96

پاکستان کی سیاست میں اخلاقی روایات، ماضی اور مستقبل

ظفر محمود وانی

پی ٹی آئی کے کارکنان کی طرف سے اپنے پارٹی سربراہ عمران خان نیازی کی طرف سے ملتان جلسے میں مریم نواز شریف کے بارے میں کئیے گئے انتہائی گھٹیا اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے، کے دفاع اور جواز میں ماضی کے ایک واقعے کا حوالہ دیا جا رہا ہے، جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی جعلی قابل اعتراض تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھنکوائی گئیں، اور پارلیمنٹ میں محترمہ کے بارے میں انتہائی قابل اعتراض اور شدید بدتمیزی پر مبنی الفاظ استعمال کئیے گئے تھے، نوجوان نسل جو شاید ان دنوں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، یا شیر خوار تھے، کو اس واقعے کے اصل حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے، تاکہ ان کو اپنی ہی پارٹی کے اصل معماروں اور آج کے بدزبان ترجمانوں اور ان کے سرپرستوں کے اصل مکروہ کردار سے آگاہی ہو سکے۔
حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ہیلی کاپٹر سے محترمہ کی وہ جعلی قابل اعتراض تصاویر اس وقت ایک خفیہ ادارے کے سربراہ نے پھنکوائی تھیں، یہ جعلی تصاویر بنوانے اور پھنکوانے کا تمام کام موصوف کی براہ راست نگرانی میں سرانجام دیا گیا، اور اس ہیلی کاپٹر کا کرایہ تک موصوف نے ہی ادا کروایا، جس طرح بعد میں مبینہ طور پر جناح پور کے نقشے چھپوا کر اپنے اس وقت کے مخالفین کے خلاف پراپیگنڈے اور کارروائیوں کے لیے استعمال کروائے گئے تھے، جن کا اعتراف بعد میں برگیڈئیر (ر) امتیاز نے میڈیا کے سامنے کیا تھا۔
مرحوم جنرل پیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد قائم کرنے کا بھی کریڈٹ لیا کرتے تھے، اور انہوں نے ہی اس اتحاد کی قیادت کو یونس حبیب اور اسامہ بن لادن سے فنڈنگ بھی کروائی تھی، بعد میں یہ تمام حقائق ان کے کرداروں کی ہی زبانی سامنے آ گئے، جب ان ہی ذمہ داران کی طرف سے ان کارناموں کا فخریہ انداز میں کریڈٹ لیا جاتا رہا۔ بعد میں جب نواز شریف کی حکومت کو معزول کروایا گیا تو یہ الزام بھی اسی طرح نواز شریف پر عائد کیا گیا، جیسے جنرل مشرف کے دور میں کارگل کی جنگ کے آخری دنوں میں بھارت کے اوور ری ایکٹ کی وجہ سے جب محاذ پر شدید مشکلات اور خطرات درپیش ہوئے، اور بھارت پاکستان پر بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کی تیاریاں کرنے لگا، تب منت سماجت کر کے نواز شریف کو امریکہ بھیجا گیا، کہ وہ کسی طرح امریکہ کو بیچ میں ڈال کر جنگ بندی کروائیں، اور جوں ہی نواز شریف امریکہ کے لیے روانہ ہوئے، تو پیچھے فوری طور پر عوام کے سامنے یہ جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا، کہ ہم تو کشمیر فتح کرنے اور سیاچن واپس لینے والے تھے، لیکن نواز شریف کی وجہ سے ہم جنگ بندی پر مجبور ہو گئے، یہ سب حقائق جنرل ( ر) شاہد عزیز کی کتاب یہ خاموشی کب تک میں تفصیل سے رقم ہیں، اس کے علاوہ اس وقت کے کور کمانڈر مرحوم جنرل (ر) جمشید گلزار کیانی کا تفصیلی انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے، ان کے علاوہ اس وقت کے سینئیر جرنیل محترم بٹ صاحب بھی اس معاملے میں ریکارڈ پر ہیں۔
یہ تمام کھلے بیانات ان تمام اصل حقائق و واقعات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں انتہائی توہین آمیز الفاظ ادا کرنے والا شخص اور کوئی نہیں، بلکہ آج عمران خان نیازی کا دست راست بدتمیز، بدزبان شیخ رشید ہی تھا، یہ بدتمیزی اور بدزبانی ان ہی اشخاص اور اس پارٹی یعنی پی ٹی آئی کی ہی روایت اور عادت ہے، جس پر شرمندہ ہونے یا معذرت کرنے کے بجائے اس بدزبانی اور بدتمیزی کا پارٹی قیادت اور کارکنان کی طرف سے دفاع کیا جاتا ہے، اور جواز گھڑے جاتے ہیں۔
دوسری طرف حمایت یا مخالفت کے قطع نظر نواز شریف نے کبھی اپنی کسی تقریر یا بیان میں کسی کے لیے بھی کبھی نازیبا الفاظ استعمال نہیں کئیے، حالانکہ ان کی جماعت کے کارکنان کو ان سے یہ شکایت ہی رہی، کہ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں انتہائی توہین آمیز رویے اور الفاظ کا وہ اس سخت زبان میں کبھی جواب نہیں دیتے، جس کے وہ بدتمیز اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے اور اقدامات کرنے والے لوگ دراصل مستحق تھے۔ اپنے ذاتی کردار کے پس منظر کے ساتھ عمران خان جو زبان استعمال کر رہے ہیں، وہ ان کے ماضی اور حال کے کردار کے علاوہ ان کی تربیت کے ماحول کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
ان کے اور ان کی اہلیہ کے بارے میں الزامات پہلے تو قتل کر دی جانے والی ماڈل قندیل بلوچ کی زبانی سامنے آئے، جب انہوں نے کافی عرصہ قبل
نام لے کر بنی گالہ میں آمد و رفت کا ذکر کیا، اور اس بیان کے کچھ ہی دن کے بعد اس کو پراسرار طور پر قتل کروا دیا گیا، اس کے بعد عمران خان نیازی صاحب کی سابقہ اہلیہ محترمہ ریحام خان نے اپنی کتاب میں جادو ٹونے میں خان صاحب کی گہری دلچسپی کا تفصیل سے ذکر کیا، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے، کہ محترمہ ریحام خان کو یہ کتاب شائع ہونے سے پہلے اس بارے میں مقدمات قائم کرنے کی دھمکیاں نہ صرف پاکستان میں پی ٹی آئی کے لیڈرز اور کارکنوں کی جانب سے دی جاتی رہیں، بلکہ لندن میں مقیم عمران نیازی صاحب کی پہلی اہلیہ محترمہ جمائمہ گولڈ سمتھ نے بھی یہ کتاب سامنے لانے یا شائع کرنے پر لندن میں مقدمہ قائم کرنے کی دھمکی دی لیکن جب محترمہ ریحام خان نے کسی قسم کی دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کتاب کا ویب ایڈیشن شائع کیا، تو حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی کی طرف سے دھمکیاں دینے والوں پر مکمل خاموشی چھا گئی اور محترمہ جمائمہ گولڈ سمتھ تک نے مکمل خاموشی اختیار کر لی، کیونکہ یہ سب اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر اس کتاب کو عدالت میں چیلینج کیا جائے گا تو اس میں تحریر تمام حقائق کی تصدیق ہو جائے گی، اس سلسلے میں لندن کی ایک عدالت میں روز نامہ دنیا کی طرف سے اس کتاب کے مندرجات کو جھوٹا قرار دینے کی خبر دینے پر روز نامہ پر عدالت کی طرف سے ہرجانہ بھی عائد کر کے محترمہ ریحام خان صاحبہ کو دلوایا گیا۔
پاکستان کی سیاست میں میثاق جمہوریت کے بعد سے خصوصا ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ سیاست میں اچھی روایات اور رواداری فروغ پانے لگی ہے، لیکن جمہوریت کی کوئی بھی ایسی خوبی جو عوام کو متوجہ اور قائل کرے، اور اچھی جمہوری روایات کو فروغ
دے، یہاں غیر جمہوری طاقتوں کو کسی صورت میں گورا نہیں، لہذا منصوبہ بندی سے ایک ایسی سیاسی جماعت کی اور اس کی کسی بھی قسم کی اخلاقی صفات سے عاری قیادت کی تشکیل کروائی گئی، اور پاکستان کی سیاست کے معروف ترین لوٹے جن کا ریکارڈ ان ہی غیر جمہوری طاقتوں کے ہی اشاروں پر اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہر پارٹی میں رہنے اور پھر مالکان کے ہی اشاروں پر اسے چھوڑنے کا رہا ہے، ان تمام کو اس تشکیل شدہ پارٹی میں بھان متی کے کنبے کی طرح جمع کروایا گیا، ان کی ماورائے قانون سرپرستی کی گئی، ان کی سہولت کاری کے لیے ہر ادارے کو مینیج کروایا گیا، ان کے خلاف بدعنوانی کے تمام مقدمات ختم کروائے جاتے، ان کے اوپر واجب الادا قرضے ناجائز طور پر معاف کروائے جاتے رہے، اور یہ سازشیں آشکار کرنے والے ہر شخص یا افسر کو نشان عبرت بنا کر راستے سے ہٹا دیا گیا، جسٹس صدیقی کی مثال سامنے ہے جن کی ریٹائرمنٹ ہو گئی، لیکن سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کی اپیل کی شنوائی نہ ہو سکی، فارن فنڈنگ کیس کو سات سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے، اور ابھی تک کسی کی جرات نہیں ہو رہی کہ اس پر فیصلہ سنائیں، سابقہ حکومت کے ڈپٹی سپیکر پچاس ہزار جعلی ثابت ہوئے ووٹوں باوجود چار سال سے سپریم کورٹ کے سٹے پر ہیں، اس سٹے کو ختم کر کے اس مقدمے کی کارروائی کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے کے بھی کوئی نیت یا آثار دکھائی نہیں دیتے۔
بی آر ٹی پشاور کے پراجیکٹ پر کسی بھی قسم کی تحقیقات تک سے باقاعدہ عدالتی فیصلے کے ذریعے روک لگا دی گئی، حالانکہ سپریم کورٹ کا ہی مقرر کردہ دو رکنی بنچ اس معاملے کی (صفحہ9 بقیہ نمبر1)
تحقیقات کا حکم دے چکا تھا، لیکن اس وقت کے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار مقرر کردہ بنچ کا یہ فیصلہ آتے ہی، ہنگامی طور پر پشاور پہنچے، اور اس بنچ کو تحلیل کر دیا، اور ساتھ ہی اس پراجیکٹ کی ہر قسم کی تحقیقات کی ممانعت کا حکم صادر کر دیا، یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا انوکھا فیصلہ تھا، جس میں اپنے ہی مقرر کردہ بنچ کو اس کا فیصلہ آ جانے کے بعد تحلیل کیا گیا، کسی مہذب ملک میں یہ واقعہ اس طرح سے پیش آتا تو طوفان کھڑا ہو جاتا لیکن یہاں بقول پی ٹی آئی کے ترجمان اور وکیل محترم بابر اعوان کے ککھ وی نہ ہلیا۔
سپریم کورٹ کے سینئیر ترین جج اور اس کی فیملی کے بارے میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کی پاداش میں، جس کی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کے بجائے الٹا نامزد ذمہ داروں کو ترقی یاب کیا گیا، یہ فیصلہ ہی محترم جسٹس صاحب کا ایسا جرم بن گیا، جس کی پاداش میں ان کے خاندان تک کو ناجائز طور جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا گیا، اور اس دن کے بعد ان کو کسی بھی مقدمے میں کسی ایک بھی بنچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ حال ہی میں معزول ہونے کے بعد عمران نیازی صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف اس ریفرنس کو اپنی غلطی اور کسی طرف سے دباو اور غلط معلومات کی فراہمی کو قرار دیا، یہ اعتراف بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔
اب اس حالیہ صورتحال سے پاکستان کے باشعور عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے جمہوری نظام کا ہانکا کر کے اس کو کس طرف لے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے، لیکن ان عناصر کو جو عوام کے حق رائے دہی، اور جمہوریت کو یرغمال بنا کر ملک و قوم کو کسی بھی شکل میں براہ راست یا بالواسطہ آمریت یا فسطائیت کا شکار بنانا چاہتے ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پچاس، ستر اور نوے کی دہائی نہیں، پاکستان کی اس سیاسی تاریخ اور جمہوریت اور عوام کے حق رائے کے خلاف سازشوں میں مصروف اور ان اس عمل میں آلہ کار عناصر کے اصل چہرے اور ان کے عزائم قوم کے سامنے واضح ہو چکے ہیں، اور اس معاملے میں حتمی مرحلہ قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے، اور دیکھیں مستقبل قریب میں حالات کس طرف کو جاتے ہیں، ایک طرف وہی سازشیں، استحصال، پسماندگی، دشمنوں کے عزائم کی تکمیل، تباہی و بربادی اور دائمی تاریکی ہے، اور دوسری طرف ایک نئے عزم سے ترقی خوشحالی اور روشن مستقبل کی طرف بڑھتا ہوا جمہوری پاکستان ہے۔ اب دیکھیں ان دونوں مناظر میں سے پاکستان کے عوام کی قسمت میں کیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں