193

علامہ اقبال اور سیکولرازم

آصف بھلی

اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک ماہنامہ میں سیکولرازم کی تحسین و ستائش میں لکھے گئے ایک مضمون میں علامہ اقبال کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ۔مضمون نگار کے مطابق علامہ اقبال نے اہل مغرب کے فکرو عمل سے استفادہ کرنے پر زور دیا ہے ۔ مضمون نگار کا یہ بھی کہنا ہے کہ علامہ اقبال نے یورپ کے تمدن کو عقل و فکر کے حوالے سے اسلامک تمدن ہی کے اہم ترین پہلوئوں کا تسلسل قرادردیا تھا ۔ مضمون نگا ر نے اپنا سارا زور قلم سیکولر ازم کی حمایت میں استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ ، امریکہ ، چین،جاپان،کینیڈا ،آسٹریلیا اورساری سیکولر ریاستوں میں کئی کئی مذاہب اور فرقوں کے الگ لوگ پُر امن اور مہذب زندگی بسر کر رہے ہیں کیوں کہ وہاں ریاست اور مذہب کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔مضمون نگار کے نزدیک سیکولر ازم یہ ہے کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہوں اور محض مذہب یا فرقے کی بنیاد پر ریاستی اداروں کی طرف سے کسی کو فائدہ یا نقصان نا پہنچایا جائے ۔مختصر یہ کہ ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے کے معا ملات میں مداخلت کی اجازت نہ دینے کا نام سیکولر ازم ہے ۔آگے چل کر مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ہمیں علامہ اقبال کے کہنے کے مطابق یورپ سے یہ سیکھنا چاہیے کہ اہل یورپ نے اپنے ملک کو مذہبی عداوت اور فرقہ واریت سے کیسے پاک کیا اور عقل و فکر کو کیسے آزاد کیا ۔مجھے حیرت ہے کہ صاحب مضمون نے علامہ اقبال کاتعلق اہل مغرب اور با لخصوص سیکولرازم سے کیسے جوڑ دیا ہے ۔بنیادی بات یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی تعلیمات میں اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا ہے ۔مغرب پر علامہ اقبال کی تنقید کے حوالے سے کتب اور مضامین کی صورت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کی تو ایک کتاب کا نام ہی ”مغرب پر اقبال کی تنقید ہے ”۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق کلام اقبال کا 60فیصد حصہ فرنگ اور تہذیب فرنگ پر حکیمانہ نقدو نظر پر مشتمل ہے ۔اور علامہ اقبال کی یہ تنقید کسی وقتی یا سیاسی محرک کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک مثبت نظریے کے زیر اثر ایک منظم اور مربوط فکر کی مرہونِ منت ہے ۔علامہ اقبال کی ایک کتاب ” ضرب کلیم” کا ذیلی عنوان ہی یوں ہے کہ ” اعلان جنگ عصر حاضرکے خلاف ”۔
پروفیسر آل احمد سرور نے اپنی کتاب ”عرفان اقبال ” میں یہ لکھا ہے کہ مغرب کے خلاف اعلان جنگ کر کے اقبال اکبر الہ آبادی کے درجے پر اتر آئے ہیں ۔ علامہ اقبال مغربی تہذیب کے کتنے شدید اور کیوں مخالف تھے اور علامہ اقبال نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی کے خلاف اپنی پوری قوت کے ساتھ جہاد کیوں کیا اور اس سلسلہ میں اقبال کے موثر اور محکم
دلائل کیا تھے ۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے لیے تو قارئین ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کی کتاب سے استفادہ حاصل کریں ۔ فی الوقت مَیں اس مختصر سے کالم میں صرف یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ علامہ اقبال مذہب و سیاست کی تفریق یعنی سیکولر ازم کے سخت مخالف تھے ۔ سیکولرازم کے پرستار یہ بھی کہتے ہیں کہ سیکولر ازم کامطلب لادینیت اور مذہب دشمنی نہیں ۔اگر یہ درست ہے تو پھر سیکولرازم کے پجاریوں کو پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے مطالبہ سے کیوں دشمنی ہے۔ یورپ کا تو یہ نعرہ ہے کہ ” پوپ کا حصہ پوپ کو دو اور بادشاہ کا حصہ بادشاہ کو دو ” ۔یہ بات اسلام کے نظریہ حیات سے بالکل متصادم ہے ۔اسلام میں مذہب و سیاست میں قطعاً کوئی تضاد نہیں۔ اسلام میں یہ قطعی طور پر گنجائش نہیں کہ مسجد کا تعلق تو اسلام سے ہوگا مگر حکومت و سیاست کی کرسی پر بیٹھنے والے کا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں ہو گا ۔
علامہ اقبال نے بھی یہی فرمایا تھا کہ
نظام پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
سعودی عرب کا بادشاہ ہو یا پاکستان کا وزیر اعظم ، دونوں کیلئے اسلام کی ہدایات اور تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ علامہ اقبال نے فرمایاتھا کہ یورپ نے لا دینیت کو رواج دے کر خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا ۔علامہ اقبال کا یہ بھی ارشاد ہے کہ سیاست ، دین سے الگ ہو جائے تو کاروانِ زندگی اپنی منزل سے محروم ہو جاتاہے ۔
علامہ اقبال نے یہ روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خاں کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ” میں مسلمان ہوں ، میرا عقیدہ ہے اور عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین حل قرآن میں موجو د ہے ۔مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں ۔مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلا ت کا حل اس میں پائیں گے ”۔اقبال کے اس خط سے ثابت ہو جا تا ہے کہ ایک تو مغرب کے اقتصادی نظام کیخلاف تھے۔علامہ اقبال نا عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ دارانہ نظام کے بھی خلاف تھے اور روس کے اشتراکی نظام کے بھی مخالف تھے ۔ علامہ اقبال قرآن کے معاشی نظام کو اگر تمام انسانوں کی
اقتصادی مشکلات کا بہترین حل قرار دیتے تھے تو اس کے علاوہ ہندوستان میں آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے بھی سب سے بڑے داعی تھے ۔ کیوں کہ اسلامی شریعت اور قرآن کے اقتصادی نظام کو نافذ کرنے کیلئے بہر حال ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام ضروری تھا ۔
قائد اعظم نے مارچ 1941ء میں علامہ اقبال کی غیر معمولی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” علامہ اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا اور مجھے اس اَ مر پر فخر ہے کہ اُن کی قیادت میں مجھے ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مو قع مل چکا ہے ۔ میں نے اُن سے زیادہ وفادار اور اسلام کا شیدائی کسی کو نہیں دیکھا ۔” قائدا عظم کے بقول جو شخصیت اسلام کی سب ست بڑی شیدائی ہے اور خود جس اقبال نے یہ فرمایا کہ ”اسلام ایک سوشل نظام ہے جو حریت اور مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے ۔ اس وقت احترام انسانی کیلئے سب سے بڑی نعمت اسلام ہے ۔”کیا وہ اقبال سیکولر ازم کا علمبردار ہو سکتا ہے ۔ سیکولرازم تو ریاست اور سیاست کو مذہب سے الگ رکھنے کانام ہے چاہے وہ اسلام ہو یا کوئی اور مذہب ۔ اور علامہ اقبال کا یہ نقطہ نظر ہے کہ ” اگر اسلام کو بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایک نجی معاملہ سمجھا گیا تو اسلام کے اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی بھی وہی حیثیت ہو گی جو حشر مغرب میں مسیحیت کا ہو اہے ۔”اسی طرح علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ” آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے ، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی ”۔اقبال نے اسلام کو مسلمانوں کا وطن قرار دیا ہے۔اس کا زندہ ثبوت پاکستان ہے ۔یہ پاکستان جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا ۔اسلام کا ہمارے لیے تحفہ ہے ۔پاکستان کی عظمت ، سر بلندی اور ترقی و خوشحالی بھی اسلام سے مشروط ہے ۔ اسلام ہی نے متفرق زبانیں بولنے والوں اور مختلف صوبوں میں رہنے والوں کو ایک مشترک قوم بنایا تھا ۔یہی اقبال کا تصورِ پاکستان تھا ،یہی نظریہ پاکستان ہے ۔پھر اقبال کا سیکولر ازم سے رشتہ کیسے جوڑا جا سکتا ہے ۔علامہ اقبال نے ملک و دولت کو حَرم کی حفاظت کا ثمر قرار دیا تھا ۔اسی لیے ان کا پیغام سیکولر سیاست نہیں بلکہ وہ ہمارے حصارِ دین میں داخل ہونے کا حکم دیتے ہیں ۔ اقبال تو اسلامی نظام سیاست کے اتنے شیدائی ہیں کہ انہوں نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میںخلافت قائم کرنے کی بات کی ہے ۔خلافت کو وہ ناموس اِلہی کا نگہبان قرار دیتے اور بادشاہت کو وہ مکرو فریب بلکہ شریعت میں حرام سمجھتے تھے ۔اسلام سے اقبال کے اسی غیر متزلزل رشتے کا دوسرانام تحریک پاکستان تھا ۔عقل کے اندھے پن کی اگر انتہا بھی ہو جائے تو کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ علامہ اقبال نے ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے الگ اور آزاد ملک کا مطالبہ سیکولرازم کی بنیاد پر کیا تھا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں