111

استحقاق والے

جاوید ملک

جمعرات کا دن اس لئیے اہم تھا کہ سینٹ کی استحقاق کمیٹی میں سینیٹر عرفان صدیقی کی تحریک زیر غور آنی تھی اجلاس سینیٹر طاہر بزنجو کی سربراہی میں شروع ہوا تو عرفان صدیقی کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ انہوں نے ریڈیو پاکستان میں درختوں کی کٹائی کے حوالے سے پوچھا تو ان کی منظم طریقے سے کردار کشی شروع کر دی گئی سینیٹر آصف کرمانی اور سینیٹر منظور کاکڑ نے بھی اس پر برہمی کا اظہار کیا لیکن کہانی اتنی سادہ نہیں تھی جتنی عرفان صدیقی بیان کر رہے تھے سابق ڈی جی ریڈیو عاصم کچھی نے اجلاس کو بتایا کہ درختوں کی کٹائی کے حوالہ سے معزز سینیٹر کی کال ان کو آئی تھی وضاحت کر دی تھی کہ سو کے قریب درخت قواعد و ضوابط کے مطابق نیلام کئے گئے اور ان کی جگہ تین سو نئے پودے لگا بھی دئیے گئے مگر کچھ ہی دیر بعد ٹی وی چینلز پر ٹکرز چلنا شروع ہو گئے کہ درخت اونے پونے بیچ دئیے گئے اگلے دن قومی اخبارات میں خبریں بھی لگائی گئیں ان الزامات کا جواب ریڈیو پاکستان کی سی بی اے یونین نے دیا جس کا ان سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود وزیر اطلاعات کے حکم پر سیکرٹری اطلاعات کے ہمراہ وہ عرفان صدیقی کے پاس گئے اور ان سے معزرت بھی کی لیکن عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ ڈی جی ریڈیو پاکستان رہنے کے قابل نہیں ہیں اور ان کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ رکھا اور اسی بنا پر اگلے روز ہی انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا عاصم کچھی نے اس موقعہ پر اپنی کارکردگی بتاتے ہوئے استفسار کیا کہ معزز سینیٹر بتائیں کہ وہ کیسے اس عہدے پر رہنے کے قابل نہیں۔کمیٹی کے معزز ارکان اور وہاں موجود مجھ سمیت تمام ذرائع ابلاغ کے نمائندگان یہ ساری بحث سن کر حیران تھے کہ کیسے ایک سینیٹر ادارے میں اس قدر مداخلت کر سکتا ہے کہ اس کی خواہش پر ایک ڈی جی کو لمحوں میں ہٹا دیا جائے بغیر انکوائری اونے پونے درخت بیچنے کا الزام عائد کیا جائے اور بعد میں وزارت اطلاعات کی اعلی سطحی انکوائری کی بھی تضحیک اڑاتے ہوئے تمام افسران پر عدم اعتماد کر دیا جائے اور صرف انتقامی کاروائی کے طور پر معاملہ کو ماحولیات سے جوڑ کر پھر سرکاری افسر کو زیر عتاب رکھنے کیلئے تانے بانے بن لئیے جائیں اور پھر بھی انا کی تسکین نہ ہو تو استحقاق کی تحریک پیش کر کے پوری وزارت اطلاعات کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے کیا یہ سارا
عمل درست اور ایوان بالا کے ایک رکن کے شایان شان ہے۔عرفان صدیقی نے ریڈیو پاکستان کی سی بی اے یونین اور بعض صحافیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر اپنی تضحیک کی بھی شکایت سامنے رکھی معزز چئیرمین انہوں نے خود اور سینیٹر آصف کرمانی نے بھی کچھ جملے پڑھ کر سنائے ایک جملہ یہ بھی تھا کہ ان کو اپنے قائد کے جوتے سیدھے کرنے اور جی حضوری کے صلہ میں سینٹ کی نشست ملی میری ذاتی رائے میں کسی بھی کارکن کیلئے اپنے قائد کے قدموں میں جگہ بنانا اور اس کے جوتے سیدھے کرنا سعادت کی بات ہے اس پر تو انہیں فخر کرنا چاہیے نہ کہ اسے اپنی تضحیک گردانیں ایک سیاسی ورکر کے طور پر چونکہ وہ جانبدار ہیں تو اپنے رہبر کے
قصیدے لکھنا ان کیلئے باعث افتخار ہونا چاہیے البتہ اگر وہ بہ طور صحافی غیر جانبداری کا دعوی کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں تو یہ فکری خیانت کے زمرے میں آئے گا اور صحافی تو وہ رہے نہیں پھر یہ جملے تو ان کیلئے فخر کا سبب ہونے چاہیں نا کہ ندامت اور پھر وہ تو اس جماعت سے سینیٹر منتخب ہوئے جو آزادی اظہار رائے کے معاملہ میں انتہائی فراغ دل ہے اسی جماعت کا سینیٹر چند جملوں پر استحقاق کی تحریک لائے گا اور معاملہ ایف آئی اے بھجوانے کی استدعا کرے گا تو جماعت کا پورا بیانیہ زمین بوس نہیں ہو جائے گا۔اجلاس میں ایک اور کال بھی زیر بحث رہی جس سے عرفان صدیقی نے مکمل لا علمی کا اظہار کیا اور سینیٹر منظور کاکڑ نے اس کال کے فرانزک کی بھی تجویز دی کہ کسی نامعلوم شخص نے خود کو شوکت عزیز صدیقی اور عرفان صدیقی کا بھائی ظاہر کرکے عاصم کچھی سے ایک ڈرائیور قمر کو روات ریڈیو اسٹیشن میں تبادلے کا مطالبہ کیا عاصم کچھی تو اب سابق ہو گئے لیکن سنا ہے یہ کال موجودہ ڈی جی ریڈیو پاکستان ثمینہ فر زین کو بھی آئی تھی اور اس بار یہ تبادلہ ہو بھی گیا عرفان صدیقی کے اظہار لاعلمی کے بعد یہ تحقیقات ازحد ضروری ہیں کہ کون ایک سابق جج اور سینیٹر کا نام استعمال کر رہا ہے اور نہ جانے کہاں کہاں
فون گھماتا پھر رہا ہے یہ حساس معاملہ ہے۔اجلاس میں یہ تذکرہ بھی رہا کہ عرفان صدیقی جب ریڈیو سے منسلک تھے تو اس دور کے ڈراموں کی تفصیل مانگی جارہی ہے اس معاملہ میں عرفان صدیقی نے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کی اسٹیشن ڈائریکٹر اسما گل کو جھاڑبھی پلائی یہ کیا قصہ ہے اجلاس میں سب کیلئے حیران کن تھا ابھی کمیٹی کی سفارشات آنا باقی ہیں سفارشات سامنے آجائیں تو اس موضوع پر مزید لکھونگا کیونکہ اب عاصم کچھی کی طرح میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے نمائندوں کا تو استحقاق ہے جو مجروح بھی ہوتا ہے اور اس کے تدارک کیلئے فورم بھی موجود ہے مگر کیا عام آدمی کا بھی کوئی استحقاق ہے ؟عرفان صدیقی نے اونے پونے کے الزامات سے بھی لاتعلقی کا اعلان کر دیا کمیٹی کو ان تمام میڈیا ہاسز کو بھی بلانا چاہیے تھا اور یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ اتنے اہتمام کے ساتھ خبریں کس نے لگوائیں اور خبریں بھی وہ جو بقول عرفان صدیقی توڑ موڑ کر چھاپی گئیں دوران کاروائی ریڈیو پاکستان کی سی بی اے یونین کا بارہا تذکرہ ہوا سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ یونین نے اس کاروائی کا حصہ بننے کی تحریری درخواست بھی کی ہے تو پھر یونین عہدیداران کا موقف سن لینے میں کیا مضائقہ تھا حکومتیں ایک طرف تو اداروں کو خودکفیل ہونے کے درس دیتی ہیں دوسری طرف اگر عاصم کچھی جیسا کوئی افسر دن رات ایک کرکے ادارے کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھاتا ہے تو اسے نظام کی پیچیدگیوں میں الجھا کر اتنی کمیٹیوں کے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ باقی سب افسران کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور یہ ہی بددلی افسران کو کسی بھی انقلابی کام سے روک دیتی ہے وہ پھر وقت ٹپا پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں جس کا نتیجہ اداروں کی بدحالی اور تباہی کی صورت میں ہمارا منہ چڑھا رہا ہے معزز ممبران کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ مزدور یونین اپنے سابق ڈی جی کے ساتھ کیوں کھڑی ہے صحافی کھل کر اس افسر کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ محترم سینیٹر طاہر بزنجو نے درست کہا کہ گزشتہ چار سال سے ملک میں الزامات کی گرد ہی اڑائی گئی ہے یہ ملک عام آدمی کا ہے اور اسے کسی کی بھی انا کے نیزے پر نہیں اچھالا جانا چاہیے میری ذاتی رائے ہے کہ ہر اس شخص کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے اور اس کا دماغی معائنہ کرانا چاہیے جس کی انا،ضد اور ہٹ دھرمی ہمارے ملک اور اس کے اداروں کے وقار سے بھی بڑی ہے یہ قوم کب تک ان لوگوں کی انا کی سولی پر لٹکتی رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں