115

شیریں مزاری کی گرفتاری پر چند گذارشات

ذوالفقار علی شاہ

دنیا کا تو پتا نہیں لیکن نظر بد نہ لگ جائے پاکستان خبروں کے لحاظ سے کبھی بانجھ نہیں رہا ۔ سال کے بارہ مہینے خبروں کی اس قدر بھرمار ہوتی ہے کہ بندہ میں ہمت ہونی چاہئے دن میں ایک کیا دو دو تین موضوعات پر بھی کالم لکھنا چاہے تو بڑی آسانی کے ساتھ لکھ سکتا ہے ۔اب یہی دیکھ لیں کہ عمران خان نے 25مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے جو کسی طرح بھی کم اہم نہیں ہے بلکہ موجودہ صورت حال میں سب سے زیادہ اہم خبر یہی ہے دوسری جانب موجودہ حکومت کا وہی پٹ سیاپا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں پتا نہیں یہ حکومت اس مخمصہ سے کب نکلے گی یا اس وقت نکلے گی کہ جب چڑیاں( ایجنسیاں) سارا کھیت چگ جائیں گی اور پھر اسے ہوش آئے گا خیر اس موضوع کے لئے ابھی کئی دن ہیں کہ اسے ابھی اسلام آباد پہنچنا ہے اور وہاں یہ کتنے دن رکے گا یہ ایک الگ موضوع ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ اس لانگ مارچ کے نتائج کیا نکلتے ہیں ظاہر ہے کہ اس پر وقت کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہے گا لیکن ابھی تو ایک ایسے موضوع پر بات کرنی ہے کہ جو گذرے ہوئے کل کا حصہ بن چکا ہے اور پہلے ہی دو دن لیٹ ہو چکا ہے اور اس سے زیادہ تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔جس وقت قارئین یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے اس وقت تک اس واقعہ کو گذرے بھی تین دن ہو چکے ہوں گے لیکن اس پر لکھنا اس لئے ضروری ہے کہ گرفتاری سے لے کر رہائی تک اس پورے واقعہ میں جو تضادات ہیں انھیں سامنے لایا جا سکے اور اس پر کچھ مختصر معروضات پڑھنے
والوں کی خدمت میں پیش کی جائیں ۔ ہم اس سے پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ آپ دو بندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ایک وہ جو دریا پار سے آپ کو پتھر مارے اور دوسرا جو منہ پر مکر جائے ۔اس میں بھی یہی ہوا ہے بلکہ دونوں باتیں ہوئی ہیں حکومت کو بلا وجہ بغیر کسی قصور کے پتھر بھی کھانے پڑے اور سب کچھ سامنے ہوتے ہوئے بھی صریحاََ جھوٹ بولے گئے ۔
تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کو کار میں بیٹھتے ہوئے ایف آئی اے کے اہلکاروں نے گرفتار کیا اور خواتین اہلکاروں نے گرفتار کیا ۔ یہ بیان اگر حکومت کی جانب سے ہوتا یا گرفتار کرنے والوں کی جانب سے ہوتا تو کہا جا سکتا جھوٹ بول رہے ہیں لیکن یہ بات کسی بیان کی بنیاد پر نہیں کہی گئی بلکہ اس کی وڈیوز موجود ہیں اور ایک سے زیادہ زاویوں سے بنی ہوئی وڈیوز موجود ہیں کہ جس میں بڑے واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ محترمہ شیریں مزاری کو کار سے باہر آنے کا کہا جا رہا ہے لیکن وہ باہر آنے کو تیار نہیں ہیں اس پر کچھ خواتین اہلکار جو اپنی یونیفارم میں ہیں وہ انھیں بازؤں سے پکڑ کر باہر نکالتی ہیں اور انھیں ایف آئی اے کی گاڑی تک لے جاتی ہیں ۔ اس میں صاف نظر آ رہا ہے کہ کسی مرد نے انھیں چھوا تک نہیں اور تشدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوا لیکن فواد چوہدری اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے اس وقت ٹی وی چینلز پر جو بیانات چل رہے تھے ان میں کہا جا رہا تھا کہ مرد اہلکاروں کی جانب سے شیریں مزاری پر تشدد اور بدتمیزی کی گئی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ کوئی مرد اہلکار ان کے نزدیک بھی نہیں پھٹکا تھا ۔ یہاں پر ایک بات بڑی قابل غور ہے کہ وہ تحریک انصاف کہ جو اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کر سکی اور جب کسی گرفتاری پر کچھ کہا جاتا تھا تو جواب آتا تھا کہ عدالت سے رجوع کریں وہی تحریک انصاف اس ایک گرفتاری سے اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی تھی کہ گرفتاری کے بعد ان کی جانب سے گھبراہٹ میں عجیب و غریب بیانات سامنے آ رہے تھے یہاں تک کہا گیاکہ جناب گرفتاریوں کی لسٹیں بن گئی ہیں اور کسی بھی وقت گرفتاریاں شروع ہو سکتی ہیں اور اس کے لئے اپنے مطلب کے ایس ایچ او تک لگا دیئے گئے ہیں ۔ اس کے بر عکس ہوا کیا کہ دوسروں کی گرفتاریاں تو دور کی بات ہے حکومت تو اس ایک گرفتاری سے ہی اتنا گھبرا گئی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر شیریں مزاری کی رہائی کا حکم دے دیا ۔ ہمیں شیریں مزاری کی رہائی کے فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں کہ ہم تو شروع دن سے سیاستدانوں پر اس قسم کے مقدمات کے خلاف ہیں اور پھر ان کی رہائی تو اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر ہوئی لیکن موجودہ حکومت نے ایک بہت بڑا موقع کھو دیا ۔ تحریک انصاف کی جانب سے گرفتاری کے فوری بعد اسی دن رات نو بجے پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کر دیا گیا تھا یہ ایک بہت بڑا موقع تھا کہ حکومت کو مارکیٹ میں تحریک انصاف کے بھاؤ تاؤ کا پتا چل جاتا کہ احتجاج کرنے والوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ جماعت کتنے پانی میں ہے ۔ جس جگہ احتجاج ہونا تھا ہر اس جگہ پولیس کو کھڑا کیا جاتا تو تحریک انصاف کی احتجاجی قوت کا اندازہ ہو جانا تھا ۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ حکومت کی جانب سے ایک حکمت عملی کے تحت واضح نہیں لیکن ان کی رہائی کے حوالے سے ذو معنی بیانات دے کر صورت حال کو مبہم رکھ کر تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کا انتظار کیا جاتا ۔
ایک اور انتہائی دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس کی سماعت رات ساڑھے گیارہ بجے رکھ دی ۔ اس میں دراصل یہ دکھانا تھا کہ اگر 9اپریل کو کسی اور کے لئے عدالتیں رات گئے کھولی جا سکتی ہیں تو یہی عمل انصاف کی غرض سے تحریک انصاف کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دو وجوہ کی بنا پر ایسا ہوا تھا ایک تو سپریم کورٹ نے نو اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا حکم دیا تھا اور جیسے ہی محسوس ہوا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا کا ارادہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کا نہیں ہے تو حکم عدولی کا وقت رات بارہ بجے کے بعد
شروع ہونا تھا اس لئے عدالت اس دن رات بارہ بجے کا انتظار کر رہی تھی اور دوسرا وہ رمضان کا مہینہ تھا اورلوگ تراویح میں مصروف تھے اس لئے بھی رات دیر سے عدالتوں کے دروازے کھلے لیکن شیریں مزاری کیس میں تو ایسی کوئی مجبوری نہیں تھی ۔ خیر آدھی رات کے قریب عدالت لگی اور مختصر سماعت کے بعد رہائی کا حکم جاری ہو گیا ۔رہائی کے بعد اس پورے قصے کا سب سے سب سے مزیدار اور جسے کہنا چاہئے کہ ہماری منافقانہ سیاست کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ تھا کہ شیریں مزاری کی بیٹی اپنی والدہ کی گرفتاری کا الزام ملک کی ایک انتہائی اہم اور طاقتور شخصیت پر لگا رہی تھیں اور انھوں نے ان کے متعلق انتہائی نامناسب الفاظ بھی کہے لیکن رہائی کے بعد جب شیریں مزاری اپنی بیٹی کے گلے لگ مل رہی تھیں تو انھوں نے کہا کہ کسی اور کا نہیں رانا ثنااللہ کا نام لو ۔ انھیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے یہ الفاظ مائیک کے ذریعے پوری دنیا میں سنے جا رہے ہیں لیکن اس بات پر نہ کوئی شرمسار ہو گا اور نہ ہی کسی ندامت کا اظہار کیا جائے گا اس لئے کہ یہ تو ہماری منافقانہ سیاست کی ایک معمولی سی جھلک ہے ۔ کالم میں اب گنجائش نہیں ہے باقی سب باتیں اپنی جگہ پر لیکن ملتان جلسے میں عمران خان نے مریم نواز کے متعلق جو انتہائی نازیبا الفاظ کہے تھے اس حوالے سے عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ بن گیا تھا لیکن داد دینی چاہیے اس بندے کی عقل کو کہ جس نے گرفتاری اور پھر رہائی کے اس کھیل میں عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا کے ٹرینڈ کی چند گھنٹوں میں ایسی تیسی کر کے رکھ دی ۔

ذوالفقار علی شاہ
Email:zulfqarshah@ymail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں