94

کون کتنے پانی میں ہے

ذوالفقار علی شاہ

ہم نے اپنے کل کے کالم میں عرض کیا تھا کہ ’’ سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح لانگ مارچ اور دھرنے کے حوالے سے خان صاحب اور تحریک انصاف کو جو آئینی حقوق حاصل ہیں ان کی تشریح اگر رانا ثنا اللہ نے اپنے طور پر کرنی شروع کر دی اور بعینہ اس طرح کی کہ جیسے تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ کے وقت خان صاحب نے کی تھی تو کسی کو اندازہ ہے کہ چیخیں کہاں تک بلند ہوں گی ‘‘ ہمیں نہیں معلوم تھا آئین کی اس طرح کی تشریح کا کام اتنی جلدی شروع کر دیا جائے گا ۔کالم میل کرنے کے بعد جب الیکٹرانک میڈیا کو دیکھنا شروع کیا تو پھر دیکھتے ہی چلے گئے بلا شبہ منگل کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک مصروف ترین دن تھا ۔سب سے پہلے وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ نے حکومتی اتحادیوں کے ساتھ پریس کانفرنس کی ۔ جس میں پریس کو بتایا گیا کہ حکومت نے لانگ مارچ پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ ابھی یہ پریس کانفرنس جاری تھی کہ پشاور سے عمران خان کی پریس کانفرنس شروع ہو گئی ۔ اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی مریم نواز صاحبہ کی پریس کانفرنس شروع ہو گئی اور اس کے بعد پھر شام تک پریس کانفرنسز کا ایک نہ رکنے والا سلسہ شروع ہو گیا ۔ جن میں زیادہ اہم وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کی میڈیا سے گفتگو شامل تھی ۔ کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت کی بلندی بڑھتے بڑھتے اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور اس صورت حال
کے تناظر میں حکومت اگر لانگ مارچ کی اجازت دے دیتی تو زیادہ بہتر تھا ۔ اس لئے کہ خان صاحب کا لانگ مارچ کے بعد دھرنے کا بھی پروگرام تھا اور اس شدید گرمی کے موسم میں دھرنے کے لئے کارکنوں کو چند دنوں سے زیاد بٹھائے رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا اور خان صاحب کے لئے 2014کی طرح فیس سیونگ مشکل ہو سکتی تھی لیکن دوسری طرف حکومتی موقف یہ ہے کہ اس لانگ مارچ میں اسلحہ بردار لوگ بھی لائے جا رہے تھے اور اس کا ثبوت لاہور میں تحریک انصاف کے کارکن کے گھر سے آتشی اسلحے کی بھاری مقدار کا ملنا بتایا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومتی جانب سے اس بات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ ابھی ایک ڈیڑھ ماہ پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہو کر پولیس کے ذریعے اراکین پارلیمنٹ کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا اور یہ تحریک انصاف کے کارکن ہی تھے کہ جنھوں نے سندھ ہائوس پر حملہ کیا اور عمران خان کی شہہ پر ہی منحرف اراکین کے گھروں پر بھی حملے کئے گئے ۔حکومت کے اس موقف کو اگر مان بھی لیا جائے تو پھر بھی اس بات سے تو انکار ممکن نہیں کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 15,16اور19کے تحت قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تحت ہر شہری کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے ۔ یہ ہماری رائے ہے لیکن ظاہر ہے کہ معاملات اب اس سے کہیں زیادہ آگے جا چکے ہیں ۔ کالم بھیجنے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اس وقت تک تو ابھی حکومت اور تحریک انصاف دونوں جانب سے صفوں کو درست کیا جا رہا ہے اور شام کو ہی اصل صورت حال کا پتا چلے گا لیکن ایک بات جو نظر آ رہی ہے وہ یہ کہ تصادم کے امکانات واضح نظر آ رہے ہیں اور ہر اول دستوں کے ٹکرانے کا کام شروع ہو چکا ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ حکومت کسی صورت خان صاحب پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014میں بھی خان صاحب نے پر امن رہنے کے لئے حکومت سے اس وقت 31نکاتی معاہدہ کیا تھا لیکن کسی بات پر بھی عمل نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس عمران خان اپنے دھرنے کو ڈی چوک تک لے گئے اور پھر پی ٹی وی اور سپریم کورٹ کی عمارات سمیت کئی سرکاری املاک پر حملہ کر دیا اور اب بھی حالات کو خونی تصادم کی طرف لے جانے کی کوشش کی جاتی ۔ دوسری بات کہ فیض آباد دھرنے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس کے تحت ایسے ہر احتجاج پر حکومت پابندی لگا سکتی ہے کہ جو حکومت کو ہٹانے کے لئے کیا جائے ۔ جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جب چاہتے ہیں اپنے مفاد کی خاطر اپنی ہی کہی ہوئی بات سے مکر جاتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے مکرتے ہیں کہ انھیں اس بات کا افسوس ہونا درکنار انھیں تو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ہی کہی ہوئی بات سے پلٹ رہے ہیں ۔ انھوں نے درجنوں مرتبہ نیوٹرل کی تشریح جانور کہہ کر کی لیکن پھر انھوں نے ایک دن نیوٹرل کی تشریح اس طرح کی کہ سب کو پتا چل گیا کہ نیوٹرل سے ان کی مراد اسٹبلشمنٹ ہے ۔ پھر جب انھیں اپنا مفاد اس بات میں نظر آیا کہ نیوٹرل کو نیوٹرل رہنا چاہئے تو انھوں نے کہا کہ نیوٹرل کو نیوٹرل رہنا چاہئے لیکن اس کے دوسرے ہی دن جب حکومت نے لانگ مارچ پر پابندی عائد کر دی تو خان صاحب نے زبردست یو ٹرن لیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر نیوٹرل کی اپنی پرانی تشریح کی گردان شروع کر دی اور کہا کہ نیوٹرل کو نیوٹرل نہیں رہنا چاہئے بلکہ حق کا ساتھ دینا چاہئے یعنی ان کا ساتھ دینا چاہئے ۔
پورا ملک اس وقت احتجاج کی آگ میں جل رہا ہے ۔ کسی کا کچھ نہیں بگڑ رہا لیکن ملک کی معاشی حالت کی بہتری کے لئے آئی ایم ایف سے جو مذاکرات ہو رہیں ان کا مستقبل ضرور داؤ پر لگ سکتا ہے ۔ جس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ کب تک چلے گا اس کا تو کوئی علم نہیں لیکن حکومت کی جانب سے لانگ مارچ پر پابندی سے تحریک انصاف کی قوت کا اندازہ ضرور ہو جائے گا ۔ اس بات کا پتا لگ جائے گا کہ جو لوگ تحریک انصاف کے کارکنوں کو برگر بچے کہہ کر انھیں کسی کھاتے میں ہی نہیں لکھتے بلکہ انھیں سوشل میڈیا فیس بک کے جنگجو قرار دیتے ہیں تو اب اندازہ ہو جائے گا کہ آیا خان صاحب کے جانثار واقعی برگر بچے ہیں یا سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ وہ مرد میدان بھی ہیں ۔ریاستی وسائل لامحدود ہوتے ہیں اور جلسے جلوسوں سے پاکستان میں کبھی حکومتیں تبدیل نہیں ہوئیں لیکن اس وقت حالت یہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں دو انتہاؤں پر پہنچ چکے ہیں اور اپنے طور پر ان کا واپس آنا ممکن نہیں ہے اس لئے ہماری گذارش ہے کہ ملک و قوم کے حقیقی مفاد میں کوئی تیسرا فریق بیچ میں پڑ کر ملک کو تصادم کی راہ سے نکالنے کے لئے دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لائے تاکہ ملک بہتری کی جانب چل سکے ۔ اس لئے کہ اگر صورت حال اسی طرح رہی تو حالات پوائنٹ آف نو رٹرن پر پہنچ جائیں گے اور اس سے تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ دوسرا راستہ آمریت کی طرف جاتا ہے جو کسی طور ملکی مفاد میں نہیں ۔ اس لئے حکومت اور تحریک انصاف دونوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس سے پہلے کہ حالات مزید ابتری کی طرف جائیں کہ جس غلطی کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہے اور اگر ایسا ہوا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔

ذوالفقار علی شاہ
Email:zulfqarshah@ymail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں