116

کھیلن کو مانگے چاند رے!

ذوالفقار علی شاہ

آج کی فلموں کا تو پتا نہیں لیکن ستر 80کی دہائی کی کئی فلموں میں یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ والدین نے اپنی بیٹی یا بیٹے کی پرورش انتہائی لاڈ پیار سے کی جس کا نتیجہ بگاڑ کی شکل میں نکلا ۔چونکہ اولاد لاڈلی تھی اس لئے شروع شروع میں تو ماں باپ نے کچھ نہیں کہا لیکن پھر ایک منظر یہ ہوتا تھا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ جب اس بگڑی اولاد کے منہ پر پڑتا تھا تو چونکہ یہ اس کی زندگی میں پہلی مرتبہ ہوتا تو وہ حیران و پریشان ہو کرسب کو دیکھتا کہ یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے لیکن جب تھوڑی دیر بعد اسے ہوش آتی تو پھر وہ کبھی گھر کی چیزیں توڑتا تو کبھی سب سے ناراض ہو کر الگ تھلگ ہو جاتا ۔ایسا ہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ وہ تو فلم کے مناظر تھے اور اس میں انھوں نے ہر حال میں فلم کے آخر میں سب اچھا اچھا دکھا کر فلم کا دی اینڈ کرنا ہوتا ہے لیکن خان صاحب جو قوم کو جو فلم دکھا رہے ہیں اس کا اینڈ کیا ہو گا کسی کو کچھ پتا نہیں ہے ۔ خان صاحب اور فلم کی لاڈلی اولاد کی کہانی میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ۔ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اس لئے ماں باپ اور بہنوں کے لاڈلے تھے ۔ بہت زیادہ امیر نہ سہی لیکن متمول گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔ والدین نے پڑھائی کے لئے لندن بھیجا اور تعلیمی میدان سے فارغ ہوتے ہی کرکٹ کی دنیا میں آ گئے ۔ماجد خان اور جاوید برکی ایسے کرکٹ اسٹار قریبی عزیز تھے اور خود عمران خان میں ایک اچھے کرکٹر کا ٹیلنٹ موجود تھا اس لئے پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی ۔ٹیم میں ایک بیٹس مین کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے
لیکن اس میں کامیاب نہ ہوئے تو باؤلنگ کی لائن میں آ گئے اور پھر پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا اور سپر اسٹار بن گئے لیکن چونکہ فطرت میں شروع دن سے لاڈلا پن تھا اس لئے جب موقع ملا تو اس لاڈلے پن نے اپنا آپ دکھایا ۔ یہ غالباََ 1983کی بات ہے کہ جب سری لنکا کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا تو اس نے پہلادورہ پاکستان کا کیا ۔ اس دورے کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے جاوید میاں داد کو کپتان بنایا تو جس طرح عمران خان اب بھی اپنے خلاف ہونے والے سیاسی فیصلوں کو ماننے کے لئے کسی طور راضی نہیں ہوتے اور ریلو کٹے بن کر روند مارنے پر آ جاتے ہیں تو اس وقت بھی انھوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے نو سرکردہ کھلاڑیوں کو ساتھ ملا کر بغاوت کر دی اور کھیلنے سے انکار کر دیا اور جیسا کہ عرض کیا کہ ان کی قسمت اچھی رہی ہے کہ ہر دور میں کسی نہ کسی بڑے کے لاڈلے رہے ہیں تو اس دور میں بھی یہ جنرل ضیاء کے لاڈلے تھے لہٰذا جنرل ضیاء کی مداخلت سے جاوید میاں داد کو کپتانی سے ہٹا کر انھیں کپتان بنایا گیا اور اس طرح پاکستان کرکٹ ٹیم میں خان صاحب کی قیادت میں جو بغاوت ہوئی تھی وہ ختم ہوئی اور تمام کھلاڑی واپس ٹیم میں آ گئے ۔
سیانے کہتے ہیں انسان کی عادتیں تو بدل سکتی ہیں لیکن فطرت نہیں بدل سکتی ۔ عمران کی تو نہ عادتیں بدلی ہیں اور نہ ہی فطرت ۔ انھیں آج بھی کسی نہ کسی بڑے کی تلاش رہتی ہے کہ جس کی آشیر باد ان کے ساتھ ہو اور ان کے لاڈ اٹھائے جاتے رہیں اور یہ انوکھے لاڈلے جب کھیلن کو چاند مانگے تو فوراََ چاندکیا تارے بھی آسمان سے لا کر ان کی گود میں رکھ دیئے جائیں لیکن اس مرتبہ کچھ انہونی ہو گئی کہ جن کا برسوں سے خان صاحب کے ساتھ لاڈ پیار کا رشتہ تھا اور جو ان کے سارے نخرے اٹھا رہے تھے انھوں نے جب دیکھا کہ ان کے سمجھانے اور بار بار سمجھانے کے باوجود بھی خان صاحب امور مملکت میں جو بگاڑ پیدا ہو رہے ہیں انھیں درست کرنے کو تیار نہیں تو انھوں نے تنگ آ کر جب عدم اعتماد کا ایک تھپڑ رسید کیا تو بعینہ فلموں کے منظر کی طرح پہلے تو خان صاحب کو یقین ہی نہیں آیاکہ ان کے ساتھ بھی یہ سلوک ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آخر تک پر اعتماد رہے کہ وہ فائول پلے کر کے عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنا دیں گے لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو انھیں سمجھ نہیں آئی کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہو گیا ہے ۔انھوں نے جب پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو کرنے والوں نے فلموں والا ڈائیلاگ ہی گوش گذار کر دیا ہو گا کہ کاش یہ تھپڑ بہت پہلے مار دیا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔ در حقیقت جب کسی بھی لاڈلے کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو اس کی یہی کیفیت ہوتی ہے اور کبھی الفاظ ہوتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا ‘‘ اور کبھی ان الفاظ میں دہائی دیتا ہے کہ ’’ میں نے ایسا کیا قصور کیا تھا کہ مجھے نکالنے کے لئے رات بارہ بجے عدالتوں کے تالے کھولنے پڑے ‘‘
لانگ مارچ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور وہ جو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جلوس کو خیبر پختون خوا سے لانے کے دعوے کئے جا رہے تھے وہ سب ٹائی ٹائی فش ہو گئے اور جس دن لانگ مارچ ہونا تھا اسی دن صبح دنیا نیوز پر یہ خبر بریک ہو گئی تھی کہ پشاور سے تحریک انصاف کے تین مرکزی رہنماہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد پہنچے اور مقتدر حلقوں سے محفوظ راستوں کی گذارش کی جو حکومت کی جانب سے انکار کے بعد نہیں مل سکی ۔ہم نے اپنے گذشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ’’ ۔تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ کب تک چلے گا اس کا تو کوئی علم نہیں لیکن حکومت کی جانب سے لانگ مارچ پر پابندی سے تحریک انصاف کی قوت کا اندازہ ضرور ہو جائے گا ‘‘ قوت کا اندازہ تو ہو گیا اس لئے کہ جو فاتح ہوتا ہے اورجسے اپنی فتح کا مکمل یقین ہوتا ہے وہ کبھی کسی دوسرے کی شرائط پر صلح نہیں کرتا اور پھر خان صاحب ایسا ضدی اور میں نہ مانوں والی ذہنیت کا بندہ اگر لانگ مارچ کو دھرنا دیئے بغیر ہی ختم کرنے پر راضی ہو ا تو اس کی کوئی تو وجہ ہو گی اور وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں لاہور اسلام آباد اور کراچی میں یقیناکچھ گڑ بڑ ہوئی لیکن مجموعی طور پر پورے ملک میں امن رہا اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کہ جہاں پر تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اور لانگ مارچ کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی وہاں سے بھی عمران خان کے حسب منشا لوگوں کی تعداد لانگ مارچ میں شامل نہیں ہوئی اور اس کے بعد پنجاب کہ جہاں پر تحریک انصاف کو مقبولیت کا دعوی ہے تو لاہور کے علاوہ کہیں سے بھی کوئی قابل ذکر مزاحمت نظر نہیں آئی اور لاہور میں بھی یہ حالت تھی کہ راوی پل کے نزدیک بتی چوک کے علاقہ میں کچھ ہلہ گلہ ہوتا رہا لیکن باقی پورے شہر میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی اور یہی حال کراچی کا تھا کہ نمائش چورنگی کے علاوہ باقی ہر جگہ شانتی ہی شانتی تھی ۔اب خان صاحب نے حکومت کو ایک اور ڈیڈ لائن دی ہے کہ چھ روز میں اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی تاریخ دیں ورنہ وہ دوبارہ لانگ مارچ لے کر اسلام آباد آئیں گے ۔ گذارش ہے کہ لانگ مارچ اور پھر طویل عرصہ کے لئے دھرنا یہ سب بچوں کے کھیل نہیں کہ ہر دوسرے دن کئے جائیں اور جہاں تک حکومت کی بات ہے تو وہ کہتے ہیں کہ خان صاحب ’’ بھاڑ میں گئی نوکری ٹوٹ گئی بندوق پھر ملے گی نوکری پھرچلائیں گے بندوق ‘‘ رانا ثناء اللہ بھی یہی کہتے ہیں کہ بھاڑ میں گیا لانگ مارچ ٹوٹ گئی بندوق پھر آئے گا لانگ مارچ تو پھر چلائے گے بندوق ‘‘ خان صاحب خاطر جمع رکھیںآپ جب بھی آئیں گے قوی امید ہے آپ کا سواگت اس سے بھی بہتر انداز میں کیا جائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں