96

میرے گائوں کے دانشور

عِلمِ طب اور صحت کے اصولوں سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی تندرستی کے لئے خالص ہنسی اور مسکراہٹ بہت ضروری ہے۔خوشی اور ہنسی و مسکراہٹ کے قیمتی لمحات نصیب والوں ہی کو ملتے ہیں۔ہر وقت اداس اور پریشان رہنا انسان کو ذہنی مریض بنا دیتا ہے،اور زندگی بے مزا سی ہوکے رہ جاتی ہے۔خوش رہنے اور ہنسنے مسکرانے کے لمحات زندگی سے تراشتے اور کشیدتے رہنا چاہئے۔زندگی کے غم و الام اور تلخیاں انسانوں توڑ مروڑ کررکھ دیتی ہیں۔بعض انسان ایسی کیفیت میں پھنس کر ہروقت کیمریض بن جاتے ہیں۔جیسے کہ اردو کے معروف شاعر جناب منیر نیازی نے کہا تھا۔
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
انسان جب بے سکونی کی ایسی کیفیت میں پھنس جاتا ہے تو پھر وہ سکونِ قلب کے لئے ہنسی خوشی کی تلاش میں نکلتاہے۔ذکرِ الہی کا تسلسل بھی اس کیفیت کا واضح علاج ہے،مگر اکثر لوگ عام زندگی میں اس سے ہٹ کر علاج تلاش کرتے ہیں۔جو دوستوں کی خوش گپیوں اور بعض انسانوں کی حِسِ مزاح سے ان کو ملتا ہے۔آج کے اس مسائل زدہ اور پرآشوب دور میں اکثر انسانوں پر یہ کیفیت آجاتی ہے۔ایسے دور میں اداس لوگوں کو ہنسانا بہت ضروری ہوچکا ہے۔اور اداس لوگوں کو ہنسانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔شعور کی مشاہداتی آنکھ سے دیکھیں تو آج اکثر انسان ہنسی اور خوشی کی اس نعمت سے محروم دکھائی دیتاہے۔زندگی کے دکھ اور لڑائی جھگڑے نسل در نسل کے بیر پورے پورے خاندانوں اور ساری کی ساری بستیوں کو پریشان کردیتے ہیں۔آج تقریبا ہر گاوں جرائم اور منشیات کی لعنت کی زد میں آچکا ہے۔اگر میں اپنے گاوں کی بات کروں تو میرا گاوں آج بھی خاندانی دشمنی،جرائم اور منشیات کی آسیبی لہر سے بچا ہوا ہے۔آج کے اس دور میں تو کوئی کسی کے اصلاح کرنے کو برداشت نہیں کرتا،اللہ کا کرم ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی میرے گاوں کے مکین،جگت بازی،مذاق اور شرارتی مزاح کو برداشت کرنے کا اتم درجہ کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ازراہِ تفنن کی چبھتی بات پر الجھتے نہیں بلکہ آگ بگولہ ہونے کے بجائے مسرت آمیز رویہ کا
اظہارکرتے ہیں۔کوئی کسی کی بات پر سیخ پا نہیں ہوتا۔گاوں کا تقریبا ہر فرد اس قدرتی عطا سے مالا مال ہے۔دوسری ذاتوں کے لوگ بھی تو ہیں مگر”بھٹی برادری”خاص کر جگت بازی میں “میراثیت” کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔شادی بیاہوں پر آنے والے بھانڈ بھی بھٹیوں سے باقاعدہ اجازت طلب کرکے اپنے اس جگتوں کے میدان میں اترتے ہیں۔بدوملہی کے دادے(میراثی)ہمیشہ رعیہ خاص کے بھٹیوں کی جگت بازی سے خائف اور محتاط رہتے ہیں۔جگت بازی میں خاص کر عبدالحمید کمہارمرحوم،یوسف منہاس مرحوم،میرے والدِ محترم عاشق علی بھٹی مرحوم اپنی آپ مثال تھے۔اور اب اختر پہلوان عرف لڈن اور استاد شوکت بھٹی اس فریضہ کونبھارہے ہیں۔اختر پہلوان لڈن اگر کوئی چار جماعتیں پڑھے ہوتے تو میرا اندازہ ہے کہ وہ ضرور اچھے مزاحیہ خاکہ نگار کے طور پر سامنے آتے۔ان کے گھڑے ہوئے کئی خاکے ہیں جن کے اندر انہوں نے واقعہ کی بناوٹ میں اپنی حسِ مزاح سے خوب کام لیا ہے۔گاوں کے کئی اشخاص کے بارے ان کی مزاحیہ خاکہ بیانی قابلِ داد ہے۔وہ بلا شبہ باقاعدہ لکھاری نہیں ہیں،اگر ان کی حسِ ظرافت اور گفتگو کو تنقیدی نظر سے دیکھیں پرکھیں تو خاکہ نگاری کے تمام لوازمات1.اختصار2.وحدتِ تاثر3.کردار نگاری4.واقعہ نگاری5.منظر کشی6.زبان و بیاں نظر آتے ہیں۔جبکہ استاد شوکت بھی اپنے انداز گفتگو،فنِ گویائی اور مدِ مقابل کو قائل کرنے میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔استاد شوکت شاید ہی سکول کی کوئی جماعت پڑھے ہوں لیکن شعور اور فہم کی پوری جماعت قدرت نے ان کے اندر ودیعت کررکھی ہے۔گفتگو عِلم و فلسفہ پر ہو،مذہبی بحث مباحثہ ہو،دماغ تھکا دینے والا کوئی سائنسی موضوع ہو،ملکی اور بین الاقوامی سطح کی سیاست پر تبصرہ کرنا ہو استاد شوکت اس میں اپنے عِلم و آگہی
کی کرنیں ضرور بکھیرتے ہیں۔وہ گفتگو میں بس ٹانگ نہیں اڑاتے بلکہ بڑے مشکل ترین موضوع پر بھی ان کا راہوارِ عقل فراٹے بھرتا ہوا نتیجہ سے ہمکنار ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔استاد شوکت پیشہ کے اعتبار سے کبھی بڑے کمال کے بڑھئی رہے ہیں۔اب وہ فرنیچر تیار نہیں کرتیبحث مباحثہ میں لوگوں کے ذہنوں میں اپنے عِلمی دلائل کی میخیں لگاتے ہیں۔استاد شوکت کے پاس بیٹھ جائیں تو ان کی باتوں کی ڈور نہیں ٹوٹتی چاہے بندے کی امریکہ کی فلائٹ جاتی ہے تو جائے، اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ان کا انداز بیاں گویا پاوں میں بیڑیاں ڈال دیتاہے۔اختر پہلوان،استاد شوکت اورگاوں کے دیگر مزاحیہ لوگ اپنے اپنے انداز اور اسلوب میں گاوں کے لوگوں کے قلوب و اذہان کو مزاح،ہنسی اورمذاق کی غذا مہیا کررہے ہیں۔ان کی باتیں دلوں کو افسردہ و آزردہ ہونے سے بچاتی ہیں۔استاد شوکت کے مزاح میں خاکہ نگاری کے خواص تو نہیں ملتے البتہ ان کی گفتگو بڑی جامع مدلل اور مفاہیم سے بھر پور ہوتی ہے۔میرے ابا جی عاشق علی مرحوم کی حسِ مزاح سے لذتِ ظرافت لینے کے لئے لوگ ان کو جان بوجھ کر چھیڑتے تھے۔ان کی فی البدیہ جگت بازی سے نقرئی قہقہے اور لطف و ظرافت کے شگوفے پھوٹتے تھے۔ہائے کہاں چلے گئے وہ لوگ۔جو لطف و مزاح کی ہرگام شیرینی بانٹتے تھے۔ایسے لوگ پڑھے لکھے اور ڈگری یافتہ نہ سہی مگر شعری اور نثری ادب میں پائی جانے والی خاص کیفیتِ مزاح کے علمبردار تو ہیں۔اگر یہ لوگ بھی قرطاس و قلم سے وابستگی رکھ چکے ہوتے تو شاید خاکہ نگاروں کی اس صف میں یہ بھی مرزا فرحت اللہ بیگ،خواجہ حسن نظامی،مولوی عبدالحق،رشید احمد صدیقی،آغا حیدر حسن،شاہد احمد دہلوی،سردار دیوان سنگھ مفتون،جوش ملیح آبادی،مالک رام،عصمت اللہ چغتائی و دیگر کے ساتھ شمار کئے جاتے۔یہ ان پڑھ سہی مگر فہم و فراست کے زیور سے آراستہ یہ چراغ نما لوگ میرے گاوں کے مفکر بھی ہیں دانشور بھی۔بہت سارے علوم پر بغیر ڈگری کے لوگ بھی باتوں باتوں میں مفید اور متاثر کن لیکچر دے دیتے ہیں۔ایک تندورچی،ریڑھی بان اور مزدور آدمی بھی معیشت کے بہترین اصول وضح کررہا ہوتا ہے۔یہ لوگ کتاب بین تو نہیں ہوتے البتہ ان کی باتوں تجربوں سے کتابیں وجود پکڑتی ہیں۔اس طرح کے لوگ خود کتاب نما ہوتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں