130

صحافت میں ایک نیا ریکارڈ

محمدآصف بھلی

ایس ایم ظفر (سید محمد ظفر )پاکستان کے ممتاز ترین قانون دانوںمیں بھی اپنی ایک الگ ،منفرد اور امتیاز ی حیثیت رکھتے ہیں ۔ میرا اُن سے تعارف 1981ء سے ہے جب میں ایم اے صحافت میں داخلہ لینے سے بھی پہلے ہفت روزہ چٹان میں باقاعدگی سے لکھا کرتا تھا۔چالیس سال کے اس عرصہ میںمجھے بھی کئی دفعہ اُن کے انٹرویو ،آمنے سامنے گفتگو اور سوال وجواب کے مواقع میسر آئے اورجب بھی اُن سے ملک کے سیاسی حالات کے حوالے سے مکالمہ ہوا مجھے اُن کی دانشمند انہ گفتگو اور پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر اُن کی عالمانہ باتوں نے حیرت زدہ کر دیا ۔ایس ایم ظفر جنرل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں 1965ء سے لے کر 1969ء تک پاکستان کے مرکزی وزیر قانون بھی رہے ۔قیام پاکستان کی بے مثال جدوجہد میں بھی وہ ایک سٹوڈنٹ کے طور پر شریک رہے۔ 1947ء سے لے کر آج تک پاکستان کی بنتی او ر ٹوٹتی حکومتوںکے وہ عینی شاہد رہے۔پاکستان جن سیاسی اور آئینی بحرانوں کا شکاررہاوہ سب واقعات اور سانحات بھی ان کے چشم دید ہیں۔ اس لیے ان کاعلم صرف کتابی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست کے حوالے سے ان کے گہرے مشاہدات اور تجربات نے اُن کو جہاں دیدہ بلکہ دیدہ ور سیاست دانوں کی صف میں کھڑا کر دیا ۔ قانون کے شعبہ میں تو انہیں ممتاز تسلیم کیا ہی جاتا ہے لیکن پاکستان کی عملی سیاست میں بھی ان کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ۔پاکستان میں پہلی فوجی مداخلت کرنے والے جنرل ایوب خان کی حکومت میں ایس ایم ظفر وزیر ضرور رہے اور پاکستان میں چوتھی فوجی مداخلت کے بعد جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی سے تشکیل پانے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق)کی طرف سے ایس ایم ظفر تقریباً9سال تک سینٹیر بھی رہے لیکن مارشل لاء کا بار بار شکار ہونے والے پاکستان میں ایس ایم ظفر کی ہمیشہ کوشش رہی کہ پاکستان کو زیادہ مدت تک جمہوریت سے محروم نہ رہنے دیا جائے ۔کیونکہ سیاست میں ایس ایم ظفر کے رول ماڈل ہمیشہ قائداعظم رہے ۔ایس ایم ظفر کی ساری سیاسی زندگی اور عملی سیاسی جدوجہد کا مرکز و محور قائداعظم کاوہ روڈ میپ رہا جو قائداعظم نے11اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں اپنی تاریخی تقریر میں دیا تھا۔قائد اعظم نے اپنے تدبر و فراست سے خالص جمہوری جدوجہد کے ذریعے قیام پاکستان کی جنگ جیتی تھی۔ قائداعظم کے تصورات کے مطابق پاکستان سے مختلف پاکستان کا ایس ایم ظفر سوچ بھی نہیں سکتے اس لیے فوجی ڈکٹیٹر ز کی حکومتوں میںشامل رہنے کے باوجود ایس ایم ظفر پاکستان میں ایسی حکومتوں کی تشکیل کیلئے کوشاں اور سر گرم عمل رہے جو صاف اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں عوام اپنے ووٹوں سے خود منتخب کریں۔ حقیقی جمہوریت میں صرف عوام کے ذریعے منتخب حکومت ہی کی شرط نہیں بلکہ ایس ایم ظفر کہتے
ہیںکہ کسی بھی ملک میں حقیقی جمہوریت کی موجودگی اُس صورت میں ہی تسلیم کی جاسکتی ہے جب اُس ملک میں قانون کی بالادستی ہو ہر فرد اور طبقے پر قانون کا یکساں اطلاق ہو، عدلیہ آزاد خود مختار ہو۔ اقلیتوں کو ان کے مذہبی معاملات میںآزادی ہو اور بطور شہری بلا امتیاز مذہب سب کے حقوق یکساں ہوں۔ اور جہاں مقننہ ،انتظامیہ اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ اختیارات سے تجاوز نہ کرے ۔جمہوریت اور اسلام کو جو رشتہ ہے اس حوالے سے ایس ایم ظفر نے اردو اور پھر انگریزی زبان میں دوبڑی فکر انگیز کتابیں لکھی ہیں۔ ایس ایم ظفر کی سب سے پہلی کتاب 1971ء میں شائع ہوئی تھی۔ وہ کتاب بھی میرے زیر مطالعہ رہی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر بھی ایس ایم ظفر نے ایک بڑی ضخیم کتاب تحریر کی ہے۔ یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز ہے۔ جس کے مطالعہ سے ایس ایم ظفر ایک تاریخ دان ہونے کی بھی صلاحیتوں کا علم ہوتاہے ۔ ایس ایم ظفر کی کچھ کتابیں پڑھ کے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ کتابیں کسی قانون دان یا سیاست دان نے نہیں لکھیں بلکہ تاریخ کے ایک ماہر استاد کی تصانیف ہیں ۔ایس ایم ظفر کی کسی بھی کتاب کا اگر آپ مطالعہ کریں تو اس کتاب میں موضوع کی مناسبت سے مشہور مصنفین کی کتابوں کے ہزار وں حوالہ جات ملیں گے۔ جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایس ایم ظفر کی زندگی کے شب و روز کا زیادہ وقت کتابوں کے درمیان بسر ہوا یا پھر صاحب علم لوگوں کی مجلس میں گزرا ۔ مشاہیر کے اقوال ، ارشادات اور تاریخی جملوں کے حوالے بھی ایس ایم ظفر کی تحریر کی گئی کتابوں میں آپ کو پڑھنے کو ملیں گے۔ Quotations in History کے نام سے قابل حوالہ تاریخی اقتباسات پر مشتمل ایک کتاب محترم ایس ایم ظفر نے مجھے گفٹ بھی کی تھی۔چرچل کا ایک مقولہ بھی ایک مرتبہ میں نے ظفرصاحب کی زبان ہی سے سُنا تھا کہQuotations کے مطالعہ سے آپ میں یہ تحریک پیدا ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ مصنفین اور کتابوں میں موجود علم کے وسیع اور گہرے سمندر میں غوطہ زنی کی جائے۔
ایس ایم ظفر کے حوالے سے یہ چند باتیں مجھے آج اس لیے یاد آرہی ہیںکہ گذشتہ کچھ دنوں سے ایس ایم ظفرکی نئی کتاب ’’مکالمہ‘‘ میرے مطالعہ میں رہی۔ یہ کتاب 672 صفحات پر مشتمل ہے۔ صرف سات دن میں میں نے یہ کتاب مکمل طور پر پڑھ لی ہے ۔ یہ کتاب ایک جہانِ حیرت ہے۔ ظفر صاحب کی یہ کتاب متنوع موضوعات پر ہے۔ اس کتاب کا
مطالعہ میں کتاب کے شائع ہونے سے پہلے بھی کر
چکاہوں لیکن جب دوسری دفعہ مکمل کتاب پڑھی ہے تو پھر قندِ مکرر کے معنی سمجھ آئے ہیں۔ ایک اچھا شعر ،ایک قابلِ حوالہ شعر، ایک ناقابلِ فراموش غزل جتنی بار بھی سنی یا پڑھی جائے اُس سے لطف بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا۔ ایس ایم ظفر کی یہ کتاب اُن کے ڈیڑھ سو سے زیادہ انٹر ویوز پر مشتمل ہے انٹر ویو نگار ہمارے دوست ڈاکٹر وقار ملک ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے استاد ہیں۔ ایس ایم ظفر کے ہر انٹرویو کو ایک کالم کی شکل میں مختلف اخبارات میں شائع کیا جاتارہا۔ ایس ایم ظفر خود بھی اخبارات میں کالم لکھتے رہے ہیں۔ اور اُن کا اپناایک وسیع حلقۂ قارئین تھا۔ ایس ایم ظفر سے وقار ملک کے مکالمات کو آپ بولتے کالم بھی قرار دے سکتے ہیں۔ ایس ایم ظفرکے انٹرویوز پر مشتمل کالموں کو آپ صحافت میں ایک نئے انداز سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ کالموں کی یہ نئی قسم وقار ملک کی ایجاد ہے جس کو انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ نبھایا ہے۔ ایک ہی ممتاز شخصیت سے مسلسل 25سال تک مختلف موضوعات پر انٹرویو ز کرنا پھر اسے بڑی مہارت کے ساتھ تحریر کر کے اخبارات میں شائع کروانا اور 25سال سے تو اتر کے ساتھ اس سلسلے کو جاری رکھنا بڑا محنت طلب اور مشکل کام تھاجسے وقار ملک کا جنوں ہی سرانجام دے سکتا تھا۔ ممتاز قانون دان اور سیاسی مفکر ایس ایم ظفر سے اگر وقار ملک کا گہری محبت اور اخلاص کارشتہ نہ ہوتا تو وہ مسلسل رُبع صدی سے انٹرویو ز کا یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکتے تھے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ بہت ممتاز اور مصروف ترین قانون دان ایس ایم ظفر اپنی پیشہ وارانہ اور سیاست کی بے پناہ مصروفیات میں سے انٹرویو ز کیلئے وقار ملک کو اتنا زیادہ وقت دینے پر آمادہ کیسے ہو گئے اور وہ بھی مسلسل25سال صحافت کی تاریخ میں پاکستان میں ایسی مثال شاید ہی کوئی اور ہو ۔ کسی ایک ہی سیاست دان یا قانون دا ن سے کسی ایک ہی صحافی نے 25سال کی مدت میں سینکڑوں کی تعداد میں انٹرویوز کیے ہوں اس کی مثال بھی پاکستان کی صحافت یا سیاست میںتلاش نہیں کی جاسکتی ۔ایس ایم ظفر اپنی خداداد ذہانت اور دانش و بصیرت کے باعث اگر وکالت میں ممتاز و منفرد ہیں تو ان سے سینکڑوں بار مختلف قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر انٹرویوز کر کے وقار ملک نے بھی صحافت کی دنیا میں ایک نیا ریکارڈ رقم کیا ہے۔
برادرم وقار ملک کا وہ صحافتی کا رنامہ جو ایس ایم ظفر سے مکالمہ کی شکل میں ظہور پذیر ہُوا ہے۔ اُس پر وقار ملک کی جانب مجیب الرّحمن شامی ، محترمہ بشریٰ رحمن اور سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے بہت جچے تلے اور موزوں الفاظ میں تحسین کی ہے ۔اُس کے بعد میری کتاب کے بارے میں کوئی رائے یا تبصرہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترداف ہوگا۔ میں نے تو یہ چند الفاظ ظ صرف ایس ایم ظفر کی عقیدت اور عزیز م وقار ملک کی محبت میںلکھ دئیے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں