94

سیاستدانوں نے ہمیں تجزیہ کاربنادیا

ہمارے ملک میں 2022نے ایسے ایسے کارنامے ہوئے جن کی مثال تاریخ کے اوراق میں لکھی جائے گی جیسے کہ عمران خان پہلی بارتحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھرجانے والے پہلے وزیراعظم بنے تواسی غصے کی وجہ سے اب وہ پنجاب اورخیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کوتحلیل کرنے جارہے ہیںتاکہ حکومت عام انتخابات کرائے اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا واقعی باقی اسمبلیاں توڑی جائیں گی یاپنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات بھی ملتوی رکھے جائیں گے؟خان صاحب نے23دسمبر بروز جمعہ کوپنجاب اورکے پی کے صوبوں کی اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ عمران نے قومی اسمبلی سے انصافین کو نکال کر حکومت کو جو فری ہینڈدیا تھاجس وجہ سے شہباز شریف نے بے فکری سے حکومت کے مزے لوٹے۔نظام حکومت صدارتی ہو یا پارلیمانی یا کچھ اور اگر وہ اپنا رشتہ جمہوریت سے جوڑتا ہے تو لازم ہے کہ وہ عوام کی رائے کا احترام کرے، ووٹ کی طاقت کو تسلیم کرے اور آئین کی پاسداری کرے۔ جمہوری سیاست بالعموم فراخ قلبی کا تقاضا کرتی ہے۔ تحمل، لچک، مفاہمت، مصلحت اوربرداشت اِس کے بنیادی اِجزا ہیں۔سیاستدان اگرکرسی پربراجمان رہیں تویہ ساری خوبیاں ان میں کوٹ کوٹ کربھرجاتی ہیں مگرجیسے ہی وہ کرسی سے اترتے ہیں،شدت پسند،بدلے،الزام تراشی کے ساتھ ساتھ ملکی مفاد کے بجائے اپنے مفاد کے بارے میں سوچنے لگ جاتے ہیں جیسے کہ عمران خان کئی دنوں سے جنرل قمر باجوہ پرمسلسل باتوں کی گولا باری جاری ہے اوراب وہ کہتے ہیں کہ باجوہ کے ساتھ جھگڑا میری ذات کا ہے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں تین ماہ میں الیکشن کرانا نیوٹرل کا سب سے بڑا امتحان ہے اورجنرل عاصم منیرکہہ چکے ہیں کہ وہ نیوٹرل رہیں گے۔ اگر انتخابات 90 دن سے آگے گئے تو یہ آئین پاکستان کی دھجیاں اڑائیں گے۔چودھری پرویز الٰہی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ جب عمران خان مجھے ساتھ بٹحا کر جنرل باجوہ کے خلاف بات کر رہے تھے تو مجھے بہت برا لگا۔ ان کے خلاف اب اگر بات کی گئی تو سب سے پہلے میں بولوں گا، میری ساری پارٹی بولے گی۔ جنرل باجوہ کے عمران خان پر بہت احسانات ہیں، احسان فراموشی نہیں کرنی چاہیے۔ جنرل باجوہ ہمارے بھی محسن ہیں، محسنوں کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ عمران خان اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سے انتشار پھیلانے کے جس راستے پر چل رہے ہیں وہ ایک سیاسی قائد کا انتخاب ہرگز نہیں ہوسکتا۔ انھیں چاہیے کہ وہ مسلسل دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے یہ دیکھیں کہ ان سے کہاں غلطیاں ہوئیںعمران خان کوسیاسی رسہ کشی کے بجائے ملکی مفاد کا سوچنا چاہیے ۔عمران خان نے جیسے ہی دواسمبلیاں تحیل کرنے کااعلان کیاتو پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے اراکین نے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کے بعد صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پر اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد نہیں رہا ہے اور صوبہ پنجاب کے معاملات آئین کے تابع نہ چلائے جارہے ہیں۔ نیز ملکی صورتحال کے زیر اثر انہوں نے صوبہ پنجاب میں جمہوری روایات کا قلع قمع کیا ہے۔ لہٰذا یہ ایوان چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ حزب اختلاف نے گورنر پنجاب سے بھی رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے حکم جاری کریں۔گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہدایت نامہ جاری کردیا ہے۔ گورنر پنجاب کی طرف سے ان کے پرنسپل سیکرٹری کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو لکھے گئے خط میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 130(7) حوالہ دیکر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس 21دسمبر بروز بدھ چار بجے طلب کرکے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہاگیا ہے۔ دوسری طرف گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کی جانب سے احکامات میں کہاگیا ہے کہ یہ عوامی علم کی بات ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑے پیمانے پر خبریں چل رہی ہیں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی اپنی پارٹی کے صدر شجاعت حسین اور
اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کا اعتماد کھوچکے ہیں۔ اور جب کہ یہ بات بڑے پیمانے پر مشہور ہے کہ پنجاب اسمبلی میں حکمران اتحاد کی دو اتحادی جماعتوں یعنی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے درمیان سیاسی حکمت عملی، اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی سکیمیں اور سرکاری افسران کے تبادلوں پر گزشتہ چند ہفتوں سے شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ اب اِس سیاسی ہلچل کا عمران خان کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے اِس کا اندازہ 23 دسمبر کے بعد ہو گا۔اگردونوں اسمبلیاں تحلیل ہوجاتی ہیں اورحکومت کو نئے انتخابات پر مجبورنہیں کرسکتی تو عمران خان کے پاس سوائے سڑکوں پر آنے کے اور کوئی آپشن نہیں رہ جائے گا۔حکومتی وزراء کے بیانات سے واضع ہے کہ اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی۔ پی ڈی ایم کی طرف سے جس طرح عمران خان کو اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے پر اُکسایا جا رہا ہے اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ عمران خان کو دو صوبوں کی حکومتوں سے محروم کرنے کے لیے پلان تیارکرلیاہے۔اب یہ بات توواضع ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہوجاتی ہیںاوراِس فیصلے کے بعد انتخابات ہو گئے تو وہ عمران حکومت لانے میں کامیاب رہیں گے وگرنہ اُنہیں شاید طویل انتظار کرنا پڑے۔ محسوس کیاجارہاتھاکہ عمران خان کہیں پرلچک دکھائیں گے تاکہ ملی معیشت کو سنبھالا جا سکے مگرلچک دکھانا تو دور کی بات ہے اِس بات پر بھی لچک نہیں دکھائی جا رہی کہ ایک میز پر بیٹھنے کا فیصلہ ہی کر لیا جائے۔عمران خان کے خلاف حکومتی وزراء نے افواہیں پھلائیں کہ ان کے کہنے پر پنجاب اورکے پی کے کے وزیراعلیٰ حکومتیں تحلیل نہیں کریں گے مگرگزشتہ جلس میں عمران خان نے اِس بات کو ثابت کرنے کے لئے دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اپنے ساتھ بٹھا کر خطاب کیا تاکہ شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہ جائے۔اِس حد تک تو اُنہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اُن کی اِس وقت بھی اپنی جماعت اور دونوں صوبوں کی حکومتوں پر مضبوط گرفت موجود ہے تاہم اِس کے باوجود23دسمبر تک کے یہ دن بڑے ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔ اپوزیشن اِن اسمبلیوں کو بچانے کے لئے کیا حربے استعمال کرتی ہے ایک وقت تھاکوئی اخبارہمیں یاہم اپنے آپ کوکالم نگارلکھتے تولوگ فیس بک پر پوسٹیں کیاکرتے تھے کہ کونسا جرنلزم کی ہوء ہے جوخود کو کالم نگارلکھتے ہیںمگراب انہیں بتاناچاہتے ہیں کہ ہم صحافت کے شعبہ میں اتنے گم ہوچکے ہیں کہ پیشہ وارانہ تقاضوں کی وجہ سے سیاستدانوں کے طرز عمل پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے ہم صحافی ان کی کہی ان کہی باتوں سے ”اندر کی بات” ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے ”تجزیہ کار” بن جاتے ہیںاس پرسیاستدانوں کے بھی شکرگزارہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں