95

برائیوں کی جڑ غیر یقینی

ذوالفقار علی شاہ

نئی اتحادی حکومت کے آنے کے بعد جس طرح مہنگائی ہو رہی ہے اور ہر روز ڈالر کی اڑان اوپر ہی اوپر جا رہی ہے اس سے بلا شبہ نئی حکومت کے متعلق عوام میں بہت ہی غلط تاثر جا رہا ہے لیکن اس کے محرکات عوام کے سامنے لانے میں حکومتی ترجمان بری طرح ناکام ہیں وہ تحریک انصاف کے شعلے اگلتے پراپیگنڈہ میڈیا سیل کے جھوٹ طوفان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت سے محروم ہیں اسی لئے وہ عوام کو باور کرانے میں کامیاب نہیں ہوپارہے کہ مہنگائی اور معاشی حالت کے دگرگوں ہونے میں نئی حکومت کا قصور نہیں بلکہ یہ تو گذشتہ حکومت کی معیشت کے راستے میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے ساتھ ساتھ بے یقینی کی کیفیت کا زیادہ قصور ہے بلکہ سب سے زیادہ قصور بے یقینی کی کیفیت کا ہے ورنہ آپ کو یاد ہے کہ جس دن سپریم کورٹ نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا تھا تو بے یقینی کے سائے چھٹتے ہی صرف دو دن میں ڈالر 6روپے نیچے آ گیا تھا اور اسٹاک ایکسچینج 1500پوائنٹ اوپر چلی گئی تھی ۔اسی حوالے سے پہلے کچھ گذارشات سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہ جس میں منحرفین کی رکنیت ختم کرنے کا کہا گیا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے منحرفین کی رکنیت کے حوالہ سے اپنے فیصلے کو موخر کیا ہے کہ پہلے ان کا موقف سنا جائے گا ۔ اس فیصلے کے اثرات وفاق پر تو نہیں پڑیں گے اس لئے کہ آئین کے تحت پارٹی پالیسی سے انحراف دو صورتوں میں کسی رکن کی رکنیت ختم کر سکتا ایک پارٹی کی ہدایات کے برخلاف بجٹ میں ووٹ دینا اور دوسرا اعتماد یا عدم اعتماد کے وقت پارٹی کی ہدایات کے برعکس کسی امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنا ۔ اس فیصلے پر تحریک انصاف کی جانب سے خوب بغلیں بجائی گئیں حتیٰ کہ عمران خان نے بھی اس دن جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے نے پاکستان میں اخلاقیات کو ختم ہونے سے بچا لیا ۔اسی طرح حکومت مخالف جتنے بھی حلقے تھے انھیں اس فیصلے سے خوشی ہوئی لیکن یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کو اگر کہیں سب سے زیادہ مسئلہ تھا تو وہ پنجاب اسمبلی تھی ۔ اب کسی کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب اسمبلی میں اگر کسی جماعت کے ارکان کم ہوں گے تو وہ تحریک انصاف ہے ۔اب قائد ایوان کے انتخاب کا طریقہ کیا ہے کہ پہلی مرتبہ گنتی میں ضروری ہے کہ ایوان کے کل ارکان کی اکثریت حاصل ہو لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر دوسری مرتبہ ووٹنگ میں سادہ اکثریت لینے والا وزیر اعلیٰ منتخب ہو جائے گا ۔اس طرح دیکھا جائے تو سمجھ آتی ہے کہ اس فیصلے سے کس کے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور کس کے کمزور کیونکہ میڈیا میں پلس مائنس کرنے کے بعد جو نمبر سامنے آ رہے ہیں اس میں حمزہ شہباز کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے ۔
اس سے ممکن ہے کہ ملک میں جو بے یقینی کی فضا ہے اسے ختم کرنے میں مدد مل سکے ۔اس لئے کہ اس وقت تو کسی ایک جانب سے بے یقینی نہیں ہے بلکہ چہار اطراف سے امڈ امڈ کر بے یقینی کا طوفان ہے کہ جو ملکی فضا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔اندازہ کریں کہ وہ دانشور اور تجزیہ کار کہ جو تحریک انصاف کے کٹر مخالف اور موجودہ حکومت کے حامی ہیں اور جن کے تجزیہ فقط عقل کی کسوٹی پر نہیں بلکہ اکثر اندر کی خبر کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور جو تجزیہ خبر کی بنیاد پر ہو اور تجزیہ کرنے والا کہہ بھی رہا ہو کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ خبر کی بنیاد پر کہہ رہا ہے تو اگر وہ بھی درست ثابت نہ ہو تو بے یقینی کے سائے کہاں تک پھیل چکے ہیں اور کس قدر گہرے ہیں اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں ہے ۔مہنگائی اور ڈالر کے ریٹ نہ بڑھیں تو اور کیا ہو گا کہ ایک طرف سکہ بند صحافی کہ جن کا کہا پتھر پر لکیر سمجھا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں حکومت فارغ ہو جائے گی لیکن چوبیس گھنٹے نہیں گذرتے کہ حکومت کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ حکومت آئینی مدت پوری کرے گی ۔ حالات کی یہ آنکھ مچولی اگر جاری رہتی ہے تو اس کے کس قدر بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں اس کا اندازہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران معیشت کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اس سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اس میں یہ نہیں کہ کوئی ایک فریق اس کا ذمہ دار ہے بلکہ حصہ بقدر جثہ ملک کے اندر اور بیرون ملک کسر کوئی نہیں چھوڑ رہا ۔قطر میں آئی ایم ایف سے مذاکرت ہونے ہیں لیکن محترم وزیر خزانہ پاکستان بیٹھے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ کیوں جائیں جب انھیں اس بات کا یقین ہی نہیں کہ حکومت نے رہنا ہے یا گھر جانا ہے ۔ جب وفاقی وزیر کا طرز عمل یہ ہو گا تو معاشی حالات اگر بگڑیں گے نہیں تو کیا سدھریں گے ۔ ہم نے اپنے گذشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ نواز لیگ اس سسٹم کے ساتھ چل نہیں پا رہی اور ان میں سب سے بڑی وجہ فون کالز بتائی جا رہی ہیں کہ جن میں کبھی مشکل فیصلوں کی ہدایت دی جاتی ہے اور کبھی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کا کہا جاتا ہے ۔
جو جس سے ہو سکتا ہے وہ کر رہا ہے کوئی بھی فریق کم نہیں کر رہا ۔ امریکہ بہادر اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہو رہا اور اگر بلاول کے دورے سے پاکستان کو کچھ مل جاتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہو گی کہ اس سے پہلے مفتاح اسماعیل ایسا تجربہ کار وزیر خزانہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کر چکا ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا ایسی صورت میں اگر بلاول امریکہ سے کچھ لے آتے ہیں کہ جس کے امکانات کم ہی ہیں تو یہ صرف بلاول کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی ایک بڑی اچھی خبر ہو گی کہ جس سے موجودہ حکومت کو یقینا کچھ عرصہ کے لئے استحکام نصیب ہو گا اور وہ اپنے ایجنڈے پر کام کر سکے گی اور اگر امریکہ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا تو موجودہ حکومت کے لئے ظاہر ہے کہ مشکلات ہوں گی لیکن یہ تو طے ہو چکا ہے کہ حکومت نے پٹرولیم کی قیمتیں فی الحال نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور آئی ایم ایف سے بھی یہی بات کہی جائے گی کہ اس کی شرائط حکومتی اخراجات میں کٹوتی کر کے پوری کر دی جائیں گی ۔اس بات کو آئی ایم ایف کے احکام مانتے ہیں یا نہیں لیکن یہ ایک الگ بحث ہے اصل بات یہ ہے کہ ہم جو اپنے آپ کو محب وطن کہتے نہیں تھکتے کیا ہماری کوئی ذمہ داری نہیں کیا ہمارا کوئی کردار نہیں ۔کیا اس بے یقینی کی فضا کو ختم کرنے کے لئے ہم پر کوئی فرض عائد نہیں ہوتا اگر ہوتا ہے تو پھر جو حکومت آئی ہے اسے کام کرنے دیا جائے اگر اسے کام نہیں کرنے دینا تھا تو پھر لایا ہی کیوں گیاکب تک ہم فاؤل پلے کھیل کر اس سے ملک و قوم کے لئے اچھے نتائج کی توقع کرتے رہیں گے موجودہ حکومت کے اگر ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے گہرے پانیوں میں چھوڑیں گے تو اس نے ڈوبنا ہی ہے لیکن یہ بات نہ بھولیں گذشتہ 74سالوں کے تجربوں نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ جب ہاتھ پاؤں باندھ کر چھوڑتے ہیں تو صرف حکومتیں ہی نہیں ڈوبتی بلکہ ملک و قوم کے مفادات بھی ڈوب جاتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں