Zulfiqar Ali shah 106

لانگ مارچ یا لونگ مارچ

ذوالفقار علی شاہ

ماضی کی مشہوراداکارہ اور گلوکارہ مسرت نذیر کا ایک دلکش گیت ہے کہ ’’ میرا لونگ گواچا ‘‘ ۔ لانگ مارچ کے حوالے سے ہم اپنے عنوان کی اس سے زیادہ تشریح کے متحمل نہیں ہو سکتے گو کہ تحریک انصاف اپنے لانگ مارچ اور پھر ممکنہ دھرنا میں اس کی عملی تصویر ہر لمحہ پیش کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے ۔لانگ مارچ اور اس کے بعد خان صاحب کے دھرنے کے متعلق ہر کسی کی زبان پر یہی ہے حتیٰ کہ محترم وزیر داخلہ نے بھی انھی خیالات کا اظہار کیا ہے کہ یہ خان صاحب کا اور ہر شہری کا آئینی اور جمہوری حق ہے ۔ جب اتنے بڑے بڑے لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں تو ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیںلیکن جب تک عدلیہ کے افتخار کا عدم اور انصاف اور خاص طور پر ان کے از خود نوٹس نہیں دیکھے تھے اس وقت تک تو ہمیں آئین کا پتا ہی نہیں تھا کہ آئین کی اصل روح کیا ہوتی ہے ۔ ہم تو الف اانار اور ب سے بکری کے ہی قائل تھے لیکن افتخار چوہدری اور اس کے بعد نثار تیری گلیوں کے ثاقب نثار نے مزید بتایا کہ الف انار نہیں بلکہ انار کا جوس ہوتا ہے اور ب بکری نہیں بلکہ بھوک لگی ہو تو آئین کی روح کے مطابق ب سے مراد بکری کا بھنا ہوا گوشت ہوتا ہے ۔ یقین جانے کہ ہم دونوں چیف صاحبان کی آئین کی تشریح کے صدق دل سے قائل ہو گئے لیکن آئین پاکستان کی کتاب کا ورق ورق جس طرح پھیتی پھیتی کر کے عمران خان نے قوم کو پڑھایا ہے اس طرح کا آئین نہ کسی نے پہلے کبھی پڑھا اور نہ کبھی پہلے کسی نے سنا اور نہ ہی
کسی نے آئین پاکستان پر اس طرح کبھی پہلے کسی نے عمل کیا ہو گا ۔کاش خان صاحب اگر ایوب خان کے دور میں ہوتے تو شریف الدین پیر زادہ نے تو ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آنا تھا اور انھوں نے خان صاحب کی شاگردی میں رہنا ایک اعزاز سمجھنا تھا ۔خان صاحب نے عدم اعتماد کی تحریک پر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو ان کے آئینی حقوق کے استعمال کے درست طریقے بتائے تو وہ ایسے کارگر ثابت ہوئے کہ عدالتوں کو رات بارہ بجے اپنے تالے کھولنے پڑے ۔اس کے بعد صدر مملکت اور گورنر کو آئین کے اس طرح انجکشن لگائے کہ زرداری صاحب سے لے کر شہباز شریف اب تک عش عش کر رہے ہیں اور امید ہے کہ جب تک صدر ہیں یا حکومت ہے یہ عش عش ہوتی رہے گی ۔سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح لانگ مارچ اور دھرنے کے حوالے سے خان صاحب اور تحریک انصاف کو جو آئینی حقوق حاصل ہیں ان کی تشریح اگر رانا ثنا اللہ نے اپنے طور پر کرنی شروع کر دی اور بعینہ اس طرح کی کہ جیسے تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ کے وقت خان صاحب نے کی تھی تو کسی کو اندازہ ہے کہ چیخیں کہاں کہاں سے اورکہاں تک بلند ہوں گی ۔
عمران خان جب لانگ مارچ کا اعلان کر رہے تھے تو عین اس سے پہلے شاہ محمود قریشی کے موبائل پر ایک کال آگئی جسے خان صاحب نے سننا پسند نہیں کیا تو قریشی صاحب نے کہا کہ سن لیں ورنہ وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو ٹریپ کر لیں گے تو خان صاحب نے کہا کہ کوئی بات نہیں کر لیں ٹریپ ۔ہو سکتا ہے کہ یہ کال کا ڈرامہ باقاعدہ پلان کے تحت ہو ۔ اس لئے کہ میڈیا میڈیا کھیلنے میں اب خان صاحب کی مہارت کا ثانی تو دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا لیکن جو بھی ہے خان صاحب لانگ مارچ کا اعلان کر کے ٹریپ میں آ چکے ۔اس لئے کہ عام طور پر لانگ مارچ لاہور یا کراچی یا پھر ملتان سے کیا جاتا ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ پشاور سے ہو رہا ہے ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ خان صاحب سمجھتے ہوں کہ پنجاب اور سندھ میں چونکہ مخالف حکومتیں ہیں تو راستے میں رکاوٹوں کا خدشہ ہے اس لئے پشار کی طرف سے لانگ مارچ کیا جائے یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی تانترک بابے نے یہ کہا ہو کہ برصغیر کے اکثر فاتحین پشاور کے راستے ہی آئے اور پورے ہندوستان کو فتح کرتے رہے لہٰذا آپ بھی پشاور سے لانگ مارچ شروع کریں لیکن یہ مشورہ دینے والے اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ انگریز کسی اور راستے سے ہندوستان آئے تھے ۔ جو بھی ہے اگر صرف لانگ مارچ ہوتا تو الگ بات تھی لیکن اب دھرنا بھی ہے اور یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ 2014کے دھرنوں کو جاری رکھنے میں اصل کردار طاہر القادری صاحب کے لوگوں کا تھا جنہوں نے واشگاف الفاظ میں اس بار عمرانی دھرنے سے لایعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو اس فساد سے دور رہنے کی تلقین بھی کردی ہے کیونکہ خان نے اپنے دور اقتدار میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے لئے کچھ نہیں کیا سو اس مرتبہ تو خان صاحب نے دیگر شہروں سے اپنی جماعت کے لوگوں کو اسلام آباد پہنچنے کی کال ضرور دی ہے لیکن ان شہروں میں بھی احتجاج کرنے کا کہا ہے ۔اب ایک تو پشاور کے قافلہ کے علاوہ عموماََجو لاہور سے قافلہ آتا تھا اس کی قیادت ہمیشہ مرکزی لیڈر شپ کرتی تھی تو خان صاحب کی غیر موجودگی میں اس پر فرق پڑ سکتا ہے دوسرا ہر شہر میں احتجاج کی جو کال دی گئی ہے تو اس سے حکومتی مشینری کو پریشانی ضرور ہو گی لیکن خود تحریک انصاف کی قوت بھی منتشر ہو نے کا احتمال ہے ۔
لانگ مارچ سے پہلے شکر ہے کہ حکومت نے کچھ ہمت تو پکڑی اور کم از کم اتنا تو کہہ دیا کہ ہم عمران خان کے مطالبات کو رد کرتے ہیں اور یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور انتخابات اپنے وقت پر2023میں ہوں گے ۔اس سے پہلے تو حکومت اور اس کے وزراء جس گو مگو کی کیفیت کا شکار تھے اس سے جہاں حکومت کو زبردست نقصان ہو رہا تھا تو وہیں پر تحریک انصاف کو فائدہ پہنچ رہا تھا لیکن اب حکومت کے واضح موقف اپنانے اور اس کے اپنے اندر سے ابہام دور ہونے کے بعد قوی امید ہے کہ معاملات بہتر ہونے شروع ہو جائیں گے اور انسان میں جب اعتماد آتا ہے تو از خود بہتر فیصلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ حکومت نے اسلام آباد میں پورے ریڈ زون کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام اہم سرکاری عمارتوں جن میں ایوان صدر ، وزیر اعظم ہائوس اور سپریم کورٹ شامل ہیں ان کی حفاظت کے لئے فوج طلب کر لی ہے جبکہ پنجاب میں دفعہ 144نافذ کر دی گئی ہے ۔ یہ سب ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن راہ چلتے شوق میں جو لوگ اس مہم جوئی کا حصہ بن جاتے ہیں وہ تھوڑا الگ رہتے ہیں ۔ اب خان صاحب پر دھرنے کو جاری رکھنے کی ذمہ داری ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اس لئے کہ حکومت کے لئے یقینا یہ سب ایک چیلنج ہو گا لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج تحریک انصاف کے لئے دھرنوں کوجاری رکھنا ہو گا اور وہ بھی گرمی کے اس شدید موسم میں اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ خان صاحب کو اس مرتبہ بھی دھرنوں میں 2014کی طرح وی وی آئی پی سہولتیں ملیں گی اور اسی طرح حکومت کی جانب سے نرم رویوں کا اظہار ہو گا ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہو گا اس لئے کہ اب ہوائوں کے رخ بدل چکے ہیں نرمی اسی وقت تک ہو گی جب تک قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جاتا اور سب سے بڑا فرق جو 2014اور موجودہ دھرنوں میں ہے کہ اس وقت تو ببانگ دہل ایمپائر کو ہر روز پکارہ جاتا تھا لیکن اب کس سے فریاد کی جائے گی بلکہ سچ پوچھیں ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ دھرنوں کے چند دن بعد ہی خان صاحب یہ بات کہتے نظر آئیں گے کہ
لائے تھے مانگ کر جو دھرنوں کے چار دن
دو گرمی میں کٹ گئے دو انتشار میں

ذوالفقار علی شاہ
Email:zulfqarshah@ymail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں