120

تبدیلی رجیم اور سقوط ڈھاکہ حیرت انگیز مماثلت

خالد بلوچ

یوں تو اپنے آغاز سے ہی پاکستان کی طاقتور ایجنسیوں کے رحم وکرم پہ چلا گیا تھا۔ پاکستان کے عظیم لیڈر بانی قائداعظم کو کئی گھنٹے فٹ پاتھ پر ایمبولنس میں جان بوجھ کر رکھا گیا اور اُن کی موت کی تصدیق کے بعد ہسپتال پہنچا یا گیا۔ اسطرح تواب لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں قتل ۔لگ بھگ گیارہ سالوں بعد پاکستان میں ایوب خان کا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اور جمہوریت کاسرعام قتل عام کر دیا گیا ۔یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کیساتھ افواج او ر مقتدرحلقوں کی زیادتیوں کی ایک طویل لسٹ ہے ۔ بہر حال ایوب خان کے دور ِ اقتدار میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نفرتوں کی خلیج مزید گہری ہوتی چلی گئی ۔ بالآخر تقریباً 12سالہ ایوبی دور کے بعد اقتدار جرنل یحییٰ کے پاس منتقل ہو گیا ۔اور پاکستان میں ایک بار پھر جمہوریت کی صدائیں گونجنے لگیں ۔کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ” اور انتخابات ہوتے اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان سے تقریباً 107 نشستوں پہ جیت گئے ۔ جبکہ مغربی پاکستان سے جناب ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے 92 سیٹس حاصل کیں ۔ لیکن جرنل یحییٰ خان اور اُس وقت کے مقتدر حلقوں نے مل کر ذوالفقار علی بھٹوکواقتدار سونپ دیااور اُس وقت کی بڑی پارٹی عوامی لیگ کو دیوار کیساتھ لگادیا گیا۔ اور پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اسطرح ممکن نہیں تھا کہ ایک بڑی پارٹی کو باہر رکھ کر سسٹم چلایا نہیں جا سکتا ۔یاایسے اقتدار کا عرصہ کسی طور بھی زیادہ نہیں ہوتا ۔بعدا زاں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کو اہل خانہ سمیت قتل کر دیا گیا۔ جوکہ انتہائی خوفناک عمل تھا بالآخر 16دسمبر 1971ء اقتدارکے ایک سال اور اور ایک ہفتہ بعد پاکستان کا مشرقی حصہ جوکہ مغربی پاکستان سے بھی بڑ ا حصہ تھا۔ بھارت کے ہاتھوں شکست کھا کر 90ہزار سے زیادہ خوبی قیدی بنا دیتے ہیں۔
اور پاکستان مغربی پاکستان تک محدود ہوگیا۔ آپکو یاد ہوگا کہ امریکہ کا ایک بحری بیڑہ کبھی بھی ناں پہنچ سکا اور امریکن ہی درحقیقت مشرقی پاکستان میں شکست کا پہلا سبب بنے۔ بہر حال بات ہو رہی ہے کہ 1979ء کے ایک فوجی جرنل یحییٰ خان اور سقوط ڈھاکہ میں کتنی مماثلت ہے ۔ پاکستان جمہوری / غیر جمہوری مارشل لاؤں کی زدمیں رینگتا رہا ۔اور جناب جرنل قمر جاوید باجوہ میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ بعد ازاں 2018ء میں انتخابات میں عمران خان کی تحریک انصاف کی قومی اور تین صوبائی حکومتیں قائم ہو گئیں ۔ یقینا عمران خان کی حکومت بھی بیلنس قائم رکھنے کیلئے بنائی گئی۔ لیکن
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سازشوں میں گھڑی اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت کو فیل کرنے اور اسے سیاسی منظر نامے سے آئوٹ کر نیکی سازشوں میں مصروف ہو گئے ۔ عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کیلئے PDMپاکستان ڈیموکریٹک ایڈیشن بنایاگیا اور مولانا فضل الرحمان جو کہ ایک اسلامی جماعت جمعیت علمائے اسلام کو PDMکا صدر بنا دیا گیا۔ اور پاکستان کے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں رائٹ لفٹ پاکستان دشمن ۔ افواج دشمن تمام اس میں شامل ہوگئے اور اک نئی جدوجہد کا آغاز شروع ہوگیا۔ جبکہ عمران خان اپنی گورننس کو بہتر بنانے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مصروف ہے ۔ جبکہ معلوم ہوا کہ جرنل باجوہ جو کہ بظاہر عمران خان حکومت کیساتھ ہیں۔ لیکن امریکن ایوانوں میں عمران خان حکومت کے خاتمے کیلئے تیزی سے کام شروع کر دیا ۔امریکن سمجھ گئے تھے کہ عمران خان ایک غیرت مند ضدی اور پاکستان کے مفادات پر کسی طور سمجھوتا نہیں کر سکتا ۔ جبکہ افغانستان سے 20سالہ جنگ میں حال ہی میں اسکو دوڑنا پڑا اور بڑی زحمت اٹھانا پڑی وہ اب بھی انتقام میں اندھے ہو چکے۔ بہر حال عمران کی ساڑھے تین سالہ بہترین دور اقتدار کے خاتمہ کیلئے پاکستان کے تمام مقتدر حلقوں نے اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ۔ اور تقریباً 60% ضمانتوں پر رہا قیدیوں کی حکومت قائم کر کے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا خاتمہ کر دیا ۔اور انکو اقتدار سے باہر ہی نہیں کیا۔ جبکہ اسمبلیوں سے بھی باہر ہو گئے ۔اور PDMکی جماعتوں نے خود ہی اپوزیشن بنا لی اور پاکستان الیکشن کمیشن کے کمشنر ،عدلیہ ، میڈیا اور دیگر تمام ادارے بالکل اسی طرح اکھٹے ہوگئے جیسے یحییٰ خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار میں لانے کیلئے ہو تے ۔
یوں جرنل قمر جاویدباجوہ چیف آف آرمی سٹاف کی موجودگی میں ایک ایسی حکومت جس پر کسی بھی قسم کا کوئی کرپشن کا الزام نہیں تھا۔ اور پاکستان کے تمام معاشی اشاریے مثبت جارہے تھے اور پاکستان بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے تھا۔ لیکن چونکہ امریکن کی خواہش کو پورا کر تا تھا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی ۔ ایک نام نہاد جمہوری قید سیٹ اپ میں عمران خان جس کو پاکستان کی کروڑوں عوام نے حمایت کی ۔ انہوں نے مقتدر حلقوں کے ساتھ جمہوری بنیادی
حقوق کو بُری طرح پامال کرتے ہوئے انہیں احتجاج کا حق بھی چھین لیا۔ اور 25 مئی کو ہونے والی ایک احتجاج کی کال پر اس نام نہاد جمہوری امپورٹڈ حکومت نے بُری طرح چادر چار دیواری کا نہ صرف پامال کیا اور 19مئی سے 25مئی تک ہزار وں بے گناہ عورتوں مردوں کی گھروں سے جبری گرفتار یوں کے علاوہ 25 مئی کو پورا پاکستان خود حکومت نے بند کر کے پولیس ، رینجر ز اور فوج کے ہاتھوں تاریخ ساز ظلم وستم کیا ۔ یہاں تک کہ اتنی آنسو گیس کی شیلنگ کہ گھروں میں موجود عورتوں بوڑھوں بچوں سے ہسپتال بھر گئے ۔ بہر حال پاکستان کی عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ الغرض تمام ملی بھگت کون نہیں جانتا تھا۔ یوں عمران کان کو خاموش کروانے کی سازشیں بام عروج پر پہنچ گئیں۔ حتیٰ کہ کنٹرول کرنے کیلئے اس کے قتل کے منصوبے زبان زد عام ہیں ۔ معلوم ہو ا کہ افغانستان میں کوچی نامی گروپ کو عمران خان کے قتل کی سپاری بھی دے دی گئی ہے ۔ موجودہ امپورٹڈ حکومت جو کہ اکثریتی قیدیوں پر مبنی ہے انہوں نے خود ہی اپنے قانون میں تبدیلی کر کے خود کو آزاد اور بری کر وایا ہے۔ا ور اُن پربنے بارہ ارب کروڑ پر کرپشن کے کیسز خودی ختم کر دئیے ہیں۔ جبکہ نیب قوانین میں تبدیلی کر کے کرپشن کو لیگل کر لیا گیا ہے اور پاکستان میں انصاف دینے والے ادارے بڑے سکون سے انہیں دیکھ رہے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہور ہے ۔ جبکہ پاکستان میں ایک بار پھر فوج او رعوام کے درمیان بڑھنے والی نفرتیں اور دور یاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اسکا موازنہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی زیادتیوں اور نفرتوں کے بعد ہو ا تھا۔دونوں میں مماثلت بڑی واضع ہے کہ اُس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو کو لایا گیا۔ اور اکثریتی پارٹی کو باہر رکھا گیا۔ اُس وقت فوجی عامر یحییٰ خان تھے۔ اور نتیجہ مشرقی پاکستان ریت کی طرح ہاتھوں سے نکل گیا۔ آج یہ امریکن تبدیل رجیم میں چیف آف آرمی سٹاف جرنل قمر جاوید باجوہ ہیں۔ او ر بالکل ایک اکثریتی پارٹی سے اقتدار چھین کر تمام کرپٹ اور قیدیوں کے ہاتھوںدے دیے گئے ہیں۔ اور اقتدار پر براجمان کر کے بڑی پارٹی کو دیوار کیساتھ لگادیاہے ۔اور شیخ مجیب الرحمان کی طرح عمران خان کے قتل کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں ۔ اور آج ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی ز رداری ہیں ۔ جوکہ امریکن رجیم کے روح رواں ہیں۔ وقت کا فرق ہے ۔ وہاں مشرقی پاکستان ٹوٹا تھا۔ یہاں جو امریکن پروگرام ہے اُس میں پاکستان کو ڈیفالٹ کر کے جوہری اثاثوں تک رسائی کے بعد پاکستان کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا شامل ہے۔ اور مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان سے شمال اور جنوب کے نکالتا ہے جس پر پاکستان بڑی تیزی سے عمل پیرا ہے اور خدا نخواستہ ہد ف کے قریب انہوں نے پہنچا دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں