130

ابن مریم ہوا کرے کوئی

ثمینہ سید

تنکے کا سہی کوئی سہارا نظر آئے
ممکن ہے کسی طور کنارا نظر آئے
ملک عزیز کے حالات ہمیشہ ایسے رہے “دگرگوں” ناقابل اصلاح۔ ہمیشہ کنفیوز صورتحال۔ یہی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کون مخلص ہے۔ کس کے ہاتھ میں وطن کی باگ ڈور ہونی چاہیے؟ ہر طرف یہی سننے کو ملتا ہے۔ “بحران ہی بحران ہے ملکی حالات اس قدر خراب ہیں کہ اصلاح ممکن نہیں””مجھے تو کچھ ٹھیک ہوتا نظر نہیں آ رہا””اس پارٹی والے دہری شہریت کے لوگ باہر پڑھے ،پلے بڑھے ،عیاشی کی عمر بھر ۔پھر اس ملک خداداد کے رہنما بن بیٹھے ان کو کیا پتا ہم غریبوں کے مسائل کیا ہیں؟””اور یہ دیکھنا تقدیر بدل دے گا لیڈر ہے لیڈر “”مذہب کو کبھی خدمت کا موقع ملا ہوتا شرعی نظام نافذ ہوتا تو حالات مختلف ہوتے””غلط ہاتھوں میں رہا یہ ملک ہمیشہ چچ چچ چچ دیکھو کب ختم ہو جائے۔لوٹ گئے کھا گئے لیڈر اسے”یہ تمام فقرے ہم میں سے ہر کوئی روز سنتا یا بولتا ہے ۔سچ پوچھیں تو سیاست پہ بات کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔سیکولر اور لبرل طبقہ جو بگاڑ کی اصل وجہ بن رہا ہے تماشبین بنا ہوا ہے۔ہر تہوار کمرشل ہو گیا۔محبت ،نفرت ،خوشی ،غم شادی ،موت ،عید بقرعید،یہاں تک کہ شب معراج اور شب قدر بھی کمرشل ازم کا شکار ہو گئے دنیا محو حیرت ہے کہ یہ وہ مسلمان ہیں جن کے جذبے طوفانی ہوا کرتے تھے ؟جن کی بہادری اور شجاعت کے قصے قصیدے وجہانقلاب ہوا کرتے تھے۔جو دشمن میں تعداد کے ایک چوتھائی ہو کر بھی فتح مبین کے اہل ٹھہرتے تھے۔ہمارے اندر احتجاج کی طاقت مفقود کیوں ہو رہی ہے ذرا غور تو کریں پیارے اہل وطن حکمرانی کا فقدان ،شخصی پسند اور ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر دوسروں کے حقوق کی پامالی ،قانون کی خلاف ورزیاں قومی مسائل اور وسائل کی تجارت ہمیں تباہی کے جس گڑھے کی طرف لے جا رہی ہے ہم اس سے خود کو بچا بھی سکیں گے یا نہیں؟شاید بچا سکتے ہوں کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا لیکن راستہ تو ہوگا۔نوجوان جو آبادی کا 60 فی صد حصہ ہیں اپنی اصلیت اور بقا کی طرف توجہ دیں اندھا دھند مغربی تقلید نہ کریں اسی ملک و ملت سے ہماری بقا ہے ۔تو خدا را اس پہ توجہ دیں۔ہم ایسے حالات میں ہیں کہ صرف سیاسی بحران اورمعاشی بحران کا شکار نہیں ہیں ذرا غور کیجئے نظریاتی ،اخلاقی اور تہذیبی معاملات کی پستی سے کیسے اٹھیں گے؟اٹھ سکتے ہیں ناممکن نہیں ہے یہ وہ قوم ہے جو زلزلوں ،طوفانوں دہشت گردی کی تباہ کن کارروائیوں،دشمن کی سازشوں،سیلابوں اور خوف و بربریت کی فضا سے نبرد آزما ہے یہاں وہ مائیں ہیں جو اپنے لال اپنے سپوت گنوا کر بھی دوسروں کے بیٹوں کے لئے دعا گو رہتی ہیں۔ بہت کمیاں ہیں بہت سے تضادات ہیں لوٹ مار تشدد ہیبجلی پانی نہ ہونے کے برابرہے ۔ لیکن امید کا دامن نہیں چھوڑا جا سکتا شاید “کوئی ابن مریم “ہو جو ہمیں اس پستی سے اٹھا کر ہمارا اصل وقار ہماری پہچان دے۔جو اس ملک کے سفینے کو سہارا دے تنکے کا سہارا ہی کیوں نہ ہو اچھی نیت سے دے ۔خلوص سے دے تو ذخائر،افرادی قوت آپسی اتفاق کو بروئے کار لا کر ناموس بچا سکتے ہیں۔کیونکہ بہرحال انما اعمال بالنیات۔اعمال کا دار ومدار نیتوں پہ ہے۔نیت صاف رکھیں اور اچھی امید بھی رکھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں