anwar sajdi 105

ڈرامہ کا کلائمکس

انور ساجدی

لگتا ہے کہ جو نیا ہائی ڈرامہ شروع ہوا ہے اس کا باقاعدہ ایک اسکرپٹ ہے حالانکہ بظاہر ایسے دکھائی دیتا ہے کہ جو کچھ اسٹیک ہولڈرز کررہے ہیں وہ اچھے خاصے شمس الجہلا دکھائی دیتے ہیں گیم ایسی ہے کہ سمجھ سے بالاتر ہے سوال یہ ہے کہ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو عدم اعتماد کی تحریک کیوں لائی گئی اور کامیاب کروائی گئی بلکہ اس حد تک اہتمام کیا گیا کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نصف شب کو کھول دی گئیں اور عدالت عظمی کے ہی حکم پر ووٹنگ کروائی گئی اب کافی کچھ بدلا بدلا نظر آرہا ہے اور شک ہے کہ عمران خان کی پونے چارسالہ ناکامیوں کو چھپانے اور انہیں نئی سیاسی زندگی بخشنے کیلئے بڑے بڑے ڈرامے رچائے گئے یہ تو معلوم نہیں کہ ڈرامہ کے اسکرپٹ میں کیالکھا ہے لیکن چند روز میں عمران خان اپنے جلسوں میں فوج اور عدلیہ سے باقاعدہ فرمائشیں کررہے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ روزانہ کی بنیاد پر شریف خاندان کے کرپشن کے کیسز سنے اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے مقدمات میں تفتیشی افسران کے ردوبدل کا از خود نوٹس لے لیا سووموٹو کی سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ نیب اور ایف آئی اے میں تبادلے روکے جائیں نہ جانے اس کے بعد کیا کچھ ہوگا کیونکہ سیاسی لڑائی کی وجہ سے بے شمار آئینی معاملات اعلی عدالتوں میں آئیں گے حتی کہ پنجاب میں وزیراعلی گورنر اور اسپیکر کامسئلہ بھی عدالتوں میں جاچکا ہے سپریم کورٹ نے63اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا جو فیصلہ دیا ہے اس کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو جائیگا جس سے وزیراعلی حمزہ شریف خطرے میں پڑ گئے ہیں ادھر بلوچستان میں جو تحریک عدم اعتماد وزیراعلی عبدالقدوس بزنجو کیخلاف پیش کی گئی ہے یہ بھی کوئی آسان مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس تحریک کی وجہ سے باپ پارٹی دوحصوں میں تقسیم ہوگئی ہے اگر یہ تقسیم مرکز میں بھی ہوئی تو شہباز شریف کی حکومت شدید خطرے سے دوچار ہوجائیگی کیونکہ اسکی اکثریت محض دو ووٹوں
پرقائم ہے اگر باپ کے دو اراکین منحرف ہوگئے تو یہ حکومت تو گئی قومی امکان ہے کہ صدر عارف علوی کسی وقت بھی وزیراعظم شہبازشریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ سکتے ہیں اگر وہ اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے تو انہیں گھر جانا پڑے گا یعنی پوری مخلوط حکومت ختم ہوجائے گی جس کے بعد اسمبلیاں توڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا اگر ایسا ہوا تو یہ کپتان کے اصل مطالبہ کی تکمیل ہوگی کیونکہ ان کی عوامی تحریک جلد انتخابات کیلئے ہے وہ جمعہ کو ملتان میں ہونیوالے جلسہ عام میں اسلام آباد مارچ اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان کرنے والے تھے گوجرانوالہ کے جلسہ میں انہوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ انکے مارچ میں فوجی خاندانوں کے افراد بھی شامل ہونگے پنجاب کے وزیراعلی نے اس بات کو فوج کو تقسیم کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے عمران خان اس وقت جو کچھ کررہے ہیں وہ ایک بدمست ہاتھی کی مانند ہیں وہ کھلے عام سیاسی مخالفین کے علاوہ اداروں کو بھی دھمکیاں لگارہے ہیں ایک پاکستانی صحافی نے گزشتہ دنوں اسرائیل کا دورہ کیا وہاں کے صدر سے ملاقات کی اور پارلیمنٹ ہاؤس کا دورہ کیا اس نے دعوی کیا کہ وفد میں شامل ایک پاکستانی یہودی کو وزیراعظم کے حکم پر پاسپورٹ جاری کیا گیا اور اس میں اسرائیل کا اندراج کیا گیا صحافی کے اعترافی بیان کے بعد تحریک انصاف کی لیڈر شیریں مزاری نے کئی دھمکیاں دیں اور کہا کہ اس مسئلہ کو عمران خان سے جوڑ کر ان کیخلاف سازش کی جارہی ہے عجیب بات ہے کہ کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی اس کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اگر چہ یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر صحافی نے وزیراعظم کی اجازت سے اسرائیل کا دورہ کیا ہے تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ایک طرف وہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگارہے ہیں اور دوسری جانب وہ اسرائیل سے راہ ورسم بنارہے ہیں حال ہی میں یروشلم میں نوجوان یہودیوں نے ایک مظاہرہ کیا وہ ہاتھوں میں جو پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے ان پر تحریر تھا کہ مدینہ اور یروشلم ہمارے تھے اور ہمارے رہیں گے یہ الگ بات کہ عرب ممالک کو ایسی باتوں کی پرواہ نہیں ہے بلکہ اکثر چیدہ چیدہ عرب ممالک نے اسرائیل سے تعلقات استوار کرلئے ہیں مطلب یہ ہے کہ عمران خان پہلے تو لاڈلے تھے لیکن تبدیل شدہ حالات میں انہیں پہلے سے زیادہ لاڈپیار کیاجارہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی ادارے ان کے حق میں ماورائے آئین فیصلے کررہے ہیں اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے تفتیشی ادارہ کا کردار ادا کیا ہے جیسے کہ پانامہ کیس میں لیکن موجودہ دور میں حکومتی کاموں میں مداخلت کا مطلب یہی ہے کہ یہ حکومت آزادانہ فیصلے نہ کرسکے یہ بالکل اسی طرح کا ایکٹ ہے جو افتخار محمد چوہدری نے زرداری حکومت کے ساتھ کیا تھا چوہدری صاحب نے ایک دن بھی زرداری حکومت کو چلنے نہیں دیا۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ملکی معیشت ڈوب چکی ہے ڈالر کی قدر2سو روپے بڑھ گئی ہے دوست ممالک نے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا ہے لیکن اقتدار کی لڑائی اور سیاسی وادارتی بالادستی کی جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اگر ان نازک حالات میں موجودہ حکومت کو بے عزت کرکے نکالا گیا یا کام کرنے نہیں دیا گیا تو ملک کیسے چلے گا معیشت کیسے سنبھلے گی اور بجٹ کیسے پیش ہوگا اگر تمام رعایتیں عمران خان کیلئے ہیں تو عدالت سے رجوع کیاجائے کہ عمران خان کو بطور وزیراعظم بحال کیا جائے اتنے ہائی ڈرامہ کی کیا ضرورت ہے عمران خان کی اتنی طاقت ہے کہ اس کے کارکن اور رہنما باقاعدہ وال
چاکنگ کرکے اداروں کیخلاف نعرے لکھتے ہیں ایک پارٹی لیڈر جبران ناصر کی باقاعدہ یہ وڈیو آگئی ہے کہ وہ دیواروں پر نعرے لکھ کر انکو کالا کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اتنی دہشت ہے کہ سارے ادارے خوفزدہ ہیں اب تو وہ باقاعدہ جلسوں میں سب کو ڈکٹیٹ کررہے ہیں چند روز قبل انہوں نے ایف آئی اے کے افسر کو دل کا دورہ پڑنے کی بات کی تھی ان کی اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے مقدمات کی تفتیش کرنے والے افسران کے تبادلوں پرپابندی لگادی ہے یہ جو وہ مارچ میں فوجی خان دانوں کی شمولیت کی بات کررہے ہیں یہ بھی ایک طرح سے دھمکی ہے کہ فوجی خاندان ان کے ساتھ ہیں خیر یہ کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ پاکستان کے آدھے لوگ ان کے ساتھ ہیں ان کی سیاسی تحریک تبلیغ کی قوت اور سوشل میڈیا کی طاقت نے پورے سماج کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ہے یہ تقسیم ہر جگہ ہر ادارہ اور حساس مقامات پر نظر آتی ہے عوامی حمایت یا سرپرستوں کی بدولت وہ بلاخوف آگے بڑھ رہے ہیں ان کے اداروں سے ظاہر ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار سے کم کوئی چیز قبول نہیں کریں گے مثال کے طور پر الیکشن کمیشن اپنی مرضی کا چاہتے ہیں انتخابات بھی وہ چاہتے ہیں جس میں انکو اکثریت حاصل ہوجائے اگر وہ ہار گئے تو اپنی ہار نہیں مانیں گے اور فوری طور پر سڑکوں پر آجائیں گے ان کے پاس وسائل اتنے ہیں کہ صرف ایک جلسہ کی لائٹنگ پر65لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں جلسوں پر کل کیا خرچ آتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یعنی تحریک چلانے اور ہار نہ ماننے کیلئے ان کے پاس اربوں روپے کے وسائل موجود ہیں اوورسیز پاکستانی دل کھول کر انہیں بھاری رقومات بھیج رہے ہیں کوئی دو روز قبل ان کے ایک قریبی ساتھی نے انکشاف کیا ہے کہ بنی گالا کامحل ایک بینک ہے جس میں اربوں روپے رکھے ہوئے ہیں عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے بھی اس مبینہ بینک کی تصدیق کی ہے لیکن کسی میں جرأت نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔
حکام بالا نے جو اسکرپٹ تیار کیا ہے اس کا کلائمکس جلد آنے والا ہے شہباز حکومت کے دانت نکال دیئے گئے ہیں یہ کمزور حکومت تادیر نہیں چل سکتی اگر اسے بجٹ پیش کرنے کا موقع ملا تو یہ غنیمت ہے ورنہ بجٹ کے بعد انتخابات کا اعلان ناگزیر ہے اگر حکومت نے لیت ولعل سے کام لیا تو اسے بری طرح سے بے عزت کرکے چلتا کردیا جائیگا بہانہ یہ ہوگا کہ معیشت کو چلانے کیلئے معاشی ماہرین پر مشتمل حکومت اہم قومی ضرورت ہے اپنے حفیظ شیخ تو کہیں نہیں گئے انہوں نے پوری نگراں کابینہ فائنل کرلی ہے بس یہ اتنا اہتمام ضروری ہے کہ پاکستان سری لنکا نہ بن جائے سری لنکا کے وزیراعظم نے گزشتہ ہفتہ اہم ممالک کے سفیروں کو بلاکر باقاعدہ بدھا کے نام پر بھیک مانگی لیکن ابھی تک کسی ملک نے رحم کھاکر کوئی بھیک نہیں دی اس طرح بحرہند کایہ موتی نااہل حکمرانوں کی وجہ سے اس حال پر پہنچا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں