anwar sajdi 118

نئے دور کا سلطان صلاح الدین

انور ساجدی

ہم لوگ ریاست کے پایہ تخت اسلام آباد سے بہت دور ہیں اس لئے وہاں کی اندر کی باتوں کا ہمیں دیر سے پتا چلتا ہے جبکہ اسلام آباد اورراولپنڈی کے لوگوں کو سرے سے معلوم نہیں کہ بلوچستان بھی ریاست کا ایک حصہ ہے اور وہاں کے لوگ بھی اس کے باشندے ہیں۔ایک دفعہ کسی شخص سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ گیس کہاں سے آتی ہے تو اس نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ بھلا یہ کونسا سوال ہے ہر ایک کوپتہ ہے کہ گیس پائپ لائن سے آتی ہے۔
گیس پائپ لائن سے یاد آئی کہ ان دنوں پیر کوہ جو کہ سوئی کے بعد گیس کی بڑی فیلڈ ہے اور وہاں کی گیس ریاست کے کونے کونے میں جارہی ہے لیکن اس علاقے کے لوگ آج کل ہیضے کی لپیٹ میں ہیں اعداد وشمار تو نہیں ہیں لیکن اندازہ ہے کہ درجن کے قریب جن میں اکثریت بچوں کی ہے ہلاک ہوچکے ہیں اور متاثرین کی تعداد تین ہزار تک پہنچ چکی ہے۔سن2005 میں پی پی ایل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں ایک سو ارب روپے کا منافع ظاہر کیا تھا گزشتہ17برسوں میں یہ منافع کم از کم پانچ چھ گنا بڑھ چکا ہوگا اگر یہ منافع 6کھرب روپے ہے تو پی پی ایل سے یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ اگر مقامی لوگوں پر اس کا ایک فیصد یعنی5ارب روپے خرچ کئے جائیں تو کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا پہلے کی بات اور تھی 18ویں ترمیم کے بعد کمپنی بہادر پر لازم ہے کہ وہ کچھ رقم علاقہ پر خرچ کرے لیکن پی پی ایل نے اپنی ایک الگ دنیا بنارکھی ہے وہ اپنے باہر سے آئے ہوئے ملازمین کو بند دیواروں کے اندر رکھتی ہے اور ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہے لیکن کمپنی کے نزدیک ضلع ڈیرہ بگٹی کے مقامی لوگ ریڈانڈین کی حیثیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ1952 سے گیس نکلنے کے بعد یہاں کے لوگوں کو اس سہولت سے محروم رکھا گیا۔ یہ پی پی ایل ہے کہ جس کی وجہ سے بلوچستان شعلوں کی لپیٹ میں آیا اوریہ شعلے بجھنے کا نام نہیں لیتے سوئی فیلڈمیں ڈاکٹر شازیہ کا جو واقعہ ہوا اس کی وجہ سے نواب صاحب نے احتجاج شروع کیا لیکن جنرل مشرف نے ایک افسر کی زیادتی کو نہ صرف تحفظ دیا بلکہ اسے بچانے کیلئے جو کچھ کیا اس سے ایک بڑے المیہ نے جنم لیا جنرل مشرف نے ریاستی پالیسی کے تحت بمباری کرکے نواب صاحب کو شہید کردیااور یہ نہ سوچا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا جب 2006 میں نواب صاحب کی شہادت ہوئی تو کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ ایک ایسی تحریک شروع ہوگی جو کوہ سلیمان سے لیکر جیونی تک پھیل جائیگی نواب صاحب نے ساحل ووسائل کے دفاع کا نعرہ بھی بلند کیا تھا بہت سے حکمران ساحل اور وسائل دونوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہیں۔
دراصل پایہ تخت کے لوگ بلوچستان کی سرزمین اس کے جغرافیہ اس کی تاریخ اور لوگوں کے اذہاں کو جانتے نہیں ہیں ایک طرف وہ بلوچستان کے وسائل پر قبضہ جمائے جارہے ہیں تودوسری جانب لوگوں کی تضحیک وتذلیل کرکے انہیں حقیر سمجھ رہے ہیں ویسے تو اس سلسلے کی کافی مثالیں ہیں لیکن تازہ مثال ایک گیت واجہ ہے جو ایک گلوکار شہزاد رائے نے اپنی آواز میں پیش کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک بلوچستان کے لوگوں کی کی کیادقعت ہے وہ ایک بڑے انسانی المیہ کو حل کرنے کی بجائے ایک ترانہ بناکر اس کے حل کے طور پر پیش کررہے ہیں یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر ڈیرہ بگٹی یا آواران کے بچے ایڑیاں رگڑ کر مررہے ہیں وہاں ڈھنگ کے اسپتال نہیں ڈاکٹرنہیں اسپرو کی گولی نہیں وہ منظرسوشل میڈیا پر سب سے نے دیکھا ہوگا کہ ایک معصوم بچے کو چٹائی پر ڈال کر ڈرپ دیاجارہا ہے یا پیرکوہ کی ایک چھوٹی سی بچی اپنی ماں کی گود میں آخری سانسیں لے رہی ہے تو بتایا جائے کہ ریاست نے آج تک یہاں کے لوگوں کو کیا دیاہے؟اگر وہ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں۔حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نواب اکبر خان جیسابڑا آدمی کچھ سوچے بغیر اس سرزمین پر اپنی جان دے سکتا ہے اور ایک تعلیم یافتہ نوجوان خاتون اپنی زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے تو آنے والے طوفانوں کو کون روکے گا۔
حکمران لاکھ چھپائیں لیکن سی پیک میں تیزی نہیں آسکتی غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آسکتی جس کی وجہ سے ریاست کی آمدنی میں اضافہ ممکن نہیں جبکہ اخراجات بے تحاشہ ہیں اور بڑھتے جارہے ہیں تو بقا کس طرح ممکن ہے نازک معاشی صورتحال کے باوجود حکمران بچوں کی طرح لڑرہے ہیں اور انہیں پرواہ نہیں کہ ان کی ریاست کہاں جارہی ہے 2014 میں جب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دے کر پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر اور سپریم کورٹ کا گھیرا ؤکیا تھا تو محمود خان اچکزئی کے بقول میاں نوازشریف بہت گھبراگئے تھے جب میں اور میرحاصل خان بزنجو ان کے پاس گئے تو ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ہم نے کہاں میاں صاحب اٹھیں اور پارلیمنٹ ہاؤس چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں وہاں جاکر مقابلہ کرتے ہیں بھاری اکثریت کے باوجود میاں نوازہمت ہار بیٹھے تھے چنانچہ یہ لوگ انہیں اٹھا کر پارلیمنٹ ہاؤس لے گئے اور زرداری نے اٹھ کر کہا کہ ہم عمران خان کے بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے چنانچہ بہت بڑی پشت پناہی کے باوجود عمران خان ہار گئے لیکن ان کے سرپرستوں نے ہار نہیں مانی اور انہوں نے ایک نئی ڈاکٹرائن تشکیل دے کر2018 کے انتخابات میں انہیں کامیابی دلائی سرپرستوں کا خیال تھا کہ عمران خان ان کے مطلب کا آدمی ہے وہ بھی نسیم حجازی کے ناولوں کو سچ مانتا ہے کہ انہی ناولوں کوبنیاد بناکر ایوب خان نے پاکستان کا نصاب ترتیب دیا تھا اور وہ نصاب آج تک چلاآرہا ہے اس کم بخت نصاب میں ان تمام مقامی ہستیوں کے نام خارج کردیئے گئے ہیں جن کا تعلق اس سرزمین سے تھا جس پر آج تک پاکستان استوار ہے مثال کے طور پر ہم نے فاطمہ بنت عبداللہ کی کہانی
پڑھی اس خاتون کا تعلق لبنان کے ایک شہر طرابلس سے تھا لیکن رائے احمد خان کھرل دولابھٹی پیرپگارا المعروف سوریا بادشاہ شہید محراب خان قلات کی خان بی بی بانٹری لسبیلہ کی جام بی بی چھاگلی اور مغربی بلوچستان کی کردارگل بی بی انہیں اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ ان کے کارناموں کو نصاب میں شامل کیاجائے مثال کے طور پر جنوبی ہند کی ریاست میسور کے سلطان ٹیپو کو ایک بڑا ہیرو بناکر پیش کیاجاتا ہے اور غدار میرصادق پرلعن طعن کی جاتی ہے لیکن قلات کے خان محراب خان اسی طرح کے حالات میں انگریزوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے مجال ہے جو نصاب میں ان کانام آئے ان کے کم بخت سرداروں نے بھی میرصادق اور میرجعفر کی طرح غداری کی تھی اور انگریزوں سے انعام واکرام حاصل کیا تھا لیکن ان کا کوئی ذکرنہیں۔عمران خان نے ایوب خان کے نصاب میں مزید تبدیلیاں کرکے کئی دہشت گرد اور بیرونی حملہ آور مسلمان حکمرانوں کو ہیرو ظاہر کیا ہے حالانکہ اگر یہ ہیرو تھے تو اپنے ممالک کے ہونے چاہئیں ان کا پاکستان سے کیا تعلق تھا؟ عمران خان اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر دین اور ریاست مدینہ کا بے جا استعمال کررہے ہیں میراخیال ہے کہ وہ مدینہ کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں اور آنحضرتؓ کے وصال کے بعد وہاں جو کچھ ہوا وہ اس بارے میں نہیں جانتے لیکن موصوف ظاہر کررہے ہیں کہ وہ ایک نئے سلطان صلاح الدین ایوبی بن کر اپنے اقتدار کو طول دیں گے مجھے یقین ہے کہ وہ صلاح الدین کے بارے میں بھی نہیں جانتے اور انہیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ سلطان کاتعلق عراق کے علاقہ تکریت سے تھا اور ان کا قبیلہ کرد تھا اگر عمران خان اوران کے سرپرستوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ سلطان کرد تھا تو وہ ان کا نام کبھی نصابوں میں آنے نہیں دیں گے عمران خان اور ان کے سرپرستوں کو معلوم نہیں کہ جس ارطغرل غازی کے وہ دلدادہ ہیں وہ ایک چنگیزی نسل کاحملہ آور تھا اور جس نے بلوچوں کو وہاں سے نکال کر اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی ترکی آج بھی حلب، دیار باقر اور دیگرعلاقوں پر حملہ کرتا رہتا ہے کیونکہ اسے خطرہ ہے کہ اس سرزمین کے مالک دوبارہ طاقت میں نہ آئیں۔
بہر حال حکمرانوں نے75سالوں میں جو بھی کیا جو بھی نصاب بنائے جو بھی نظام بنائے وہ سارے کے سارے ناکام ہوگئے ہیں عمران خان کی صورت میں ان کا آخری تجربہ بھی ناکام ہوچکا ہے اسی لئے وہ اپنے آزمودہ سابق وفادار شریف خاندان کو دوبارہ لے آتے ہیں۔لیکن وزیراعظم شہبازشریف کی حالت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری ان سے ملنے گئے تو وہ پسینے میں شرابور تھے گھبراہٹ سے ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں وہ ڈوبتی معیشت عمران خان کے دبا ؤاور سرپرستوں کی چالوں کی وجہ سے بہت پریشان تھے دونوں رہنماؤں نے اٹھ کر انہیں اپنے بازوؤں میں تھام لیا اور کہا کہ گھبرانا نہیں ملک چلانا ہے چنانچہ اس سرپرستی کے بعد شہبازشریف نے مدت پوری کرنے کا اعلان کیا لیکن سیاسی آئینی اور معاشی بحران دیو کی طرح سرپر کھڑا ہے شہبازکے برخوردار حمزہ شہباز کا اقتدار سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ڈانوال ڈول ہے مرکز میں بھی طاقت کے عناصر تقسیم ہیں اور اچھے خاصے لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں۔لیکن عمران خان دوبارہ بھی آجائے تو کیا کرشمہ دکھاپائیں گے ریاست کو پونے چار سال میں انہوں نے ہی اس حال پر پہنچایا ہے اگروہ مدت کی پوری کرتے تو پاکستان ہر صورت میں ڈیفالٹ کرجاتا اور اس کے نتیجہ میں ان کا قصہ ختم ہوجاتا لیکن پی ڈی ایم کی جلد بازی نے انہیں نئی سیاسی زندگی دی ہے لیکن آئندہ چند ہفتوں میں کیا کیا ہوگا یہ وقت سے پہلے کوئی نہیں بتاسکتا البتہ بلوچستان کے بارے میں ایک ہی پالیسی رہے گی چاہے جو بھی آئے۔
۱

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں