99

مزدور کی عظمت تسلیم کی جائے

ندی نالوں،دریاوں،نہروں اور راجباوں کے قریبی علاقوں میں موسم سرما میں سردی کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔فطری اور طبعی اثرات کے پیش نظر گیلی اور ٹھنڈی اشیا سے بچا جاتا ہے۔جسم کی حساسیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سلام دعا کی غرض سے کسی سے ہاتھ ملانے سے بھی سردی کی لہر گویا ایک ٹِیس کی طرح پورے وجود میں دوڑ جاتی ہے۔دریا نہریں نالے تو درکنار پانی کے چھوٹے سے حوض کے قریب سے بھی گزریں تو پانی کی ٹھنڈک کا احساس کسی وحشی جنگلی حیوان کی طرح وجود کو آ جھپٹتا ہے۔اس موسم میں ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈالنا تو بِھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ٹھنڈ بعض لوگوں کے جوڑوں میں ٹھہر سی جاتی ہے،جس سے درد ہونا شروع ہوجاتا ہے۔میں نیاینٹوں کے ایک بھٹے پر دیکھا کہ صبح سویرے ایک عورت جمع کئے گئے پانی کے حوض کے پاس گیلی مٹی کو سان رہی ہے۔اس کے پاس ہی ایک خاتون پانی میں کھڑی ہوکر کسی(کہی)کی مدد سے گیلی مٹی باہر نکال رہی ہے۔اس منظر کو دیکھ کر میں گہری سوچ میں گم سا ہوگیا،اور بڑی مغمومیت میں چلا گیا۔سوچ رہا تھا کہ اتنی سردی میں پانی میں کام کرنا کسی موسمی بیماری سے دوچار کرسکتا ہے۔اس موسم میں بخار،زکام،کھانسی اور ٹھنڈ لگ جانے کے سبب دوسرے کئی امراض ہیں جو انسان کی جلدی جان نہیں چھوڑتے۔غریب افراد کے لئے تو اس مہنگائی کے عالم میں عام سا علاج کروانا بھی کسی “بیماری”کے مترادف ہوجاتا ہے۔کنجوس اور سنگدل بھٹہ مالکان کی منت سماجت کرکیدوائی کے لئے پیسے نکلوانا تو بعض اوقات”پتھر سے پانی نچوڑنے”والی بات ہوتی ہے۔محنت مزدوری کرنا بہت اچھا کام ہے۔مگر محنت کرنے والوں کے لئیکسی طرح سے آسانیاں بھی پیدا کرنی چاہئیں۔خاص کر اینٹوں کے بھٹوں پر تو مزدوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے
نِت نئے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔بھٹہ کا نظام باقاعدہ ایک کلچر کی حیثیت رکھتاہے۔ایک بڑی سطح تک تخلیقی و تحقیقی ادب بھٹہ کلچر سے جڑا ہوا ہے بلکہ مزاحمتی و ترقی پسندانہ ادب اینٹوں کی طرح یہاں سے تخلیق پاتا ہے،جو بھٹہ مالکان اور منشی صاحبان کی ظلم وبربریت کو منظرعام پر لاتا ہے۔کئی نظمیں اور افسانے بھٹہ کی چِمنی کے انگڑائیاں لیتے ہوئے دھویں کی عکاس بن کر بھٹہ مالک کے اندر سانپ کی طرح لوٹتی ہوئی منافقت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔بھٹوں پر بچوں سے جبری مشقت اور حبس بے جاہ میں رکھنے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔خواتین کی بے حرمتی کی شرمناک داستانیں، جو بھٹوں پر واقع نشیبوں اور کمروں کے اندر سے وجود پاکر گلی کوچوں اور میڈیا کے منہ چڑھ جاتی ہیں۔اس طرح سے کسی غریب و مفلس کی تضحیک کی داستان زبان زد عام ہوجاتی ہے۔بھٹہ مزدوروں کو معاشرتی اقدار سے کٹی ہوئی کوئی جنگلی مخلوق تصور کیا جاتا ہے۔جیسے ان کے دل میں خواہشات پیدا نہیں ہوتیں۔نہ جانے یہ مجبور و مقہور لوگ صبح سے شام تک اندر ہی اندر اپنے من میں خواہشوں اور امیدوں کے کتنے گھروندے بناتے رہتے ہیں۔لیکن مغرب کی آغوش میں سورج کے سرخ ہوتے ہی بھٹہ مالک کا من کالا کیوں ہوجاتا ہے کہ بھٹہ کا منشی انہیں ناکافی سی اجرت دے کر ان کی معصوم خواہشات کے گھروندوں کو بھٹہ مالک کی کمینگی کی نذر کرکے مسمار کردیتا ہے۔بھٹہ مالکان اور بھٹہ منشیوں کی اپنی اولادیں تو اچھے ماحول میں
رہ کر مہنگے اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں،مگر ان مزدوروں کے بچے جو پڑھنا تو چاہتے ہیں،مگر گھر کی مجبوریاں انہیں سِندھ کے ظالم وڈیروں کی طرح عِلم و آگہی سے دور رکھے ہوئے ہیں۔بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ اور دیگر کئی تنظیموں نے کئی بار اس ناانصافی پر آواز اٹھائی مگر مزدوروں مجبوروں کی بے بسی اور بھٹہ مالکان کی بربریت و حیوانیت کسی نہ کسی شکل میں تاحال برقرار ہے۔سارا دن گرمی سردی کی شدت کے شکار ہوکر بھٹوں پر کام کرنے والے یہ لوگ ہر رات کسی نہ کسی مایوسی اور گھٹن کے بھار تلے سوجاتے ہیں،اندر کی یہی مایوسیاں انہیں دائمی مریض بنا دیتی ہیں۔شاعر نے کسی بھی شعبہ کے مزدور کی بدحالی کی خوب عکاسی کی ہے۔
مِل مالک کے کتے بھی چربِیلے ہیں
لیکن مزدوروں کے چہرے پِیلے ہیں
مزدور بھٹہ کے ہوں یا کسی دوسری فیکٹری کے حقیقتِ حالات ایک ہی ہے کہ”ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات”۔مذہب اسلام میں مزدور کی اہمیت اور فضیلت میں کئی قرآنی آیات،احادیث اور تاریخی مثالیں موجود ہیں،مگر اس کے باوجود بھی اس کی اجرت مناسب اور پسینہ خشک ہونے سے پہلے بروقت ادا نہیں کی جاتی۔انہیں ربوٹس کی طرح استعمال کیا جاتاہے۔کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں مزدور کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے،معیشت کی صحت سے مزدور بڑا گہرا تعلق رکھتا ہے۔اس کی توقیر و عظمت کو ہر طور تسلیم کیا جائے۔اس امر کی ضرورت ہے کہ ضروریات زندگی اور مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھ کر اسے مناسب اجرت بروقت دی جائے۔لیبر سے متعلق قوانین پر عمل کروایا جائے۔تاکہ ہماری ترقی کا ذریعہ یہ مزدور طبقہ مایوسیوں کے اندھیرے سے نکل کر اپنے خون پسینہ کی روشنی میں خوش حال زندگی گزار سکے۔ملک وقوم کے لئے نِت نئے سورج ابھارنے،چاند اچھالنے،قومیت اور وطنیت کو اجالنے اور قوم کا مقدر سنوارنے میں اپنا کردار باخوبی ادا کرتا رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں