129

تقارب (فعولن کلامی)

واجد امیر

ترقی پسند تحریک نے جتنا اُردو ادب پہ اثرات مرتب کیے شاید ہی کسی تحریک نے کیے ہوں ہندوستان میں ترقی پسند تحریک نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی جس نے پہلے ہندوستان اور پھر منقسم ہندوستان میں اس تنظیم کی بنیادیں رکھیں حکومتوں کو ان کے اغراض و مقاصد پہ اعتراض ہوا ،زندانوں کے دَر کھلے ، کنگرو کورٹس نے سزائیں سنائیں بہت سے سُرخ انقلاب کے حامی پاکستان چھوڑ کے ہندوستان چلے گئے جہاں کی فضا کچھ بہتر تھی بہ نسبت یہاں کے ۔ مگر جو لوگ یہاں رہ گئے انہیں کوئی لالچ یا ڈر خوف اپنے مقصد سے ہٹا نہ سکا یہ لوگ سُرخ انقلاب کے پرچارک تھے ان کے خلاف نہ صرف مذہبی تھے بلکہ  سرمایہ دارانہ ذہنیت اور اس کی پروردہ حکومتیں بھی تھیں جو انہی سرمایہ داروں کی معنوی اولاد  تھیں جو انہیں الیکشن کے لیے مال و زر مہیا کرتے تھے یہ سارا نظامِ زَر ایک ایسے پلیٹ فارم پہ کھڑا تھا جس کے پائے انسانی لاشوں پہ رکھتے تھے۔۔
 سرخ انقلاب کس حد تک کامیاب یا ناکام ہوا اس سے قطع نظر ایک ایسا نظریہ ضرور فعال ہُوا جو استحصالی نظام کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوا یہیں سے مزدوروں ، ورکروں ، ملازم پیشہ افراد اور استحصال طبقے کے زندانوں میں اسیروں کے لیے آواز بلند ہوئی جس کے خلاف ہوتے ہوئے بھی  ، تاجرانہ ، آمرانہ اور ظالمانہ اداروں حکومتوں کو کسی نہ کسی طور کچھ نہ کچھ حقوق دینے پڑے دنیا میں اس تمام جدو جہد کا سہرا انہی انقلابی اذہان کی مرہونِ منت ہے جنہیوں نے ہتھیار نہ ڈالے ۔۔
تو بات ہو رہی تھی انجمن ترقی پسند مصنفین کی جن نے پاکستان کے طول و عرض میں اپنا وجود منوایا اس سے منسلک شاعر ادیب اپنے نعرے شعر برائے زندگی کو رواج دینے میں کامیاب ہوئے جو لوگ اس سے کلی طور پہ ہم آہنگ نہ بھی تھے انہوں نے بھی اس کو چار و ناچار قبول کیا اور اسی ڈگر پہ چلے  اور اگر نہ بھی چلے تو کچھ نہ کچھ اثرات تو سب پہ مرتب ہوئے۔
شفقت عاصمی ترقی پسند مصنفین سے وابستگی رکھتے ہیں ان کی شعری فضا مکمل ترقی پسند تحریک سے متاثر دکھائی دیتی ہے دیکھنے میں یہ آیا کہ مذہبی مزاج رکھنے والوں نے بنا دیکھے اورجانے تمام ترقی پسندوں کو مذہب مخالفین کی صف میں کھڑا کردیا یہ شوشا مذہبی سوچ رکھنے والوں کو اس تحریک کی راہ روکنے کے لیے کیا اگرچہ روس و چائنہ کے انقلاب مذہب بیزار قیادت کے ہاتھوں انجام پزیر ہوئے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ اس سے متعلقین تمام مذہب بیزار ہوں سو شفقت عاصمی نے اپنی شعری مجموعے کی ابتدا حمد سے کی ہے اور حمد بھی میکسم گورکی کے ناول ماں کے کردار کی خدا سے گفتگو سے اخذ ہے  ؛؛
  محبت سے بھر پور سب سے جدا ہو ۔۔۔۔۔            وہ میرا  خُدا میری ماں کا خُدا ہو                                      
اس حمد میںمذہب کا غضبناک چہرا نہی دکھایا گیا اور خُدا کو مہربان دکھانے کی سعی کی گئی ہے ۔
 نعت ِ رسولِ مقبول بھی روایت سے کچھ ہٹ کے ہے جس میں اسلام کو اُس طرف سے دیکھا گیا ہے جو سراپا رحمت ہے سو وہ کہتے ہیں
        محمد نے یوں تو دُعا کی ، دوا کی ۔۔۔مگر صرف تُم نے خطا کی ، دوا کی                                                  ۔    ترقی پسند شعرا پہ یہ الزام بھی بودا ہے کہ وہ صرف خشک اور جمالیاتی حس سے محروم شاعری کے نقیب ہیں اور انہوں نے ادب کو نعرہ بنا رکھا ہے لیکن تقارب کے شاعر کے ہاں جمالیاتی احساس بھرپور رعنائی کے ساتھ موجود ہے 
                    مجھے یاد ہے ٹین کی چھت یہ ٹِپ ٹِپ     یہ بارش کی بوندوں کی سب گنگناہٹ                                                     

شفقت عاصمی صاحب نے تقرب کو بہ وزنِ فعولن ڈھالا ہے اور ساری کتا ب اسی وزن کی پٹری پہ نہ صرف چلتی ہے بلکہ دوڑتی دکھائی دیتی ہے یہ بھی انفرادیت ہے کہ فعولن میں کلام کیا جائے اسی سے حمد، نعت، منقبت ، سلام ، غزل، نظم غرض کہ ہر صنفِ سخن کی عمارت کھڑی کی جائے اوراسی سے ملمع سازی کی جائے ابتدائی صفحات میں انہوں نے اپنی زندگی کی ابتدا سے سال بہ سال کی کہانی ایک ایک شعر میں ملفوف کیا ہے اور یہ سفر2017 تک دکھائی دیتا ہے یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ۔۔
جو آنسو خوشی کا ہو پلکوں پہ اُترا ۔۔۔۔۔ یوں آدھی صدی کا سفر پل میں گزرا
تقرب میں اور بھی کچھ تجربات کیے گئے ہیں جیسے ایک ہی مصرعے پہ تمام مصرعے لگا کے غزل بنائی گئی ہے
مصرعہ یہ ہے ،،تو کمبخت کھائے گا پتھر کسی دن،، ۔۔ ۔
مصرعے پہ مصرعہ لگانے کے لیے بلا شبہ سخت مشقِ سخن کی ضرورت ہوتی ہے جو دکھائی دے رہی ہے
تقرب میں مکالماتی غزلوں نے بھی اپنا رنگ جمایا ہے جس کا ایک شعر یہ ہے ۔
کہو وہ دریچوں کی صندل سی یادیں ۔۔کہا! بھول جاؤ و ہ بچپن کی یادیں
تقرب مسلسل تجرباتی مراحل سے گزرتی دکھائی دیتی ہے ایک مرحلہ جفت یعنی ذو قافیہ تین غزلیں ہیں جس کاایک مطلع یوں ہے
وہ مشکل سا تھا مرحلہ معجزاتی۔۔۔۔کیا جس نے اِک فیصلہ حادثاتی
پیوندِ نمو کے نام سے وبائی غزلیں شاملِ مجموعہ ہیں ۔۔۔
یہ کیسا ستمگر اِشارا ہوا ہے ۔۔بہاروں میں گل سے کنارا ہوا ہے
بلوچستان اور وادیٔ کوئٹہ گلرنگ نظاروں اور پُر ہیبت کوہساروں گنگناتی آبشاروں اور ٹھنڈے میٹھے چشموں کی دولت سے مالا مال ہیں سو انہی نظاروں اور اطراف کی جغرافیائی اقدار اس مجموعے میں جابہ جا بکھری پڑی ہیں یہ مجموعہ بلا شبہ رنگا رنگ گیتوں ، غزلوں نظموں کو مختلف وادیوں سے گھماتا سیر کراتا وادیٔ سخن میں پڑاؤ کرتا ہے
سُرخ انقلاب کے گیت گانے والے شاعر کے پاس غزل کے ایسے مطلعے ہوں تو کیا خوشی نہ ہوگی؟
فریب اِ ک برابر کبھی بے یقینی۔۔۔۔۔نشاطِ شبِ وصل اَفعی گزینی
کہاں زخم گہر اہُوا ہے رفو گر۔۔تو ایسے ہی سہما ہوُا ہے رفو گر
آخر میں عرض یہ کرنا ہے کہ تجربات کرنے والے ہی نئی راہیں کھوجتے ہیں کبھی یہ تجربے نامکمل بھی رہ جاتے ہیں کبھی کامیاب بھی ہو جاتے ہیں نامکمل تجربات نئے آنے والوں کو دعوت دیتے ہیں اور یہ انسانی ارتقائی دائرہ ہے جو کبھی مکمل نہیں ہوسکتا ہم بھی اسی دائرے میں چل رہے ہیں آپ بھی چلیئے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں