120

صدیقی کی بانسری

جاوید ملک

طاقت کی ایک ہی خرابی ہے کہ وہ بدمست ہاتھی جیسی ہوتی ہے ہر چیز کو اپنے قدموں تلے روند ڈالنا اپنا استحقاق سمجھتی ہے عرفان صدیقی حکمران جماعت کے سینیٹر ہیں وہ اپنے کسی چہیتے کا قواعد کے برعکس تبادلہ کے خواہش مند تھے ڈی جی ریڈیو عاصم کچھی کا انکار ان کو آگ بگولہ کر گیا چونکہ موجودہ حکمران جماعت میں یہ مقام پانے کیلئے انہوں نے کئی پاپڑ بیلے تھے اس لئیے وہ اپنا دکھ لے کر وفاقی دارالحکومت کے نواح میں واقع اس فارم ہاس میں پہنچے جہاں ماضی کے بدنام زمانہ ڈان لیکس کے سارے کردار اکھٹے ہوتے ہیں شرپسندوں کا یہ ٹولہ ہر روز کسی نئی شرارت کے تانے بانے بنتا ہے ان سب نے سر جوڑے اور اس نیک نام بیوروکریٹ کی دھجیاں اڑانے کا منصوبہ بنایا گیا اگلے ہی روز ریڈیو پاکستان کے درختوں کو اونے پونے بیچنے کا الزام عائد کرتے ہوئے عاصم کچھی کی کردار کشی شروع کر دی گئی اس بے بنیاد الزام کی خبروں کی نمایاں اشاعت کیلئے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو استعمال کیا گیا پرنسپل انفارمیشن آفیسر بھی ڈان لیکس کے ان کرداروں کے مقروض ہیں کیونکہ انہیں یہ پرکشش عہدہ اسی شیطانی فارم ہاس کی یاترا سے ملا ہے عاصم کچھی بہت ایماندار اور محنتی افسر ہیں ریڈیو پاکستان کے مخدوش مالی حالات کے باوجود انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی دن رات اس قومی ادارے کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کیلئے محنت کی وینٹی لیٹر پر منتقل ہو جانے والے اس ادارے کے ملازمین کیلئے وہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ملازمین ان کے اقدامات سے بہت خوش تھے اپنے محبوب ڈی جی کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ ریڈیو کی سی بی اے یونین سے برداشت نہ ہوا وہ بھی میدان میں اتر آئی اور اس سیاست دان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کا اعلان کر دیا یہ ردعمل سب کیلئے غیر متوقع تھا چنانچہ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس ڈی جی کو طلب کر لیا انہیں کہا گیا
کہ وہ تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ درختوں کی کٹائی اور اونے پونے فروخت کرنے کا حکم سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دیا تھا اس ایماندار بیورو کریٹ کے انکار نے غصے کی سلگتی آگ پر پٹرول بم گرا دیا انہیں ڈرانے دھمکانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے عرفان صدیقی نے ان سے معافی کا مطالبہ کیا دھمکی دی کہ اگر وہ معافی نہیں مانگیں گے تو معاملہ استحقاق کمیٹی میں لے جانگا ڈی جی ریڈیو نے ایسا کوئی بھی مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا نفرت اور بدلے کی آگ میں جھلسے اس ٹولے سے جب اور کچھ نہ بن پایا تو گزشتہ روز ان کا تبادلہ کر دیا گیا جس پر ریڈیو پاکستان کے ملازمین سراپا اجتجاج ہیں اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ عرفان صدیقی کیا بلا ہے جس کے اشاروں پر سارا نظام ناچ رہا ہے یہ قلم قبیلے کا بھانڈ ہے جس نے خوشامد اور جی حضوری کی نئی تاریخ رقم کی ہے یہ لفظوں کی مالش کا موجد بھی ہے میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو اس کی لفظی مالش کے دلدادہ تھے اسی لئیے انہوں نے اسے اپنا معاون خصوصی مقرر کر دیا تھا ہماری جمہوریت کا یہ بھی حسن ہے کہ جو شخص کونسلر بننے کے قابل بھی نہ ہو وہ جی حضوری سے ایوان اقتدار تک با آسانی پہنچ جاتا ہے پرکشش عہدہ ملتے ہی اس شخص نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئیے خود پیرا شوٹر تھا ان کارکنان کا حق مار کر اقتدار تک پہنچا تھا جنہوں نے پارٹی کیلئے بے پناہ قربانیاں دی تھیں اس لئیے میرٹ کا لفظ تو اس کی لغت میں دور نذدیک کہیں تھا ہی نہیں اب اس نے اپنے بے روزگار ٹبر کو پرکشش عہدوں پر کھپانا شروع
کیا اپنے بھائی کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعنیات کرا دیا یہ سارے جی حضورئیے جو میاں نواز شریف کے دیالو پن کی چھتری تلے جمع ہوئے تھے انہوں نے پارٹی پر اپنے پنجے گاڑھنے کیلئے منتخب وزیر اعظم کو قومی سلامتی کے اداروں سے لڑا دیا شہباز شریف اور چند دوسرے پارٹی کے حقیقی خیر خواہوں نے میاں نواز شریف کو ان کے حصار سے نکالنے کی بہت کوشش کی مگر یہ مداری جیت گئے اور مخلص کارکنان کے حصہ میاں جی کی ناراضگی آئی اگرچہ بعد میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے اس بے مقصد محاذ آرائی کی بھاری قیمت ادا کی مگر یہ جعلی دانشور اپنے ایجنڈے پر ڈٹے رہیکہانی یہاں ختم ہو جاتی تو اسے شاید ایک موقعہ پرست کا کھیل سمجھ کر نظرانداز کیا جا سکتا تھا مگر یہ منصوبہ اتنا سادہ نہیں ہے اس شخص نے اپنے ایک رشتہ دار جج کو بھی اس کھیل کا حصہ دار بنا لیا اور یوں ایک طرف تو جی حضوری سے میاں نواز شریف کو قابو کیا گیا دوسری طرف پارٹی کو اپنی انگلیوں پر نچانے کیلئے ایک ایسی دلدل تخلیق کی گئی جس سے مسلم لیگ نون شاید ہی کبھی باہر نکل سکے موجودہ اتحادی حکومت کے بنتے ہی یہ مافیا پھر سرگرم ہوگیا اور اب یہ اگلے مقاصد کے حصول کیلئے دوڑ رہے ہیں عرفان صدیقی نے ریڈیو پاکستان کے ڈی جی کے ساتھ جو کھیل کھیلا وہ نشاندہی کر رہا ہے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے یہ سارے کردار گلبرگ کے ایک فارم ہاس میں شام ڈھلے سر جوڑ کر کیوں بیھٹتے ہیں ایماندار افسران کو نکڑے لگا کر کیا صف بندی کی جا رہی ہے؟ملک اس وقت شدید بحرانوں کا شکار ہے عام آدمی کی زندگی مشکل نہیں بدتر ہو گئی ہے لوگ نئی حکومت سے یہ توقع لگائے بیھٹے تھے کہ وہ مہنگائی،لاقانونیت اور اقربا پروری کی شعلوں میں گھرے اس دیس کو بچائے گی لیکن یہاں تو عرفان صدیقی جیسے نیرو جمع ہیں جو اپنی اپنی بانسری لئیے اپنی انا کی دھن بجا رہے ہیں عمران خان کو تو ایک گوگی لے ڈوبی یہاں تو گوگی اور گوگیوں کا جمعہ بازار لگا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں