ ایک عدم اعتماد اور دوسری اعتماد کے ووٹ کی تحریک لانا چاہتی ہے۔پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے اراکین نے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کے بعد صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی پر اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد نہیں رہا ہے اور صوبہ پنجاب کے معاملات آئین کے تابع نہ چلائے جارہے ہیں۔ نیز ملکی صورتحال کے زیر اثر انہوں نے صوبہ پنجاب میں جمہوری روایات کا قلع قمع کیا ہے۔ لہذا یہ ایوان چودھری پرویز الہی وزیراعلی پنجاب پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ حزب اختلاف نے گورنر پنجاب سے بھی رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے حکم جاری کریں۔ دوسری طرف گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہدایت نامہ جاری کردیا ہے۔ گورنر پنجاب کی طرف سے ان
کے پرنسپل سیکرٹری کے وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کو لکھے گئے خط میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 130(7) حوالہ دیکر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس 21دسمبر بروز بدھ چار بجے طلب کرکے وزیراعلی پنجاب کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہاگیا ہے۔ دوسری طرف گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کی جانب سے احکامات میں کہاگیا ہے کہ یہ عوامی علم کی بات ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑے پیمانے پر خبریں چل رہی ہیں کہ پنجاب کے وزیراعلی چودھری پرویزالہی اپنی پارٹی کے صدر شجاعت حسین اور اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کا اعتماد کھوچکے ہیں۔ اور جب کہ یہ بات بڑے پیمانے پر مشہور ہے کہ پنجاب اسمبلی میں حکمران اتحاد کی دو اتحادی جماعتوں یعنی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ(ق)کے درمیان سیاسی حکمت عملی، اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی سکیمیں اور سرکاری افسران کے تبادلوں پر گزشتہ چند ہفتوں سے شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں حکمران اتحاد کی دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات وزیر اعلی کی جانب سے ایک رکن اسمبلی، یعنی خیال احمد کو صوبائی کابینہ میں تعینات کرنے کے بعد واضح ہو گئے، وہیں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے عوامی سطح پر اعلان کیا کہ انہیں وزیر کی تقرری اور وزیر اعلی کے اقدامات کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، باوجود اس کے کہ خیال احمد کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حکمران اتحاد کے اندر دراڑ کا تازہ ترین مظہر کابینہ کے ایک رکن یعنی سردار حسنین بہادر دریشک کا استعفی ہے، جبکہ ان کے اور وزیراعلی کے درمیان 16دسمبر کو ملاقات کے دوران تلخ کلامی ہوئی تھی۔ پھر 4 دسمبر 2022 کو ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ تحلیل نہیں کرنے جا رہے ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں حکمران اتحاد کے اندر سنگین دراڑیں اور واضح خرابیاں ظاہر ہوتی ہیں، جو کہ پہلے ہی بہت کم عددی مارجن کے حامل ہیں۔ پنجاب کے گورنر محمد بلیغ الرحمان سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کو صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر اور وزیراعلی کے خلاف پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا دی گئی ہے۔ اب اسمبلیاں تحلیل نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں ہو سکتیں۔ وزیراعلی پنجاب کو اکیس دسمبر بروز بدھ شام چار بجے اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔ پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے اتحادیوں کا ماننا ہے کہ تمام اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف میں اس معاملے پر مشاورت ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فیصلہ وہی ہوگا جو شہباز شریف اور زرداری چاہیں گے۔ سب لوگ بہت جلد خوشخبری سنیں گے۔ اگردیکھاجائے تویہ خوشخبری ملکی مفاد کیلئے کتنی نقصان دہ ہے مگرسیاست کی بات کریں تو کسی چہرے پریشان ہوں گے توکسی کیچہرے پرمسکان سجی ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں