145

منٹو کو شراب نہیں ریاستی بے حسی نے مارا!

فاروق اعظم

یہ جنوری 1948 کی ایک صبح تھی جب بمبئی کی بندرگاہ پر فلم اسٹار شیام اور منٹو کسی افسانوی منظر کی طرح رخصت سے قبل بغل گیر ہو رہے تھے۔ شیام نے پیار بھری گالی دی، سر کہیں کے۔
منٹو نے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا، پاکستان کے۔
منٹو کے خواب اور پاکستان میں زندگی کا بدترین دور:
پاکستان، خوابوں کا ایسا نگر جس کے بارے میں منٹو نے عصمت چغتائی سے کہا تھا کہ وہاں ‘حسین مستقبل ہے۔ ۔۔۔۔۔وہاں ہم ہی ہم ہوں گے۔ بہت جلد ترقی کر جائیں گے۔ کچھ ہی عرصے میں سنہرے سپنے دیکھنے والا بانکا افسانہ نگار خواب نگر کی زرد دھوپ میں کملا رہا تھا۔ انگاروں بھری آنکھیں ویران کھنڈر میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ اجلی مسکراہٹ کی جگہ موت کے روزافزوں سائے پھیل رہے تھے۔ پہاڑ جیسی انا کا مالک منٹو اسی عصمت چغتائی سے لجاجت بھرے لہجے میں بمبئی بلوانے کی عرضیاں بھیج رہا تھا۔ یہاں تک کہ میانی صاحب قبرستان سے بلاوا آ گیا۔
بمبئی سے ہجرت کے بعد منٹو تقریبا سات برس لاہور میں رہے اور بعض حوالوں سے یہ ان کی زندگی کا بدترین دور تھا۔ ریاستی عتاب، لکھنے کے لیے کسی مستقل ٹھکانے کی عدم دستیابی، غیر مستحکم فلم انڈسٹری میں کام کی کمی، پبلشرز کی مفاد پرستی، ریڈیو پاکستان کی پابندی اور ان سب مسائل کی کوکھ سے جنم لیتی معاشی بدحالی نے منٹو کو ایسے راستے پر گامزن کیا جہاں میانی صاحب کا پڑآ ہی واحد جائے پناہ بچتی ہے۔ اس دوران منٹو مسلسل بمبئی کو ایسے یاد کرتے رہے جیسا کوئی بے بس بوڑھا اپنے عہد شباب کی کلکاریاں یاد کرتا ہے۔
منٹو لاہور میں بیٹھ کر بمبئی کو کیوں یاد کرتے رہے؟
اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے نقوش کے مدیر محمد طفیل نے لکھا کہ منٹو اچانک بمبئی کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے ‘ارے یار بمبئی کا کیا پوچھتے ہو۔ اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ بڑے ٹھاٹھ سے دن گزارے ہیں۔ڈیڑھ دو ہزا کی آمدن تھی۔ بڑی قدر تھی۔ ہر کوئی منٹو منٹو کرتا تھا۔
ایسا نہیں کہ بمبئی کی زندگی پریشانیوں سے یکسر خالی تھی۔ لیکن وہاں ایسا بندوبست ضرور تھا کہ منٹو ایک معقول زندگی گزار سکیں، بس اتنی معقول جتنی کی توقع ایسے تیکھے اور منہ پھٹ ادیب سے کی جا سکتی ہے۔ منٹو بمبئی میں مصور کے ایڈیٹر رہے ہوں یا امپیریل فلم کمپنی اور فلمستان کے ساتھ وابستہ، ان کے پاس ہمیشہ بیٹھنے کا ایک صاف ستھرا ٹھکانہ رہا۔
پاکستان کے نامور صحافی خالد حسن نے احمد راہی کے حوالے سے لکھا کہ وہ کہا کرتے تھے ‘منٹو اکثر اپنے پبلشرز سے کہتا کہ اسے کوئی جگہ دی جائے جہاں وہ بیٹھ کر کام کر سکے۔ مگر ایسا کبھی نہ ہو سکا۔ اس کی زندگی بالکل غیر منظم اور بے ترتیب ہو چکی تھی۔ بمبئی میں ہوتا تھا تو صبح اسٹوڈیو چلا جاتا، سارا دن کام کرتا اور پھر شام کی تیاری کرتا۔ وہ اپنے کیٹو پیتا، کھانا کھاتا اور سو جاتا۔ اگلے روز پھر کام پر چلا جاتا۔
مصور میں ‘بال کی کھال جیسے مضامین کے تندوتیز سلسلے کی بدولت منٹو کی فلم انڈسٹری میں خوب دھاک بیٹھ چکی تھی۔ وہ کہانی بیان کرنے اور سیٹھوں کو شیشے میں اتار لینے کے فن سے بھی خوب آشنا تھے اس لیے اکثر و بیشتر محفل میں چھائے رہتے۔ منٹو جیسے محفل آرا شخص کے لیے یہ نشستیں زندگی کا خوبصورت تجربہ تھیں۔
فلم سے معقول آمدن اور عمدہ شراب کا بندوبست بھی ہو جاتا تھا جس کے لیے منٹو لاہور میں ترستے رہے۔
پاکستان میں فلم انڈسٹری کے ابتدائی دنوں میں کام نہ ہونے کے برابر تھا اور منٹو کی معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔ اگرچہ مسعود پرویز نے انہیں بیلی کی کہانی اور اسکرپٹ کے پانچ ہزار روپے ادا کیے لیکن کوئی مستقل سلسلہ قائم نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ان کی کہانی پر محض ایک فلم آغوش بن سکی۔ اب منٹو کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ رسالوں کے لیے دھڑا دھڑ مضامین، کہانیاں اور خاکے لکھیں۔
ایک وقت تھا جب پبلشرز پیشگی رقم ادا کرنے کے باوجود افسانہ حاصل کرنے کے لیے منٹو کی منتیں کرتے تھے۔ اور ان کا معاوضہ پچاس روپے تھا۔ بٹوارے کے بعد دیگر ذرائع آمدن مسدود ہو چکے تھے، مزید ظلم یہ کہ پبلیشرز نے پیسے بھی کم کر دیے۔
فارغ بخاری کے مطابق اس وقت منٹو نے معیار نظر انداز کر دیا اور قلم کے جھاڑو سے اپنے دماغ کے کونے کھدرے تک صاف کر ڈالے۔ ‘اس کے افسانے پچاس روپے معاوضہ کی بجائے تیس، بیس اور آخر میں پندرہ، دس روپے میں جانے لگے۔ وہ نقوش، سویرا اور ادب لطیف کے ساتھ ساتھ شمع، ڈائریکٹر اور فلم لائیٹ جیسے گھٹیا اور سستے پرچوں میں چھپنے لگا۔ ادب سے صحافت پر اتر آیا۔ معاشی بدحالی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ نواب مظفر قزلباش کے روزنامہ منشور کے لیے روزانہ دس روپے کے عوض کالم لکھنے پر مجبور ہو گئے۔
اتنی محنت کے باوجود منٹو کے لیے قرض کی لعنت سے بچنا ممکن نہ تھا۔ مانگے تانگے کے سگریٹ اور یتیم خانہ کی گھٹیا شراب۔
دوسری جنگ عظیم کے وقت جب بمبئی میں سگریٹ اور شراب کا کال پڑا تب منٹو کے پاس اضافی پیکٹ اور ‘فربہ اندام بوتلیں موجود رہتی تھیں۔ وہ نہ صرف خود اڑاتے بلکہ دوستوں کی بھی سیوا کرتے۔ فیض صاحب کے لیے شراب نوشی کی محفل کا بندوبست کرنا ہو یا میرا جی اور راجہ مہدی علی خاں جیسے بلانوشوں کا خرچ برداشت کرنا منٹو کے لیے مسئلہ نہ تھا۔
منٹو کی زندگی کا لاہور میں آنکھوں دیکھا حال ابوالحسن نغمی نے بیان کیا ہے کہ ‘جب ان سے کوئی پوچھتا آپ کونسا سگریٹ پینا پسند فرمائیں گے؟ وہ ہمیشہ کہتے ‘وہ جس میں سے دھواں نکلتا ہو۔
اعلی شراب خریدنے کی سکت اب کہاں تھی سو جم خانہ کی انتہائی گھٹیا اور مہلک شراب پیتے رہے۔ وہ جم خانہ کی شراب کو ‘یتیم خانہ کی شراب کہتے۔ منٹو جیسا شخص ایک پوا منگوانے کے لیے دوسروں کا محتاج تھا۔
شراب منٹو کی زندگی کا ہمیشہ سے حصہ تھی۔ ابتدا میں یہ سرمستی اور شادمانی کا ذریعہ تھی بعد میں ‘اک گونہ بیخودی والا معاملہ بن گیا۔ مرلی کی دھن میں مقدمات اور آئے دن کی چخ چخ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ اس دوران ‘غم غلط کرنے کے لیے کثرت سے شراب نوشی کی۔ وہ شراب نوشی کا عمل اپنے دیگر تمام کام کی طرح خوش اسلوبی سے جاری رکھتے اگر انہیں لاہور میں ڈھنگ سے جینے کا موقع میسر آتا۔ منٹو کے ہر کام میں نفاست تھی جو لاہور کی زندگی نے چھین لی اور اس کا اثر ان کے رہن سہن اور نا ؤنوش پر بھی پڑا۔
کراچی میں اوپر نیچے اور درمیان کی سماعت کے لیے منٹو لاہور سے گئے اور بعد میں ان کی ملاقات مذکورہ مقدمے کے جج مہدی علی صدیقی سے ہوئی۔ اس دوران منٹو نے ان سے ایک سوال کیا کہ ‘آپ نے دوران سماعت مجھے بیٹھنے کے لیے کیوں کہا، مجھ سے تو کسی بھی مجسٹریٹ نے ایسا برتا ؤنہیں کیا۔
منٹو کا گستاخی کی حدوں کو چھوتا رویہ شاید ان کے اندر جھانکنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ عدالتی عملے کے رویے پر یوں حساس ہونے والا منٹو کیسا محسوس کرتا ہو گا جب اسے ریڈیو سے بین کیا گیا ہو گا؟ جب اسے بار بار مقدمات کی پیشیوں میں ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا؟ جب دوست اسے دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہوں گے؟ جب ترقی پسندوں نے اس کا بائیکاٹ کیا ہو گا۔
منیر احمد شیخ کے بقول منٹو کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ لائبریریوں کے دروازے ان کی کتب پر بند ہیں۔ ان کے بقول منٹو کہتے تھے ‘میرے مرنے کے بعد اگر لائبریریوں کے دروازے میری کتابوں پر کھل گئے تو مجھے قبر کے اندر بہت دکھ پہنچے گا۔
ایسا لگتا ہے لاہور نے انہیں اپنایا نہیں۔ ان کے نام پر کسی قومی عمارت کا نام نہ ہی کوئی شاہراہ یا ادارہ ان سے منسوب کیا گیا۔ لاہور میں ان کی اکلوتی نشانی میانی صاحب قبرستان میں ان کے نام کی تختی ہے۔
دہلی ریڈیو اسٹیشن پر سو سے زائد ڈرامے لکھنے والے منٹو کو نہ صرف ریڈیو پاکستان سے بین کیا گیا بلکہ ان کی موت پر رسمی پروگرام کا تکلف تک نہ کیا گیا۔
ربی سنکر بل کے شاہکار ناول دوزخ نامہ، جسے اردو میں انعام ندیم نے انتہائی خوبصورتی سے ترجمہ کیا، میں منٹو مرزا غالب کو اپنی زندگی کے آخری ایام کی کتھا سناتے ہوئے کہتے ہیں ‘میں نے توقع کی تھی کہ پاکستان میں مجھے افسانہ نگار کے طور پر عزت ملے گی، میں نے ہندوستان سے یہ سوچ کر ہجرت کی تھی کہ پاکستان میرا وطن ہے لیکن مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ مجھے ایک آوارہ کتے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔
معاشی بدحالی اور مقدموں کے مصیبت سے وہ ایسے زچ تھے کہ مرلی کی دھن میں لکھا ‘میرا دل اس قدر کھٹا ہو گیا کہ جی چاہتا تھا اپنی تمام تصانیف کو آگ میں جھونک کر کوئی اور کام شروع کر دوں جس کا تخلیق سے کوئی علاقہ نہ ہو ۔۔۔ چنگی کے محکمے میں ملازم ہو جاؤں اور رشوت کھا کر اپنے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا کروں۔
مہذب دنیا میں چنگی کے ملازمین کی بھی اس سے زیادہ عزت ہو گی جو ہم نے اپنے سب سے بڑے فکشن نگار کو دی۔ پھر بھی اگر آپ کو لگتا کہ ان کی موت کثرت مے نوشی سے ہوئی تو منٹو کے بقول آپ بہت بڑے چغد ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں