Zulfiqar Ali shah 135

بلاول بھٹو کا دورہ امریکہ

ذوالفقار علی شاہ

چنددن پہلے 2مئی کو لکھے کالم ’’بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ ‘‘ میں عرض کیا تھا کہ ’’ ملکی سیاسی تاریخ میں پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے ہی انوکھی مگر مثبت روایات قائم کرنے کا شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔ یہ واحد پارٹی ہے جس کی پوری لیڈر شپ نے ہی سب سے بڑھ کر جمہوریت کے لئے قربانیاں دیں اور وہ بھی جانوں کے نذرانوں کی صورت میں۔ اب اس پارٹی کے بانی چیئر میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جانشین بیٹی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے لختِ جگر نے اپنے نانا کی طرح جس سیاسی سفر کا آغاز کیا ہے وہ نانا ہی کی وزارت خارجہ کی کرسی ہے جس پر وہ متمکن ہونے والے سب سے کم عمر وزیر ہیں ‘‘ پروپیگنڈا جب ایک حد سے زیادہ ہو تو ہر انسان اس سے تھوڑا بہت متاثر ہو ہی جاتا ہے اور غور کریں تو آج پاکستان کی سیاست میں جو تباہی کے واضح آثار ہیں اس میں سو فیصد منفی پروپیگنڈا کا ہی ہاتھ ہے لیکن جس دن سے بلاول نے عملی سیاست میں قدم رکھا ہے ہم اس دن سے بغور ان کی سیاست کو دیکھ رہے ہیں اور پھر ان کی عظیم والدہ کی تربیت اور ان کے والد کی دانش کا ورثہ کی جھلک یقینا ان کی سیاست میں نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ دورہ امریکہ ان کی سرکاری ذمہ داری وزیر خارجہ کی حیثیت سے ان کا پہلا امتحان تھا اس میں وہ ہماری توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا کہ منفی اور انتہائی سفاک پروپیگنڈاکے دور میں یہ ایک انتہائی کٹھن آزمائش تھی ۔ یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے کسی ایسے ملک کا دورہ
نہیں کیا تھا کہ جس کی اہمیت کم ہوتی بلکہ ان کا پہلا دورہ ہی دنیا کی اکلوتی سپر پاور کا تھا کہ جس کے سفیر کو پاکستان کا وائسرائے کہا جاتا ہے ۔ اس ملک میں جا کر انھوں نے جس اعتماد کا مظاہرہ کیا وہ در حقیقت قابل ستائش اور ان کی پر اعتماد شخصیت کا مظہر ہے ۔ ان کے دورے کی سب سے بڑی کامیابی تو یہی ہے کہ ان کے کٹر سیاسی مخالفین کی جانب سے ان کے دورہ کے حوالے سے کوئی منفی آراء سامنے نہیں آئی سوائے اس کے کہ فواد چوہدر ی نے کہا کہ بلاول کو امریکہ سے جلد واپس آ جانا چاہئے اس سے پہلے کہ حکومت ختم ہو جائے اور انھیں اپنے کرایہ پر واپس آنا پڑے ۔یہ ایک قسم کے دل کے پھپھولے تھے جو انھوں نے پھوڑے ورنہ اگر اس دورے میں بلاول کی کارکردگی میں اگر کوئی کمی ہوتی تو پوری تحریک انصاف نے اس پر واویلا ضرور کرنا تھا ۔
بلاول بھٹو امریکہ میں گلوبل فوڈ سیکیورٹی میٹنگ میں شرکت کے لئے گئے تھے اور کوئی ضروری نہیں تھا کہ وہاں اس کانفرنس سے ہٹ کر ان کی کوئی مصروفیت ہوتی لیکن انھیں جس طرح امریکہ میں پذیرائی ملی اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ اس نوجوان وزیر خارجہ کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا ۔ انھوں نے وہاں پر اپنے ہم منصب امریکن وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے بھی ان کے آفس میں جا کر ملاقات کی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے امریکن میڈیا کے سامنے انتہائی پر اعتماد انداز میں اپنا موقف پیش کیا ۔ پریس کانفرنس کے دوران ان سے تلخ سوالات بھی کئے گئے جس کا انھوں نے برسوں کا تجربہ رکھنے والے عمر رسیدہ وزیر خارجہ سے بھی زیادہ پر وقار طریقے سے جواب دے کر ثابت کر دیا کہ وہ اپنے نانا اور والدہ کے حقیقی جانشین ہیں ۔ جو لوگ اب تک بلاول کو بچہ بچہ کہہ کر اپنے دل کا رانجھا راضی کرتے ہیں بلاول نے بلا شبہ اپنی خدا داد صلاحیتوں سے ان کے منہ بند کر دیئے ہیں ۔ یہ تو ان کا وزیر خارجہ ہونے کی حیثیت سے پہلا دورہ تھا لیکن اس سے پہلے انھیں نے پاکستان کی تاریخ کا وقت اور مسافت دونوں کے مطابق سب سے طویل اور انتہائی کامیاب لانگ مارچ کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا اور امریکہ میں بھی انھوں نے اپنی بہترین کارکردگی سے مستقبل میں اپنے لئے کامیابیوں کے دروازے کھول لئے ہیں ۔ ایسے لگتا ہے کہ بلاول کو کوئی بہت ہی سخت ہیڈ ماسٹر ملا ہے کہ جس نے ان کے صلاحیتوں کی آزمائش کے لئے کسی چھوٹے نہیں بلکہ بڑے امتخانوں کا انتخاب کر رکھا ہے ۔اندازہ کریں کہ امریکہ ایسی سپر پاور کے دورے کے فوری بعد اس کرہ ارض پر دفاعی اور معاشی طور پر دوسری بڑی طاقت چین کے دو روزہ دورے پر روانہ ہو چکے ہیں اور جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو امید ہے کہ اس وقت تک بلاول دورہ چین سے واپس آ چکے ہوں گے ۔امریکہ ایسے پیچیدہ تعلقات رکھنے والے ملک کی نسبت چین ایسے دوست ملک کا دورہ یقینا آسان بھی ہو گا اور سہل بھی اور توقع رکھنی چاہئے کہ ان کا یہ دورہ بھی کامیاب ہو گا اور پاکستان کی بہتری کا سبب بنے گا ۔
بلاول بھٹو زرداری نے جس طرح ایک انتہائی منجھے ہوئے سیاستدان اور تجربہ کار وزیر خارجہ ایسے رویے کا مظاہرہ کیا ہے وہ تو اپنی جگہ لیکن اس دورے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ جب ان سے عمران خان کے دورہ روس کے حوالے سے سوالات کئے گئے تو انھوں نے ایک ذمہ دار محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے عمران خان کے دورے کا دفاع کیا ۔ اب اس کے مقابلہ میں بلاول سے دوگنی عمر کے عمران خان کا رویہ اسی دورہ امریکہ کے متعلق کیا تھا کہ غالباََ مردان کے جلسے میں عمران خان نے کہا کہ اب بلاول امریکہ گیا ہے تاکہ وہ امریکنوں سے بھیک مانگیں ۔ عمران کا یہ بیان بلاول کے بیان سے پہلے تھا لیکن آفرین ہے اس نوجوان پرکہ اس نے بیرون ملک جا کر اپنے پاکستانیوں کے کپڑے نہیں اتارے کہ جس طرح عمران خان جب بھی امریکہ یا کسی اور ملک گئے تو انھوں نے ہر جگہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف فرض سمجھ کر ہرزہ سرائی کی اور جس حد تک ہو سکتا تھا انھوں نے اپنے مخالفین کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس میں پاکستان کی ساکھ تباہ کرکے رکھ دی۔یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا اور جس طرح ائر پورٹ پر بلاول کا پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے استقبال کیا گیا تو بلاول کے لئے بھی پاکستانی برادری سے خطاب کے لئے کسی تقریب کا انعقاد کیا جا سکتا تھا جس میں بلاول بھٹو بھی عمران خان کے خلاف دل کی بھڑاس نکالتے لیکن یہی فرق ہے عمران خان اور بلاول کی سیاست میں بھی اور تربیت میں بھی ۔ ایک موقع پر جب سی این این کی اینکر نے ان سے عمران خان کی نام نہاد عوامی مقبولیت کے متعلق کچھ تلخ سوالات کئے انھوں نے ان کا بھی بڑے تحمل سے جواب دیا لیکن ان تلخ سوالات سے ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ خان صاحب کے سازشی واویلہ کے برعکس اصل میں امریکہ کا لاڈلا کون ہے ۔ ہمارے خیال میں عمران خان کو بلاول بھٹو زرداری کے ملک و قوم اور خاص طور پر بیرون ملک جا کر اپنے مخالفین کے حوالے سے مدبرانہ رویے سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بیرون ملک جا کر ہرجگہ اپنے مخالفین کے خلاف جس بازاری طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں مستقبل میں اس کا اعادہ نہ کیا جا سکے ۔ یہ ہماری خواہش ضرور ہے لیکن ملتان جلسہ میںجس لچر انداز میںعمران خان نے محترمہ مریم نواز کے متعلق بے ہودہ ریمارکس دیئے ہیں ان سے اس قسم کی اعلیٰ ظرفی کی امید رکھنا حماقت ہو گی ۔70 سال کی عمر تک وہ جس طرح خواتین کے خلاف دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنی پارٹی میں بھی کوئی باوقار اور باعزت خاندانی خواتین سے واسطہ نہیں پڑا وگرنہ وہ اس لفنگے سیاست دان کی تھوڑی بہت تو اخلاقی تربیت کرکے اسے ماں،بہن،بیٹی کے مقدس رشتوں کی نزاکت کا احساس ضرور دلاتیں۔اور عمران خان کو مخصوس نشتوں پر آنے والی خواتین کے بارے میں نازیبا جملے کسنے کی جرأت کبھی نہ ہوتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں