98

ملک میں سیاسی استحکام کب آئے گا؟

ذوالفقار علی شاہ

کس ملک سے دشمنی کرنی ہو تو اس کے لئے یہی کافی ہے کہ اس ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر دو ۔ اس کے بعد آپ کو کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ باقی سب کچھ از خود ہوتا چلا جائے گا ۔عمران خان کو 2013میں مسئلہ تھا کہ 35پنکچرز لگائے گئے اور اس کے بعد انھوں نے حکومت کو چین نہیں لینے دیا لیکن جب کچھ ثابت نہ ہو سکا تو کہا کہ وہ تو سیاسی بیان تھا لیکن ان کے اس سیاسی بیان کی ملک و قوم کو کتنی قیمت چکانی پڑی اگر کبھی فرصت ملے تو یہ ضرور سوچئے گا ۔ 2018کے الیکشن میں تحریک انصاف کو وفاق ، کے پی کے ، بلوچستان اور پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے اس لئے خان صاحب سڑکوں پر نہیں نکلے لیکن جیسے ہی ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوتی ہے اور انھیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ وزیر اعظم نہیں رہیں گے تو اس دن سے وہ جلسہ جلسہ کھیل رہے ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جلد از جلد نئے انتخابات کروائے جائیں اس لئے کہ انھیں یقین ہے کہ اگر فوری الیکشن ہو جاتے ہیں تو وہ بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اگر فوری الیکشن ہو جاتے ہیں تو ان کے کیا نتائج نکلتے ہیں لیکن ان کی مہم جوئی سے جو نقد نتائج نکل رہے ہیں وہ ملک و قوم کے لئے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں ہیں ۔ملک کی معیشت تو پہلے ہی وینٹی لیٹر پر تھی اور اب جبکہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے اور یہی
نہیں پتا کہ ملک میں کیا ہونے جا رہا ہے آیا موجودہ حکومت رہے گی اور مشکل فیصلوں سے اسے حالات میں بہتری لانے کا موقع دیا جائے گا یا اس حکومت سے مشکل فیصلے کروا کر فوری الیکشن کروائے جائیں گے یا پھر مشکل فیصلوں کا کام بھی نگران ٹیکنو کریٹ حکومت کرے گی ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔میاں شہباز شریف ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر اتحادی جماعتیں جو شرو ع میں کافی پر امید اور پر اعتاد نظر آ رہی تھیں ان کی پر امیدی اور اعتماد کو کیا ہواکہ حکومت سے کچھ ہو نہیں پا رہا اور حکومت کیوں کنفیوژن کا شکار ہے ۔کیا اسٹبلشمنٹ خان صاحب کے دبائو میں آ گئی ہے اور وہ نئے الیکشن چاہتی ہے اگر ایسا ہی کرنا تھا اور اتنی جلدی دبائو میں آنا تھا تو پھر اتنا کھڑاک کرنے کی ضرورت کیا تھی ۔
2007دسمبر میں بی بی شہید کی ایک دہشت گردی کی واردات میںموت ہوتی ہے 2008میں انھیں اقتدار ملتا ہے لیکن ایک دن بھی چین سے حکومت نہیں کرنے دی جاتی حتیٰ کہ میمو کیس بنایا جاتا ہے جس کے متعلق ملک کے مشہور صحافی و ٹی وی اینکر حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ آصف علی زرداری نے اپنے سینے پر زخم کھالئے لیکن ملک کے مفاد میں سازش کرنے والوں کو بے نقاب نہیں کیا ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت بھی اور آج بھی سندھ میں کارکن موجود ہیں جو احتجاج کر سکتے ہیں لیکن انھوں نے ملک کو انتشار سے دو چار نہیں کیا ۔ خیر یہ تو بیچ میں ایسے ہی جملہ متعرضہ آ گیا سوال یہ ہے کہ ہم نے 75سالوں میں بنانے بگاڑنے اور پھر بنانے کے اس لا حاصل اور بے معنی کھیل سے آخر کیا حاصل کیا ۔ہمیں اس سارے گھن چکر میں سوائے ملک و قوم کے نقصان کے اور کیا ملا ۔ہم جملہ بازی میں ماہر ہیں گفتار کے ہم واقعی غازی ہیں اس میدان میں ہمارا دور دور تک کوئی ثانی نہیں اور ہم جو بھی کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے ہم منٹوں میں سو جواز تراش لیتے ہیں ۔بڑی واضح اور کھلی حقیقت ہے کہ جسے کسی طور جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس وقت تیل کی دولت سے مالا مالا ممالک کے علاوہ جس جس ملک میں جمہوریت ہے وہ ملک ترقی کر رہا ہے لیکن اس حوالے سے بھی ہمارے شاندار ذہن نے ایک نہیں کئی جواز تراش رکھے ہیں کہ جن کا جواب نہیں ۔ کہا کہ ہم مسلمان ہیں
ہمارے یہاں مغربی جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ جناب بھٹو صاحب کے دور میں بھی ملک میں مغربی جمہوریت ہی تھی اور آمروں کے طویل ادوار کے مقابلہ میں بھٹو صاحب کے مختصر دور میں جو کا م ہوئے ہیںان کی بدولت لاکھ کوشش کے باوجود بھی بھٹو کو مار نہیں سکے لیکن چلیں اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ جمہوریت سے ہٹ کر جو دوسرے نظام آزمائے گئے کیا وہ نبی پاکﷺ کے دور کا نظام تھا یا خلفائے راشدین ؓ کے دور کا نظام تھا ۔اگر ایسا تھا تو پھر آپ کی بات درست ہے لیکن یہاں تو کسی کو چلنے ہی نہیں دیا گیا جو آیا اس کی ٹانگیں کھینچی گئی ۔ 1988سے لے کر آج تک جو جمہوری حکومتیں آئیں ان کا کیا حشر ہوا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔کیا اس سے ملک میں ایک مرتبہ بھی کبھی کوئی مثبت تبدیلی آئی حتی کہ بڑے زور شور سے اور ارمانوں کے ساتھ عمران خان کو لایا گیا تھا لیکن نتیجہ کیا نکلا ۔ تین سال میں ملک کی تباہی اور ملک دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گیا اور اب پھر سننے میں آ رہا ہے کہ خان صاحب کے جلسوں سے مرعوب ہو کر الیکشن کا کہا جا رہا ہے ۔
ہماری تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے لیکن کیا عمران خان کو اس لئے لایا جا رہا ہے کہ وہ جھوٹ بڑے طریقے سلیقے سے بولتا ہے اور جو تباہی کی کسر پونے چار سال میں رہ گئی ہے اسے پورا کر لیں ۔عمران خان اگر تین سال آٹھ مہینوں میں کچھ نہیں کر سکا تو
اب کیا کرے گا لیکن جو نئے آئے ہیں انھیں کم از کم ہنی مون پیریڈ کے تین ماہ تو دیں تا کہ یہ اپنے ذہن میں آخر کچھ تو منصوبہ بندی کر کے آئے ہوں گے انھیں اپنے پروگرام پر عمل کرنے کا موقع ملنا چاہئے ۔ ان پر اتنا دبائو نہیں ہونا چاہئے کہ وہ پریشان ہو کر کچھ کرنے کے قابل ہی نہ رہیں ۔ہم سب معیشت کا رونا رو رہے ہیں لیکن جناب معیشت کی بہتری کی کلید سیاسی استحکام کی راہداری سے ہو کر گذرتی ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا بھی شکار رہے اور معیشت بھی پاؤں پر کھڑی رہے تو یہ جنرل ضیاء یا جنرل مشرف کا دور نہیں ہے کہ جب کچھ کئے بنا افغان صورت حال کی وجہ سے ڈالروں کی بوریاں پاکستان آیا کرتی تھی ۔ اب تو کچھ کریں گے تو کچھ ہو گا اور اگر معیشت کو بہتر بنانا ہے تو اس کے لئے ملک میں سیاسی استحکام لانا ہو گا اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہر کوئی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی بجائے ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرے اور جو کچھ ہو چکا ہے اس پر مٹی ڈال کر مستقبل کی جانب قدم بڑھائے جائیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر کوئی آئین پاکستان میں دیئے گئے طریہ کار کے مطابق اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرے اور ملک جن بحرانوں کا شکار ہے اس میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر مشکل فیصلے کرنے ہیں تو وہ بھی کئے جائیں تاکہ جس بھنور میں ملک کی کشتی پھنس چکی ہے اس سے تو چھٹکارہ مل سکے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں