anwar sajdi 160

شکستہ بت اورانقلاب

انور ساجدی

مخالفین کا کہنا ہے کہ قتل کی سازش کا انکشاف صرف ڈرامہ ہے جس کا مقصد مقتدرہ کے بڑوں کو بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں ہے جس طرح سازشی مراسلہ ایک ڈرامہ تھا یہ بھی اسی کی کڑی ہے جوں جوں وقت آگے بڑھے گا کپتان نت نئے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور ایک دن ان ا فراد کا نام بتادیں گے کہ انہیں کس کس نے مل کر نکالا۔ اقتدار سے معزولی نے کپتان کو اتنا حواس باختہ کردیا ہے کہ اپنے دشمنوں کو طریقہ بتادیا ہے ان کی زندگی اور سیاست کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے۔
یہ اقتدار کس قدر بری بلا ہے اس سے جدائی کا تصور کرنا ہی محال ہے اگر کوئی اس کا فراق پوچھے تو عمران خان سے پوچھے اچھا خاصا انسان اپنے ہوش کھوچکا ہے گوکہ ابھی تک ان کے غیر ملکی سازش اور غلامی نامنظور کے بیانیہ کو عوام میں اچھی خاصی پذیرائی مل رہی ہے لیکن ان کے بلنڈر اور حواس باختگی جاری رہی تو 20مئی کے بعد لوگ ان کا تمسخراڑانا شروع کردیں گے۔
خان صاحب نے اپنے قتل کی سازش کا انکشاف کیا ہے یہ تو ابھی تک سازش ہے لیکن4اپریل 1979 کو بھٹو کا ہونے والاجوڈیشل مرڈر،27اکتوبر2007 کو بینظیر بھٹوکا قتل ہوا ۔خان صاحب کا تو ابھی بال بھی بیکا نہیں ہوا کوئی انہیں بتائے کہ سیاست میں صرف اقتدار نہیں ملتا جیل بھی جانا پڑتا ہے، جیل کے
گول چکر کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، سزائیں بھی ملتی ہیں یہ تو نہیں کہ ایک پارٹی بنائی دھرنا دیا اور یارلوگوں نے حساب کتاب برابر کرکے تخت پر بٹھادیا اگر دیکھاجائے تو خان صاحب کی اصل سیاست اب شروع ہوئی ہے اقتدار کے جانے کے بعد وہ شہر شہر گھوم رہے ہیں اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کررہے ہیں کل پہلی مرتبہ کہا کہ وہ انقلاب لارہے ہیں انقلاب کا مطلب سب کچھ تہہ وبالا کردینا پورا نظام آئین اور طرز حکمرانی تبدیل کردینا ہوتا ہے۔ اگر انقلاب سے مراد یہ ہے کہ میں کیسے دوبارہ اقتدار میں آؤں تو یہ کوئی انقلاب نہیں ہوا بلکہ یہ محض کرسی کا لالچ ہے جس کی عادت ساڑھے تین سال میں خان صاحب کوپڑی ہے۔
موصوف نے پونے چارسال باتیں تو بہت کیں لیکن ایک بار بھی نہیں سوچا کہ پاکستان موسمیاتی تغیر کی وجہ سے صحرا میں تبدیل ہورہا ہے اس کے دریا سوکھ گئے ہیں زراعت ختم ہورہی ہے جو60فیصد لوگوں کا ذریعہ روزگار ہے انہوں نے سونامی ٹری منصوبے کا اعلان تو کیا تھا لیکن اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود یہ منصوبہ صرف کاغذوں پر رہا انہوں نے خود گزشتہ انتخابات کے موقع پر کہا تھا کہ وہ پشتونخوا میں سینکڑوں چھوٹے ڈیم تعمیر کریں گے اور 20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے لیکن انہوں نے تو ایک ڈیم بھی نہیں بنایا اور ایک میگاواٹ بجلی پیدا نہیں کی الٹا بجلی کے آدھے کارخانے بند کردیئے۔کیونکہ انہیں چلانے کیلئے ایندھن نہیں تھا خان صاحب نے50لاکھ گھردینے اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی کیا تھا دونوں وعدے ہنوز تشنہ تعبیرہیں۔ انہوں نے لگژری سامان امپورٹ کرنے کا سلسلہ بھی بند نہیں کیا اس وقت کروڑوں بچے بھوکے ہیں لیکن کراچی،لاہور اور اسلام آباد کے سپراسٹوروں میں کتے اور بلیوں کی غیر ملکی خوراک کے الگ حصے قائم ہیں کتوں کو نہلانے کے شیمپو انسانوں کے شیمپو سے زیادہ مہنگے ہیں۔
خان صاحب کو اپنی زندگی کی فکر ہے وہ موت سے ڈرتے ہیں لیکن اگر زندگی کا حشر دیکھنا ہے تو بلوچستان آکر دیکھیں جہاں زندگی کی کوئی قدر کوئی قیمت نہیں ہے یہاں پر ہر لمحہ موت رقصاں رہتی ہے کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کب غائب ہوجائے اور کب زندگی کی بازی ہار جائے اگرخان صاحب کو موت کا خوف ہے تو ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں جائیں جہاں سینکڑوں لوگ گندا پانی پینے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں اگر انہوں نے بے بسی اور بے چارگی کی موت دیکھنی تھی تو فہمیدہ مرزا کے ساتھ انڈس ڈیلٹا کے لوگوں کو دیکھتے جو پانی کی کمی،بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرنے پر مجبور ہیں۔
اگرانہوں نے واقعی انقلاب لانا تھا تو ان غریب طبقات کیلئے لاتے جو آج بھی بے بسی لاچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کی تو پوری زندگی اشرافیہ کی مانند گزری ہے ایسی پر تعیش اورلگژری زندگی شائد کسی نے گزاری ہو کون نہیں جانتا کہ ان کے سارے ڈراموں کا مقصد اپنے ناراض دوستوں سے این آر او لینا اور دوبارہ اقتدار میں آتا ہے انہیں معلوم نہیں کہ اسلام آباد میں چند ہزار لوگ لانے سے کوئی انقلاب نہیں آتا۔اگر وہ لاکھوں لوگ لاسکتے تو لے آتے اور اعلان کرتے کہ وہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، خانوں اورسرداروں کیخلاف اعلان جنگ کرتے ہیں۔ وہ عوام کو بتادیتے کہ وہ نہ صرف غیر ملکی
غلامی کو نہیں مانتے بلکہ وہ اندرونی غلاموں کیخلاف بھی اعلان جہاد کرتے ہیں وہ بتاتے کہ وہ غریب عوام کی بالادستی کیلئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں لیکن وہ ایسا کچھ کرنے والے نہیں ہیں وہ صرف ایسے انجینئرڈ انتخابات چاہتے ہیں جن میں ان کی کامیابی یقینی ہو خان صاحب کو معلوم نہیں آج تک کوئی انقلاب مغربی جمہوریت کے ذریعے نہیں آیا چاہے وہ ما ؤکا انقلاب ہو، لنین کا ہو، کاسترو کا ہو یا امام خمینی کا انقلاب ہو۔ خان صاحب تو اقتدار کی بھیک مانگ رہے ہیں حالانکہ انہیں پتہ ہے کہ آج تک کسی وزیراعظم کو اقتدار منتقل نہیں ہوا البتہ کرسی ضرور ملی سوال یہ ہے کہ وہ ایسی بے اختیار کرسی کے دلدادہ کیوں ہیں جب وہ ملک میں تبدیلی نہیں لاسکتے آزادی کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے اپنے عوام کی حالت نہیں بدل سکتے تو ایسی کرسی کا کیافائدہ۔حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ کا ایک کھلاڑی بہ وجہ فرماں برداری رولنگ ایلیٹ کاحصہ بن گیا تھا لیکن انہوں نے آزمانے کے بعد اسے دھتکاردیا لیکن یہ بات خان سے ہضم نہیں ہورہی ہے وہ ہر قیمت پر پاکستانی ایلیٹ کا حصہ بننا چاہتے ہیں بلکہ اس کا سربراہ رہنا چاہتے ہیں۔اگر انہیں کرسی چاہئے تو وہ فوج سے لڑکر سیاسی مخالفین سے لڑکر اور امریکہ کو چیلنج کرکے نہیں ملتی بلکہ ان سے سمجھوتہ اور صلح کرنے کی صورت میں ملتی ہے اگر انہیں کرسی چاہئے تو وہ معافی تلافی کرکے آسکتے ہیں لیکن اس طرح لڑنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئیگا البتہ اگر وہ انقلاب برپا کا اعلان کریں اور عوام کو اپنے پروگرام سے آگاہ کریں تو انہیں بے پناہ عوامی قوت حاصل ہوسکتی ہے بشرطیکہ بندہ ایماندار ہوں اس کے عزائم رائج ہوں اور ان کا ایمان مضبوط ہو۔
ابھی تک تو خان صاحب میں ان اوصاف کی کمی ہے شائد آئندہ چل کر وہ اپنے اندر انقلابی صفت پیدا کرلیں یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں نے9اپریل کو انہیں تخت سے اتارا ہو اور وہ لوگ بلیک میل ہوکر چند ہفتوں میں انہیں دوبارہ تخت پیش کردیں عمران خان کو ایک لمبے مرحلے سے گزرنا پڑے گا اور انہیں انتہائی نامساعد صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے جن میں کرپشن کے اسکینڈل غیر اخلاقی اسکینڈل اور خرچ گوگی جیسے اسکینڈل شامل ہیں کیونکہ جن لوگوں نے تراش خراش کرکے ان کا بت بنایا تھا انہوں نے ہی انہیں نیچے گرادیا ہے اور وہی اس بت کو دوبارہ ترتیب دے سکتے ہیں یا ان کی جگہ کوئی اور بت کھڑا کردیں گے پاکستان میں حالات اتنے تبدیل نہیں ہوئے کہ یہاں پر آزادانہ انتخابات ہوں اور شفاف جمہوریت آئے یہ منزل ابھی بہت دور ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں