94

مجھے اپنوں سے آزادی چاہیے

خالد بلوچ

آزادی کا ایک خواب حضرت علامہ اقبال نے دیکھا اور لاتعداد قربانیوں اور ایک بھاری قیمت کے عوض 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔ گویا آزادی کا سورج طلوع ہوا اور پاکستان کا وجود کرہ ارض پر نمودار ہو گیا‘‘ انسانی لاشوں سے سرخ زمین‘ ابلتا ہوا جا بجا خون اور اس خون سے نہلائی ہوئی ارض وطن جس کے ماتھے پر سبز پرچم لہرا دیا گیا۔ لاشوں سے لدی ٹرینیں‘ خاک اور خون میں لتھڑی‘ادھ جلی‘ تعفن زدہ لیکن ان تعفن زدہ لاشوں سے اٹھنے والی بدبو کے بھبھولے بھی گویا دھرتی کو معطر کر رہے تھے۔ مائیں جوان بیٹوں‘ بیٹیوں کو پیچھے بہت پیچھے چھوڑ آئی تھیں۔ گویا کون پہنچا اور کون بچھڑ گیا۔ اس آزادی کے سفر میں!! سعادت منٹو کا افسانہ ٹھنڈا گوشت یاد آجاتا ہے۔ ایسی آزادی کے سفر میں ایک نوجوان خوبرو خوبصورت دراز قد لڑکی جو کہ اپنی جوانی کی پہلی سیڑھی ہی مشکل سے چڑھی ہوگی۔ آزادی کے اس قافلے سے بچھڑ گئی اور سکھوں کے ایک جتھے کے ہتھے چڑھ گئی اور سکھوں کی کرپانوں نے اس کے معصوم اور نازک بدن میں ہزاروں دراڑیں ڈال دیں۔ آواز آئی بلونت کور دراوزہ کھول جلدی کر۔ دروازہ کھلتا ہے اور بلونت کور اپنے کھسم سے پوچھتی ہے: یہ کون ہے جسے کاندھوں میں اٹھایا ہوا ہے۔ سکھ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ یہ موسلی ہمارے ہتھے چڑھ گئی تھی اور دیکھ اپنی آخری سانسوں میں ہے۔ وہ اسے چارپائی پر لٹا دیتا ہے اور پھر اپنی کرپان اس کے سینے میں اتار دیتا ہے اور شاید اس کی نفرت کی آگ کا الائو ابھی بھی ٹھنڈا نہ ہوا ہوگا۔ اس نے اس کے خون آلودہ کپڑوں کو اس کے ٹھنڈے اور مردہ جسم سے آزاد کر دیا اور وہ بھوکے گدھ کی طرح اس کے بدن کو نوچنے لگا۔ وہ ایک مردہ جسم سے جنسی لذتیں حاصل کر رہا تھا کہ بلونت کور چونکہ ایک عورت تھی اور حوا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والے بھیانک جنسی کھیل کسی حالت منظور نہیں تھا اور پھر بلونت کور نے اپنے خاوند ہی کی کرپان اس کے بدن میں اتار کر اسے بھی ہمیشہ کیلئے ٹھنڈا کر دیا۔ ذرا ایک لمحہ کیلئے سوچیں اور محسوس کریں کہ کتنی قربانیوں کے بعد یہ ملک‘ دھرتی کو حاصل کیا گیا ہے۔ یہ تو دھرتی کی بیٹی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے اور بدقسمتی وقت کہ ہم آزاد ہو کر بھی غلامی در غلامی میں دھنستے چلے گئے اور معلوم ہوا کہ ہم پہلے برطانوی راج کے غلام تھے اور اب غلام ابن غلام بن چکے ہیں اور پہلے سنتے تھے کہ 22خاندانوں کے ہاتھوں پوری قوم یرغمال بنا لی گئی ہے اور بس انہی کا راج چل رہا ہے اور وقت کیساتھ ساتھ پاکستان کی عمر کا آدھا حصہ مارشل لا کھا گیا اور آدھا حصہ امریکن غلاموں مطلب سیاستدانوں نے ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اس ملک کے ساتھ باریاں لی گئیں۔
مجھ کو آزادی ملی بھی تو کچھ اس طرح ناسک
جیسے کمرے سے اٹھا کر کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے
ایک بار ایک مرد مجاہد ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں پاکستان کو غلامی سے آزاد کروانے کیلئے میدان عمل میں اترا اور پھر کیا ہوا!! اسے اس کی سزا دی گئی اور اس کا جوڈیشل قتل کروا دیا گیا۔ وہ پھانسی کے
پھندے پہ جھول گیا۔ پھر میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کر دیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو شہید کروا کر بھٹو خاندان کو ہمیشہ کیلئے اقتدار سے باہر کر دیا گیا اور پیپلز پارٹی کی بھاگ دوڑ آصف علی زرداری کے ہاتھوں سونپ دی گئی۔ ادھر ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا سورج جرنل ضیاء الحق کے ہاتھوں غروب ہو گیا اور ضیاء الحق پاکستان پر امریکن آشیرباد سے قابض ہو گیا اور ضیاء الحق نے جہاں امریکن غلاموں کی ا یک فوج سویلین شکل میں پیدا کی وہاں میاں محمد نواز شریف جیسے کردار کو بھی پیدا کیا۔ ضیاء الحق کے بعد براہ راست پاکستان باضابطہ پاکستان کے عوام کو امریکن غلامی میں دھکیل دیا گیا اور پھر پاکستان کو فٹبال بنا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی آصف زرداری کی حکومت اور اگلی باری میاں نواز شریف دونوں امریکن غلام۔ اس طرح پاکستان کی قوم ان کے اور امریکن آقائوں کے عذاب بھگتتے رہے۔ قوم کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی اور دونوں سیاستدانوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا۔ بھاری ڈالرز کے عوض ڈرون حملوں کے علاوہ پاکستان کے فوجی اڈوں کو امریکن کے حوالے کر دیا گیا۔ ڈرون سے سینکڑوں بے گناہوں کو قتل کیا جاتا رہا اور پاکستان کو امریکن آگ میں جھونک دیا گیا۔ جس سے تقریباً 80 ہزار سے زیادہ پاکستان کے فوج اور سویلین کی جانوںکا نذرانہ اور اربوں ڈالرز پاکستان کے اس میں جھونکے گئے۔ لوڈشیڈنگ‘ خارجہ پالیسی‘ بھوک‘ تنگدستی‘ بیماری‘ جہالت اور بیروزگاری پاکستانی غلام
قوم کا مقدر بن گئی۔ کوئی راستہ نہیں بچا تو پاکستان کے کرکٹر عمران خان نے سیاست میں انٹری ڈالی اور ان کی 22سالہ جدوجہد کے بعد 2018میں پاکستان کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں آ گیا مگر پاکستان کی دونوں بڑی جماعتیں اور دیگر پاکستان میں مولانا فضل الرحمن جن کی شہرت کوئی اچھی نہیں ہے اور وہ JUIایک مذہبی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ان سمیت پاکستان کی چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتوں جن پر زیادہ تر جماعتوں پر نیب میں کیسز چل رہے تھے وہ اکٹھے ہو کر PDMایک پلیٹ فارم پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف صف آرا ہو گئے اور ساڑھے تین سال تک پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ان کے خلاف تحریک جاری رہی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح امریکن تسلط سے نکلنے اور ایک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی کی بات کی تو امریکن حکومت نے ان کی حکومت کو گرانے کی سازش کا آغاز کر دیا۔ امریکہ نے پاکستان کے سیاستدانوں اور اداروں‘ میڈیا کے ذریعے پاکستان میں عدم اعتماد لانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کا دوسرا ریزن عمران خان کا دورہ روس بھی تھا۔ اس طرح اپریل 2022کے پہلے ہفتے میں امریکن سازش کامیاب ہو گئی اور بدقسمتی وقت پاکستان ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گیا اور موجودہ وزیراعظم جو کہ خود بھی اربوں کے فراڈ میں ملوث ہے اور ضمانت پر ہے اس نے پوری قوم کو پیغام دیا کہ آپ بھکاری قوم ہیں اور بھکاریوں اور غلاموں کی کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ گویا ان کا پیغام تھا کہ امریکن غلامی ہی پاکستان کی بقا ہے۔ بہرحال اس طرح پاکستان آج پھر ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جس کا ہر راستہ غلامی اور یا پھر خونی انقلاب کی طرف جاتا نظر آ رہا ہے۔ 25 مئی 2022 ایک بار پھر پاکستان کے عوام اور امریکن غلاموں جن میں سیاستدانوں‘ اداروں‘ میڈیا اور بیوروکریسی اب آمنے سامنے کھڑے ہیں‘ کیا ہوگا۔ ادارے جیت جائیں گے؟ امریکہ جیت جائیگا؟ اوریا پھر پاکستان کی ایک دھی چوک چوراہے پہ ننگے سر کھڑی بے بسی کی تصویر بنی کہہ رہی ہوگی کہ مجھے کسی دشمن سے نہیں اپنوں سے بچائو!! اور میرے پائوں میں پڑی ان زنجیروں کو کون اتارے گا؟ 75 سال بعد ایک بار پھر وہ آزادی کا خواب دیکھ رہی ہوگی۔ کیا ہمیں پھر آزاد ہونا ہے۔ امریکن سے اور یا پھر امریکن گماشتوں دو خاندانوں سے لیکن کیا ایسا ہوگا؟ اور کون کریگا؟
ماتھے پہ تیرا یہ آنچل تو بہت خوب ہے لیکن
تو اگر اس سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں