116

ادبی حلقوں میں کرپشن

کرپشن کا لفظ ایسیلفظی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔جو تباہی و بربادی سے اپنا مفہوم جوڑے ہوئے ہے۔ لاقانونیت،بدعنوانی،دھونس دھاندلی اور تنزلی و تذلیل جیسے سارے منحوس و ملعون الفاظ اس ایک ہی صحن سے تعلق رکھتے ہیں۔کرپشن ایسا ناسور ہے،کہ اس کا وائرس جہاں جاتا ہے انسانوں کو”سور”بنادیتا ہے۔جو کسی بھی معاشی معاشرتی،اخلاقی، مذہبی،علمی و ادبی اور سیاسی نظام کو کماد کی طرح اجاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ملکِ پاکستان کو کماد سے تشبیہ دے دیں تو آج اس کے اندر تقریبا ہر شعبہ میں سور گھسے ہوئے ہیں۔ہمارے ہاں سیاسی نظام میں تو کرپشن اسقدر شامل ہوچکی ہے کہ لگتا ہے کہ اگر کرپشن کا وائرس ختم کردیا جائیتو سیاست پر یقینا موت واقع ہوجائے گی۔کئی موضوعات،بحث مباحثے،ختم ہو جائیں گے،نیوز چینلز کی گہما گہمی ماند پڑ جائے گی۔اینکر حضرات کے سامنے “موضوعاتی قحط پڑ جائے گا”ہر سمت بعد از قیامت کے جیسی خاموشی سی ہوگی،گویا “گلشن کا کاروبار رک سا جائے گا”۔مختصر یہ کہ کرپشن نہیں تو سیاست کا مزا ہی نہیں۔کرپشن ہمارے ہاں کھانے میں نمک اور گفتگو میں مذاح کی سی حیثیت رکھتی ہے۔کوئی شک نہیں کہ کرپشن ملک کے وجود کو منشیات کی طرح چاٹتی چلی جارہی ہے۔لیکن پھر بھی ساری رونقیں،بینک اکاونٹس میں دولت کی ریل پیل،نیب کے کڑک بیانات،بھاری کیسز پر عوام کو طفل تسلیاں،حماموں اور تھڑوں پر گرما گرم عوامی تبصرے اسی کے دم سے ہیں۔سیاست تو درکنار، قابلِ شرم بات یہ ہے کہ مذہبی حلقوں کے ساتھ ساتھ تخلیقی و ادبی حلقوں میں بھی کرپشن اپنے رنگ جما رہی ہے۔جہاں دانشور طبقہ بھی علمی ادبی اورفکری سطح پر قلمی کرپشن کرنے لگے تو وہاں اخلاقیات،اقدار اور روایات زوال پذیر ہونے لگتی ہیں۔عوام مایوس،حکمران بے حس و بے لگام اور ادارے بے بس ہوجاتے ہیں۔ملک و معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔کرپشن کو کسی بھی زاویہ پر ترویج دینا خطرناک نتائج سے خالی نہیں ہوسکتا۔ادبی حلقوں میں جوکرپشن ہورہی ہے۔اس میں استاد شاعر ادیب حضرات اپنا کردار بے محابا طور پر ادا کررہے ہیں،جو کہ ان کے منصب پر باالکل نہیں جچتا۔ناتجربہ کار حکما اور عطائی ڈاکٹرز
مرض کی تشخیص نہ کرسکنیکے باوجود بھی اپنی شہرت اور پیشہ وارانہ جھوٹی مہارت کو برقرار رکھنے کے لئے غلط سلط علاج شروع کرکے مریض کو موت کے قریب کردیتے ہیں۔اسی طرح استاد شاعر، ادیب حضرات اپنی سینئرٹی چمکانے کے لئے اپنے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ کی غرض سے تخلیقی صلاحیتوں سے خالی اللوں تللوں متشاعروں، لکھاریوں پر ملمع کاری کرتے اپنے مکتبہ ادب میں داخل کرلیتے ہیں۔مزاجا تخلیق جن پر اترتی نہیں بلکہ اترنا پسند ہی نہیں کرتی ان پر یہ استاد لوگ اپنی عنایات کی اتنی بارش برساتے ہیں کہ ان متشاعروں کا اپنا رنگ اتر جاتا ہے اور استادوں کا رنگ چڑھ کر اتنا چمک جاتا ہے کہ ناقدین کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگتا ہے۔استادی شاگردی میں اصلاح کے طور پر استاد کا پندرہ بیس فیصد کردار توٹھیک ہے،80 فیصد ہی تخلیقی تعاون دراصل ادب کی ترقی کو مسدود کرنے کے مترادف ہے۔ان اساتذہ کی بددیانتی یہ کمال دکھاتی ہے کہ استاد اور شاگرد کی تخلیق اور اسلوب میں فرق کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ایسے شاگردوں کی فکری و فنی حوالہ سے تربیت کرنا تو ٹھیک عمل ہے۔مگر اخلاقا ان باادب”غیر ادبی” شاگردوں کی خاطر فنِ ادب کی بے ادبی نہیں ہونی چاہئے۔اگر شعروادب اور تخلیق کی دنیا میں ایسے ہی غیر تخلیق کار لوگوں کو تخلیق کارمتعارف کرایا جاتا رہا تو اس طرح سے ادبی افق پر شعور اور فکر و آگہی سے خالی ایک ایسی کھیپ نمودار ہوگی جو معاشرہ کی اصلاح کرنے کی قوت و صلاحیت سے عاری اور ادب کے لئے “آری”ثابت ہوگی۔ایسے شاگردانِ خاص صبح دوپہر شام استاد شعرا و ادبا کے قدموں میں پڑے ہوئے ملتے ہیں۔سال مہینوں میں بڑی”استادی” سے ان استادوں سے حاصل تو بہت کچھ کرلیتے ہیں مگر اپنی کج فہمی کی وجہ سے سیکھ کچھ نہیں پاتے۔زندگی کے تلخ و شیریں مشاہدات و تجربات سے گزر کر ابلاغ کے ذریعے
غبارِ دل کو ہلکا کرنا ان کی غرض نہیں بلکہ سخنوروں کی صفوں میں گھس کر مشہور ہونا ان کا مقصد ہوتا ہے۔اگر کوئی کرپشن کے اس سارے عمل کو اساتذہ کی شفقت کا نام دیتو بھی اس عمل سے ادب اور اس کے اصولوں کی توہین ہوگی۔اگربغیرعسکری تربیت کے وردی پہنا کر ہاتھ میں بغیر”گن”کے گن دے کر محاذ پر ناتجربہ کار اور کھوکھلے سپاہی کو کھڑا کردیا جائے تو محاذ پر سپاہی”تباہی” میں بدل جائے گا،محاذ شکست سے دوچار ہوجائے گا۔اسی طرح ادب کے فکری اور نظریاتی محاذ پر کوئی استاد جی اپنی عنایات اوراسلوب کی وردی پہنا کر”بے گن”ہاتھوں میں اپنے گن کی”گن” (قلم)پکڑا کر کھڑا کردیں گیتو استاد جی کے اس طفلانہ فیصلہ کا نتیجہ آنے والی ان نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔جن کی اصلاح کی ذمہ داری بیگن کے ادیبوں کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔مکتبہ شعرو ادب کے اساتذہ اگر شاگرد بھرتی کرتے ہیں تو پھر اصل تخلیق کاروں کی کھیپ تیار کرکے معاشرے کو دیں۔اپنی پوری پوری کتابیں عنائیت کرکے ایسی”بے ادبی”کو رواج نہ دیں۔ادب کو بدلتے ہوئے زمانے کا پرتو کہا جاسکتا ہے۔ادب وہی مفید،متاثرکن اور انقلاب کا حامل ہوسکتا ہے جو معاشرے میں رونما ہونے والی تمام تبدیلیوں کا عکاس ہوگا۔جس ادب میں جمود پایا جائے وہ اپنے وقت کے ساتھ مرجاتا ہے،ماضی کے دفینوں میں شمار ہوکر رہ جاتا ہے۔ایک ادیب کے اندر ایسی صلاحیتیں ہونی چاہئیں کہ وہ لمحہ لمحہ بدلتے حالات کا مطالعہ کرسکے اور اس کے آئیندہ نقصانات و فوائد کی تشریح و تصریح پیش کرسکے۔شعروادب کی دنیا میں شاگرد پیدا کرنا اچھا شگون سہی،مگرکسی خالص تخلیق کار کو جبہ شاگردی عطا کیا جائے،تخلیقی صلاحیتوں سے خالی شاگردوں کو عنایات کا جبہ پہنا کر معاشرے کو مشتبہ و مشکوک سے”بہروپیے”نہ دئیے جائیں۔تخلیقی اور فکری محاذ پرصاحبِ گن،گن والے سپاہی کھڑے کئے جائیں۔تاکہ جغرافیائی سرحدوں کی طرح فکری اور نظریاتی سرحدوں کی بھی مضبوط ہاتھوں سے حفاظت کی جاسکے۔اگر فکری اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری نااہل ہاتھوں میں دے دی جائے،تو جغرافیائی سرحدیں تو تباہی کے بعد ازسرِ نو وجود پاسکیں گی مگر فکری سرحدوں کی تباہی ہمارا نظریہ اور سوچ تک ہم سے چھین لے گی۔اور تاریخ ہمیں راندہ درگاہ کردے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں